پریشانیوں سے نکلنے کے خفیہ راستے
آپ کو شاید یہ باتیں معمولی معلوم ہوں لیکن یاد رکھیے کہ یونان کا عظیم فلسفی ارسطو خود بھی ان پر عمل کرتا تھا۔
رڈیارڈ کپلنگ کہتا تھا ''میرے ہیں چھ دیانت دار خدمت گار، انھوں نے مجھے سکھایا جو میں جانتا تھا نام ہیں ان کے کیا، کیوں اور کب اور کیسے اور کہاں اور کون''۔
اگر آپ پریشان ہیں اور آپ کو اپنی پریشانیوں کا کوئی حل دکھائی نہ دے رہا ہو اور آپ کا دل بار بار بیٹھا جا رہا ہو تو آپ کو مندرجہ ذیل تین بنیادی نکتے ذہن نشین کر لینے چاہئیں اور پھر ان کی مدد سے اپنی پریشانیوں سے نبٹنا چاہیے۔ 1۔غم و فکر اور پریشانیوں سے جن واقعات و حقائق کا تعلق ہو انھیں معلوم کیجیے۔ 2۔ان حقائق و واقعات کا تجزیہ کیجیے۔ 3۔کسی نتیجے پر پہنچئے اور پھر اس فیصلے کے مطابق عمل کیجیے۔
آپ کو شاید یہ باتیں معمولی معلوم ہوں لیکن یاد رکھیے کہ یونان کا عظیم فلسفی ارسطو خود بھی ان پر عمل کرتا تھا اور اپنے شاگردوں کو بھی ان ہی کی تلقین کرتا تھا اگر ہم اپنے مسائل کو حقیقتاً حل کرنا چاہتے ہیں جنھوں نے ہماری زندگی دوزخ میں تبدیل کرکے رکھ دی ہے تو ہمیں بھی ان پر عمل کرنا ہوگا اس کے علاوہ اپنے مسائل اور پریشانیوں سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر آپ ارسطو سے بھی بڑے فلسفی اور دانشور ہیں اور آپ کے پاس مسائل اور پریشانیوں سے نکلنے کا کوئی اور دوسرا راستہ موجود ہے تو آپ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ خدارا وہ راستہ ہمیں بھی بتا دیں تاکہ ہم ارسطو کو خوب برا بھلا کہہ سکیں۔ چونکہ ابھی تک آپ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا ہے اس لیے آئیں ارسطو کے ان تینوں طریقہ کار پر بات کرتے ہیں۔
حقائق معلوم کرنا کیوں اتنا ضروری ہوتا ہے؟ اس لیے کہ جب تک ہمیں حقائق معلوم نہ ہوں گے ہم مسئلے کو خیر و خوبی سے حل نہیں کرسکیں گے جب تک ہم حقائق جمع نہیں کریں گے ہم اندھیروں سے اپنا سر پھوڑتے رہیں گے یہی کولمبیا یونیورسٹی کے ڈین ہربرٹ ای۔باؤکنیز کا بھی نقطہ نظر تھا انھوں نے دو لاکھ طالب علموں کو پریشانیوں اور الجھنوں کے مسائل حل کرنے میں مدد دی تھی وہ کہتے تھے ''انتشار پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہے''۔
انھوں نے اسے ان الفاظ میں ادا کیا تھا ''ہماری نصف پریشانیوں کی وجہ یہ ہے کہ ہم فیصلے تک پہنچنے سے پہلے مسئلے کے متعلق کافی واقفیت حاصل نہیں کرتے بلکہ اس کے بغیر ہی جھٹ پٹ فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔'' تھامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا تھا ''انسان غور و فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے'' ہم صرف انھی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظرانداز کردیتے ہیں آندرے ما اور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ''ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اور آرزوؤں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے برعکس ہو وہ ہمارے غصے کی آگ کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے'' تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ہمیں غور و فکر کرتے وقت اپنے جذبات کو علیحدہ رکھنا چاہیے اس کے بغیر ہم حقائق تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ تاہم محض حقائق معلوم کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا تاوقتیکہ ہم ان کا تجزیہ اور تعبیر نہ کریں۔ آپ ہوں یا میں، آئن اسٹائن ہو یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے سپریم کورٹ کا کوئی جج ہو ہم میں سے کوئی بھی اس قدر ذہین نہیں کہ حقائق کا مطالعہ کیے بغیر کسی مسئلے کے متعلق صحیح اور عقل مندانہ فیصلہ کرسکے۔
ایڈیسن اس حقیقت کو جانتا تھا اور اس کی گواہ وہ ڈھائی ہزار نوٹ بکس ہیں جو اس کے انتقال کے بعد اس کے اثاثے میں سے ملیں ان نوٹ بکوں میں وہ حقائق درج تھے جو اسے درپیش تھے۔ جب آپ کو حقائق کا علم ہو جاتا ہے اور جب آپ ان کا مطالعہ کرلیتے ہیں تو پھر باری آتی ہے عمل کرنے کی۔ جب تک ہم عمل نہیں کریں گے تو حقائق معلوم کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔
ولیم جیمز کہتا ہے ''جب کوئی فیصلہ ہو جائے تو پھر عمل کی باری آجاتی ہے تمام ذمے داریوں سے بالکل لاپرواہ ہوکر کام کیے جاؤ اور صرف انجام پر نظر رکھو'' یاد رکھیں اس کے علاوہ اب تک پریشانیوں اور مصیبتوں سے نکلنے کا کوئی اور راستے کا دنیا بھر میں کوئی وجود نہیں ہے یہ نسخہ نہ صرف اکیلے شخص پر کارآمد ثابت ہوتا ہے بلکہ دنیا بھر کی قوموں نے بھی اسی نسخے پر عمل کرکے ترقی، خوشحالی، کامیابی کی منزلیں طے کی ہیں لیکن اس کے باوجود پھر بھی کوئی صاحب سر عام یا ٹی وی پر بیٹھ کر اس بات پر بضد ہوں کہ ان کے پاس پریشانیوں اور مصیبتوں سے نکلنے کا کوئی خفیہ راستہ موجود ہے۔
تو آپ فوراً اس بات پر ایمان لے آئیے گا کہ یہ صاحب حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں کیونکہ ہماری حکومت کے قائدین کے پاس پریشانیوں اور مصیبتوں سے نکلنے کے وہ خفیہ راستے موجود ہیں کہ جن کا دنیا بھر میں فلاسفروں، دانشوروں کو بھی علم نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نکلنے کے لیے وہ وہ راستے چن رہے ہیں جنھیں دیکھ کر دنیا بھر کے عقل مند اور سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں اس سے پہلے کہ ہم بھی اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھیں آئیں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتے ہیں۔