تشویشناک فیصلہ
سندھ اور وفاق میں کورونا بحران پر پہلی دفعہ اتفاق ہوا
سندھ اور وفاق میں کورونا بحران پر پہلی دفعہ اتفاق ہوا۔ نویں جماعت سے بارہویں جماعت کے طالب علموں کو بغیر امتحان پاس کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ طلبہ کی گزشتہ سال کی مارکس شیٹ میں درج نمبروں کے مطابق نئی مارک شیٹ تیار ہونگی اور طلبہ کو تین فیصد اضافی نمبر دیے جائیں گے۔
وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کی بناء پر پیدا ہونے والے بحران کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں میں مسلسل تعلیمی تعطل طلبہ کو اس موذی وائرس سے بچانے کے لیے کیا ہے۔ حکومتوں نے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کو پہلے ہی اگلی جماعتوں میں پاس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سعید غنی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال فیل ہونے والے بچے بھی حکومت کی فیاضی سے مستفید ہونگے اور وہ پاس ہوجائیں گے۔
یہ فیصلہ پاکستان کے تعلیمی معیار کے اعتبار سے اہم فیصلہ ہے اور مستقبل میں اس فیصلہ کے دوررس اثرات برآمد ہونگے۔ تعلیمی امور کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نے اس فیصلہ کے مثبت نتائج بیان کرتے ہوئے کہا کہ نقل مافیا پاکستان بھر میں مضبوط ہے۔ ہر سال امتحانات کے موقع پر کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس کاروبار میں اساتذہ ، غیر تدریسی عملہ، تعلیمی بورڈ کے افسران ،تعلیمی محکوں کے کرتا دھرتا طلبہ ، والدین اور سیاستدان ملوث ہوتے ہیں۔ ہر بورڈ جو ہر امتحان کے انعقاد پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے وہ سب بچ جائیں گے۔
تاریخی تناظر کا جائزہ لیا جائے تو حقائق یوں سامنے آتے ہیں کہ 1947ء میں ملک کا بٹوارہ ہوا۔ ہندو مسلمان فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور کئی کروڑ دربدر ہوئے۔ اس بناء پر حکومت پنجاب نے طلبہ کو بغیر امتحان کے پاس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان میں صورتحال خراب ہوئی تو اس صورتحال سے مشرقی پاکستان میں آباد اردو بولنے والی برادری براہِ راست متاثر ہوئی ، جو نوجوان آگ اور خون کا سمندر عبور کرکے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
انھیں پاکستان میں خصوصی امتحان دینا پڑا۔ ابلاغ عامہ کے استاد اور معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جو مشرقی پاکستان میں خرابی حالات کے دوران راج شاہی سے کراچی آگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کراچی میں میٹرک کا خصوصی امتحان دیا اور اس کا امتحانی مرکز سندھ مدرستہ الاسلام میں بنایا گیا۔
معروف مؤرخ اور ساری زندگی تدریس کے لیے وقف کرنے والے ڈاکٹر مبارک علی نے اس فیصلہ کو افسوس ناک قرار دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایوب خان کے دور میں ہوم اسسمنٹ اسکیم کے تحت ہر کالج کا استاد 25 نمبر تک دے سکتا تھا جب کہ باقی 75 نمبروں کا امتحان دینا پڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی بھی ملازمت کے انٹرویو میں ہوم اسسمنٹ کے نمبروں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور بالآخر یہ اسکیم ختم کردی گئی۔ تعلیمی ماہرین کو اس بات پر تشویش ہے کہ یہ فارغ التحصیل طلبہ جب پروفیشنل اداروں اور یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں شرکت کریں گے ۔ ایسا نہ ہوکہ اکثریت ان ٹیسٹ کو پاس نہ کرسکے یا پھر یہ مطالبہ نہ ہو کہ ٹیسٹ کا معیار کم کردیا جائے۔
جرمنی کی انجنیئرنگ یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز ٹیلی کمیونیکیشن میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علم عرباض احمد خان کو یہ تشویش ہے کہ تعلیمی بورڈ 500 نمبر کی بنیاد پر طالب علم کو کامیابی کے مارکس شیٹ جاری کریں گے جس کے نتیجہ میں یورپی ممالک اور امریکاکی یونیورسٹیاں ان مارکس شیٹ کی بنیاد پر ان پاکستانی طلبہ کو داخلے نہیں دیں گے۔ عرباض احمد خان کا مزید کہنا ہے کہ انٹر کا امتحان پاس کرنے والے بہت کم طلبہ باہر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
زیادہ Oاور A لیول کے سرٹیفکیٹ والے طلبہ یورپی ممالک اور امریکا میں داخلہ لیتے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس دنیا کے چھ ممالک جس میں اسرائیل، ناروے، جاپان، چین، ڈنمارک اور تائیوان نے امتحانات کی تیاری کے لیے اسکول کھول دیے ہیں۔
ان اسکولوں میں حفاظتی طریقوں پر سختی سے عمل ہورہا ہے۔ اب انٹر پاس کرنے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طلبہ سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ ان کے مستقبل پر اثرانداز ہوگا۔ عرباض احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ امتحانات چھ ماہ کے لیے ملتوی کردیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا بغیر امتحان دیے پاس ہونے کی صورت میں ہوگا۔ تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومتیں امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں جب سے جدید ٹیکنالوجی روشناس ہوئی ہے ،امتحانات میں نقل کے جدید طریقہ رائج ہوگئے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی تعلیمی بورڈ امتحانی پرچوں کی تیاری کا سلسلہ تعلیمی سال کے شروع ہونے کے چند ماہ بعد کردیتے ہیں۔ ہر مضمون کے ماہر اساتذہ کو پرچے تیار کرنے کا طریقہ سونپا جاتا ہے۔ اساتذہ کے تیار کردہ یہ پرچے بورڈ کے سیف ہاؤس میں محفوظ کردیے جاتے ہیں۔
بڑے شہروں میں قائم بورڈ کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہر مضمون ماہر اساتذہ کے ترتیب دیے گئے سوال ناموں (امتحانی پرچہ) میں سے ایک سوالنامہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ عمل امتحانی پرچہ کی تاریخ سے ایک دن قبل ہوتا ہے۔ پھر رات گئے تک یہ سوالنامہ شایع ہوتا ہے اور پھر صبح یہ سوالنامہ پر مشتمل پرچہ امتحانی مرکز روانہ کردیاجاتا ہے۔ اگر امتحان سہ پہر میں ہورہا ہے تو پورا عمل علی الصبح شروع ہوتا ہے۔ جس بورڈ سے منسلک تعلیمی ادارے دور دراز علاقوں میں قائم ہیں وہ بورڈ چند دن قبل یہ عمل شروع کرتے ہیں۔
روایتی طور پر اس پورے عمل کے دوران پرچہ آؤٹ ہونے کی واردات ہوتی ہے مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے نقل کی جدید سہولتیں آراستہ کی ہیں۔ اب کوئی استاد یا کوئی طالب علم کی بات کو تو چھوڑ دیا جائے کوئی نائب قاصد اسکول یا کالج کے دفتر سے کلاس روم تک پرچہ لے جاتے ہوئے اس کی تصویر اپنے اسمارٹ فون سے کھینچ کر فیس بک ، واٹس اپ یا ٹویٹر وغیرہ پر آویزاں کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں مضمون کو جدید بنانے اور نئے باب شامل کرنے کا معاملہ بہت سست رفتاری کا شکار ہے۔
اس بناء پر استاد جو امتحانی پرچہ تیار کرتے ہیں وہ عموماً گزشتہ 4-5برسوں میں آنے والے پرچوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ویسے ہی سوالات تیار ہوتے ہیں جیسے ماضی کے پرچوں میں درج کیے گئے تھے، یوں امتحانی معاملات کو سمجھنے والے اساتذہ اور سابق طالب علم عمومی طور پر ایک امتحانی پرچہ تیار کرتے ہیں اور وہ فروخت کردیتے ہیں۔ اب یہ پرچہ سوشل میڈیا پر امتحان سے پہلے آویزاں ہوجاتے ہیں، یوں خبروں کی تلاش کرنے والے بعض رپورٹر اس بات کی تصدیق کے بغیر کہ یہ حقیقی پرچہ ہے یا نہیں اپنے چینل پر بریکنگ نیوز چلادیتے ہیں، یوں ہر سال امتحانات کی ساکھ کا معاملہ سنگین ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل دنیا بھر کے ممالک نے تلاش کرلیا ہے اور دنیا میں امتحان کے یہ فرسودہ طریقے متروک ہو چکے ہیں۔ ابلاغ عامہ کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز نے بتایا ہے کہ آغا خان بورڈ میں آن لائن امتحان کے طریقے پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے۔ سرکاری تعلیمی بورڈ کے اہلکاروں کو اس تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
حکومت کو یہ چاہیے کہ اس پورے نظام کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پر منتقل کرے۔ امتحانی مرکز میں طلبہ کی نشست کے سامنے کمپیوٹر سے منسلک اسکرین نصب ہو اور پرچہ امتحان شروع ہونے سے چند منٹ قبل تیار ہواور کمرہ امتحان میں کلوز ڈور کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ کنٹرول روم پر سینٹر کی نگرانی کی جاسکے۔ بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان امتحانات کو چھ مہینے کے لیے ملتوی کردینا چاہیے تھا اور اس دوران امتحانات کے طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں اور جدید امتحانی مراکز قائم کیے جائیں اور امتحانات مسلسل لیے جائیں۔
جدید ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام ہی ملک کا سب سے بڑا دفاع ہے اور تعلیمی شعبہ پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ ہونی چاہیے مگر تعلیم ریاست کی ترجیح نہیں ہے، یوں اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے طلبہ پیشگی مبارکباد کے مستحق ہیں اور وفاق اور صوبائی وزراء تعلیم جیسے اتنے اہم مسئلہ پر متفق ہونے پر قومی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ بہرحال غور و فکر کرنے والوں کے لیے یہ فیصلہ تشویشناک ہے۔