نئی جہت کا لگے اب اس درخت میں پیوند
ڈرامہ ہمارے تئیں چاہے کتنا ہی بودا کیوں نہ ہو وہ بہرطور ہمارے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دور حاضر میں ٹیلی ویژن ڈرامہ تفریح کا سب سے پہلا، بڑا اور کامیاب ترین ذریعہ ہے۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نہ، نہ کر کے بھی پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہے اور بیشتر ممالک میں ''ماس کمیونیکیشن'' کے مضامین میں ان ڈراموں کو بطور مثال شامل کیا جاتا ہے۔
بھارت کی پونا انسٹیٹیوٹ میں ہمارے کلاسیک ٹی وی ڈراموں کو تدریس کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور امیتابھ بچن، نصیرالدین شاہ، شبانہ اعظمی، جاوید اختر، شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان ہی نہیں لیجنڈری دلیپ کمار تک کی اسٹڈی میں ہمارے ٹی وی ڈرامے موجود ہیں جن سے وہ لطف اندوز ہوتے آ رہے ہیں۔
ہمارا ڈرامہ جب کامیابی کی حدوں کو پہنچا تو اسے ''ملٹائی نیشنل کمپنیز'' نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا یا اسے ہائی جیک کر لیا بس اسی وجہ سے ہمارے ڈرامے کا حلیہ اور توازن دونوں بگڑ کر رہ گئے ہیں۔ ہمارا آج کا ٹی وی ڈرامہ بس ایک ایسے ٹرک کی طرح ہو گیا ہے جس میں سب کچھ لدا ہوا ہے۔ ہمارا ماضی کا ڈرامہ ریٹنگ سے آزاد تھا، لیکن موجودہ دور میں اس کے چنگل سے نکلنا شاید آسان نہیں۔ بھیڑ چال کہہ لیں یا پھر مقابلہ بازی ٹی وی ڈرامے زیادہ تر گھریلو سیاست اور سازشوں کے گرد بنائے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے ان کے موضوعات میں حد درجہ یکسانیت آگئی ہے۔ مڈل کلاس طبقے کے مسائل اور مصائب پر آٹے میں نمک کے برابر ڈرامے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ کہ اخلاقی اقدار کے منافی ڈرامے بھاری تعداد میں دیکھنے میں آ رہے ہیں جن میں ایک مرد دو عورتیں یا دو عورتیں اور ایک مرد اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ملتے ہیں۔ تاریخی، بین الاقوامی موضوعات، ہمارے اسلاف یا عصر حاضر کے سلگتے مسائل پر مدتوں سے کوئی ڈرامہ سامنے نہیں لایا جاسکا، ولگریٹی، فینٹیسی یا لچر پن اب ڈراموں کے اہم عناصر میں شمار قطار ہو رہے ہیں جس کا بادی النظری میں مقصد معاشرے میں مزید بے راہ روی کا فروغ، بے یقینی اور انتشار اور اخلاق باختگی کو فروغ دینا ہی کہا جاسکتا ہے۔
افسوس ڈرامہ جب سے انڈسٹری بنا ہے تب سے معاشرے کی نشوونما، تہذیب کے ارتقا، تمدن کے فروغ، تخیل کی پرواز اور تحقیق کی لگن کے بجائے ٹی وی ڈرامہ تجوریاں بھرنے کا وسیلہ بن رہا ہے۔ فنانسر (پیسہ لگانے والے) بھی کیا کریں انھیں اپنے سرمائے کی واپسی بھی درکار ہے، یوں ہمارا ٹی وی ڈرامہ ماضی کی شاندار روایت پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ولیم شیکسپیئر، آغا حشر کاشمیری، امتیاز علی تاج، شوکت صدیقی اور حمید کاشمیری وغیرہ کی قبریں مسمار کی جا رہی ہیں اور ہماری معاشرتی اقدار و روایت کی بھی بے توقیری کی جا رہی ہے، سوچ اور تخیل کے بال و پر کترے جا رہے ہیں۔
ہماری دانست میں ٹیلی ویژن اب فلم کی طرح ایک بامقصد ذریعہ ابلاغ بن گیا ہے اور آرٹ کا چاہے ایک بھی خریدار ہو مگر اسے بکنا ضرور چاہیے کیونکہ جو بک نہیں سکتا وہ آرٹ نہیں ہے۔ ہمارے ڈرامہ انڈسٹری کے کنگ میکرز کا یہ کہنا ہے کہ ہم ادب یا معاشرے کی خدمت کرنے نہیں بیٹھے، ہم بزنس کر رہے ہیں، پیسہ لگا کر پیسہ کمانا ہمارا حق ہے اور پیسہ ریٹنگ سے آتا ہے۔
لیکن ریٹنگ سے جو بھی آتا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ملک میں لاکھوں گھروں میں لاکھوں ناظرین باقاعدگی سے ڈرامے دیکھتے ہیں بالخصوص خواتین کی غالب اکثریت اور اسی وجہ سے خواتین کے گرد ہی زیادہ تر ڈرامے گھمائے جا رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ خواتین کے ہولناک مسائل پر ان کے مصائب پر ڈرامے تواتر سے بنائے جاتے غربت، بے روزگاری، افلاس اور دیگر سماجی مسائل پر طبع آزمائی کی جاتی لیکن ایسا عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتا۔ ڈرامے میں یکسانیت آ جانے سے ان کی کہانیوں، کرداروں اور مکالموں تک میں حد درجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔
آج کا ڈرامہ نگار ہفتوں میں ڈرامہ تحریر کرکے لاکھوں کما رہا ہے، اداکار بے حد مصروف ہوگئے ہیں، ایک مقبول چہرہ بیک وقت کئی ڈراموں میں جلوہ گر ہورہا ہے۔ لیکن معیار کے نام پر کوئی ندرت اس کے کام میں نہیں پائی جاتی۔ امجد اسلام امجد، ناہید سلطانہ اختر، اصغر ندیم سید اور انور مقصود وغیرہ جیسے قلم کاروں کو ڈرامہ انڈسٹری کے بادشاہوں نے طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے دور کے مایہ ناز ڈرامہ پروڈیوسر (ہدایت کار) بھی برسہا برس سے فارغ ہیں اور ان کے تجربات سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور نہ ہی انھیں اپنے گروپ میں شامل کیا جاتا ہے۔ بس لے دے کر چند مخصوص ناموں اور ذاتوں نے پوری کی پوری ڈرامہ صنعت پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے جو بہر طور ڈرامہ انڈسٹری کے کسی طور مفاد میں نہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ڈرامے کو یکسر تبدیل کیا جائے وگرنہ ایک مضبوط مارکیٹ کا ڈھانچہ تو موجود رہے گا لیکن خریدار دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس لیے بھی کہ ڈرامے کی کوئی ایک جامد تعریف نہیں ہے، ڈرامہ ویسے بھی جمود کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کروٹیں لیتے یا پہلو بدلتے رہنے میں ہی اس کی بقا ہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ ہمارا آج کا ڈرامہ محدود ہو گیا ہے۔ ایک بند گلی یا سرنگ میں آکر پھنس گیا ہے۔ ایک ہی جیسے موضوعات، ایک جیسے مناظر، ایک جیسے کردار ڈراموں کی اکثریت کی یہی پہچان یہی شکل بن گئی ہے۔ ہمارا آج کا ڈرامہ پرکاری یا فن کے بجائے کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان حالات میں بھی ہمارے بعض ڈراموں نے نہ صرف پیسہ ہی نہیں بلکہ بے پناہ انہماک، توجہ، عزت، معیار اور نام بھی کمایا ہے۔
ہمارے نزدیک اچھے ڈرامے کی تعریف وہی ہے جو شیکسپیئر نے کی اور اس سے پہلے ارسطو نے کی۔ ہمیں یہ ماننے میں کوئی تاسف نہیں ہونا چاہیے کہ ہم ڈرامے کی صنف میں نووارد ہیں اور مغرب ہم سے کئی صدیوں آگے ہے، شاید اسی لیے ڈرامہ کی صنف پر ہماری سمجھ بوجھ ان سے کہیں پیچھے اور کمتر ہے۔ لیکن اس حقیقت سے جڑی یہ حقیقت بڑی حوصلہ افزا ہے کہ ہم ماضی کے شاندار ٹی وی ڈراموں کی تاریخ رکھتے ہیں اور اکثر نہیں تو بیشتر چونکا دینے والے ڈرامے ہم بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔
ڈرامہ ہمارے تئیں چاہے کتنا ہی بودا کیوں نہ ہو وہ بہرطور ہمارے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، ہمارے ملک کا ایک سوفٹ امیج بناتا ہے، ڈرامہ پوری دنیا میں سوسائٹی کی تشکیل میں یا ان کو خراب کرنے میں بہت بڑا رول ادا کرتے ہیں، لہٰذا مثبت، تعمیری، اصلاحی موضوعات پر ڈرامے وقت کی اولین ضرورت ہیں۔ ویسے بھی جس قوم کا اچھا سوچنے والے نہ ہونے کے برابر ہوں انھیں تو ہر حال میں موت آنے سے پہلے بہت کچھ کر گزرنا چاہیے۔ کیونکہ قوموں کے اچھے دن ان کے اچھے اعمال سے ہی آتے ہیں۔