پیچیدہ مسائل کا ذہانت سے مقابلہ

عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی غربت اور کرپشن کے خاتمے کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا تھا


اکرام سہگل May 23, 2020

غربت اور وبا دونوں ہی زمینی حقیقت ہیں اور ان کے باعث بیک وقت کروڑوں انسانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جان کے تحفظ اور کاروبارِ زندگی میں توازن برقرار رکھا جائے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی حماقت سے باز رہا جائے۔

کروڑوں افراد تک مدد پہنچانا اور مستحقین کی قابل اعتماد ذرایع سے تصدیق دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ 20کروڑ آبادی رکھنے والے پاکستان جیسے ملک کے لیے ماضی میں یہ ناممکن ہوتا۔ گزشتہ برسوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز دور از کار طریقوں ہی پر کیا گیا تھا۔

اس کے لیے اراکین اسمبلی کو مستفید ہونے والے افراد کی توثیق کا اختیار دیا گیا اور حسب توقع انھوں نے اس میں مستحقین کے بجائے من پسند افراد کے ناموں کا اندراج کروایا۔ اس کے نتیجے میں کئی حق دار اپنے حق سے محروم ہوئے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بی آئی ایس پی میں شامل ایسے 8لاکھ 20ہزار 165افراد کی نشان دہی کی جو اس کے حق دار نہیں تھے اور طرز زندگی کے اعتبار سے بھی ''غربت'' کے لیے متعین کی گئی تعریف پر پورا نہیں اترتے تھے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقوم تقسیم کرنے کے لیے اسمارٹ کارڈ فراہم کیے جاچکے ہیں۔ بائیو میٹرک تصدیق کے کئی طریقے اختیار کرکے نادرا نے مستحق اور حق دار افراد کی نشاندہی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

امدادی رقم فون بینکنگ کے ذریعے منتقل کی گئیں۔ امدادی رقم کی فراہمی کا ایس ایم ایس وصول کرنے کے لیے نادرا کے کاؤنٹرز پر سم اور سیل فون جاری کیے گئے۔ نادرا کا بھیجا گیا ایس ایم ایس اور قابلِ استعمال شناختی کارڈ کی نقل فراہم کرنے پر پوائنٹ آف سیل فرنچائزز سے نقد رقم دی گئی۔

اس سسٹم میں دو کروڑ70لاکھ گھرانے شامل ہیں اور چالیس لاکھ سے زائد بی آئی ایس پی کے ڈیبٹ کارڈ بائیومیٹرک تصدیق کے بعد اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو جاری کیے جاچکے ہیں۔ آسان دست یابی کے لیے بی آئی ایس پی اسمارٹ کارڈ، موبائل، ڈیبٹ کارڈ اور منی آرڈر کے ذرایع فراہم کیے گئے ہیں۔

عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی غربت اور کرپشن کے خاتمے کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا تھا۔ غربت میں کمی کے اسی مقصد کے تحت مارچ 2019 میں ''احساس'' پروگرام شروع کیاگیا۔ حق دار افراد کی نشاندہی میں آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تاحال 2017میں ہونے والی آخری مردم شماری کے نتائج کی سرکاری طور پر توثیق نہیں ہوسکی ہے۔ مزید یہ کہ ادارۂ شماریات نے سال 2018-19کے لیے لیبر فورس کا جو سروے کیا تھا وہ بھی عام نہیں کیا گیا ہے۔ م

ردم شماری، لیبر فورس سروے اور نادرا کا ڈیٹا یکجا کرکے بہ آسانی مستحق افراد کی شفافیت کے ساتھ نشان دہی کی جاسکے گی۔ جب جاری سروے مکمل ہوگا تو بی آئی ایس پی پروگرام کو مزید بڑھانا پڑے گا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ یہ معلومات ایسے ہی دیگر کئی پروگراموں میں بھی کارآمد ہوگی مثلا کورونا وائرس کے باعث پیدا شدہ حالات میں راشن وغیرہ کی تقسیم کے لیے بھی یہ ڈیٹا مدد گار ثابت ہوگا۔ نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری (این ایس آر) مستقبل کے منصوبوں کے لیے سماجی و معاشی حالات کے اعتبار سے نچلی سطح پر ڈیٹا جمع کررہی ہے، یہ ایک جاری عمل ہے جس میں تازہ ترین معلومات شامل ہوتی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر طریقے بھی استعمال ہورہے ہیں۔

جب کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث لاکھوں دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہوئے تو ان کی مدد کے لیے 'احساس ایمرجنسی پروگرام'' تشکیل دیا گیا۔ اس میں امداد سے مستفید ہونے والوں کی ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیق کی گئی۔

اس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں میں 12ہزار روپے فی خاندان تقسیم کیے گئے اور اس کے لیے 144ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد غریب اور پس ماندہ طبقات کے دستر خوان تک خوراک پہنچانا ہے ، ہم اس رقم کے اسی مقصد کے تحت صرف ہونے کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو پروگرام تک عوام کی رسائی آسان کرنے کے لیے فراہمی کے مراکز میں اضافہ کرنا ہوگا۔ تقسیم کے لیے موجودہ طریقہ کار میں چند مقامات ہی پر تقسیم کی جارہی ہے جس کے باعث ہجوم لگ جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں اس طریقہ کار سے وبا کے متاثرین میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کے کئی تخلیقی اور مؤثر حل پہلے ہی دست یاب ہیں اور اس موقعے پر ان سے استفادہ کرکے اس بحران سے بھی بہتری کی ایک راہ نکالی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی طریقوں میں سے ایک یہ ہوسکتا ہے کہ یہ امدادی رقم آسان موبائل اکاؤنٹ کے ذریعے مستفید ہونے والوں کے موبائل اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔ اس اکاؤنٹ کو وہ یوٹیلیٹی اسٹور یا پہلے سے رجسٹرڈ شدہ کریانہ ایجنٹس سے راشن کی خریداری کے لیے استعمال کرسکتے ہوں۔ اسٹیٹ بینک نے آسان اکاؤنٹ کی اسکیم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) اور 15بینکوں کے اشتراک سے بنائی تھی۔ اس کی طویل آزمائش بھی ہوچکی ہے۔ آزمایشی بنیادوں پر چلنے کے بعد یہ باقاعدہ اجرا کے لیے تیار ہے۔ آسان موبائل اکاؤنٹ یو ایس ایس ڈی ڈائل کرنے یا احساس پروگرام میں ریجسٹریشن کے ذریعے بھی بہ آسانی کھلوایا جاسکتا ہے۔

رقم کی منتقلی کے بعد اس پروگرام سے مستفید ہونے والا فردکسی بھی یوٹیلیٹی اسٹور یا رجسٹرڈ شدہ کریانہ ایجنٹ سے 12ہزار یا حکومت کی جانب سے راشن کی خریداری کے لیے متعین کردہ کم سے کم رقم 9ہزار روپے کا راشن خرید سکتا ہے اور یو ایس ایس ڈی کوڈ سے ادائیگی بھی کرسکتا ہے۔ جو رقم سامان کی خریداری میں استعمال نہیں ہوئی ہو اسے موقعے پر نقد کی صورت میں بھی حاصل کر سکتا ہے۔

ملک میں قائم 2ہزاریوٹیلٹی اسٹور اور بڑے اسٹورز کو پوائنٹ آف سیل کے طور پر استعمال کرنے سے نہ صرف رقم کی تقسیم کے مراکز میں اضافہ ہوجائے گا بلکہ جس مقصد کے لیے فراہم کی جارہی ہے اسی پر اس کا صرف ہونا بھی زیادہ بہتر انداز میں یقینی بنایا جاسکے گا۔ پاکستان کی صرف 20فی صد آبادی (تقریباً 4کروڑ 68لاکھ ) بینک اکاؤنٹ رکھتی ہے۔ پی ٹی اے کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد مئی 2019تک 16کروڑ سے تجاوز کرچکی تھی۔ مزید یہ کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں 4G/LTE سروس کی فراہمی سے 3G/4G استعمال کرنے والوں کی تعداد مئی 2019تک 6کروڑ 80لاکھ بھی بڑھ گئی ہے۔

4Gاستعمال کرنے والوں کی تعداد میں ماہانہ بنیادوں پر تیزی دیکھنے میں آئی اور یہ 5Gکے آتے آتے اس کی مارکیٹ 3Gکی جگہ لے لے گی۔ خاص طور پر دوردراز علاقوں میں نقد رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور خریداری کے لیے یہ ذرایع بینکوں کے ذریعے نقد یا کارڈ وغیرہ کے مقابلے میں زیادہ آسان اور قابلِ رسائی ہیں۔ وبا کے باعث مستقبل میں ہمیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ان پیچیدہ راستوں پر ذہانت اور دانش مندی کے ساتھ سفر کرنا ہوگا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کارہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں