مجتبیٰ حسین

مجتبیٰ بھائی سے ملاقات اور پھر محبت اور گہری وابستگی کا رشتہ تقریباً چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔


Amjad Islam Amjad May 31, 2020
[email protected]

یوسفی صاحب کے بعد جدید اُردو ادب میں مزاح کا دوسرا بڑا نام مجتبیٰ حسین بھی اپنی عمرکی آخری سیڑھی اُتر کے ایسے سفر پر روانہ ہو گئے جو جس قدر اَٹل ہے اُس سے زیادہ پُراسرار ہے۔ اب وہ صرف اپنے دوستوں، عزیزوں اور قارئین کے دلوں میں زندہ رہیں گے کہ یہی وہ آخری تعلق اور سمبندھ ہے جو اس سارے عمل میں باقی بچتا ہے۔

وہ گزشتہ دو تین برس سے مسلسل اور مستقل بیمار چلے آ رہے تھے جس سے اُن کی آواز سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی کہ اب ایسا بات بات پر پھول سے کھلا دینے والا شگفتہ اور زندہ دل انسان دو جملے بھی بغیر لمبا سانس لیے اور تقریباً ٹوٹتے ہوئے الفاظ کے بغیر کہہ نہیں پاتا تھا اس دوران میں جب بھی اُن سے فون پر بات ہوئی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، مجھے اندازہ تھا کہ انھیں بات کرنے میں بے حد دِقّت ہو رہی ہے مگر یہ بھی احساس تھا کہ وہ بات کرنا بھی چاہ رہے ہیں سو ساری گفتگو کے دوران خوشی اور تکلیف کا ایک مشترک احساس دامن گیر رہتا تھا۔

مجتبیٰ بھائی سے ملاقات اور پھر محبت اور گہری وابستگی کا رشتہ تقریباً چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے اس دوران میں پاکستان اور بھارت میں ہونے والی مختلف تقاریب کے ساتھ ساتھ اُن سے خط و کتابت اور ٹیلی فونک رابطے بھی رہے، وہ ایک وضع دار اور ذمے د ار انسان تھے اور رشتوں کو نبھانا خوب جانتے تھے۔ اُن کی پیدائش تو حیدر آباد دکن کی تھی مگر اُن کازیادہ وقت بسلسلہ ملازمت کئی دوسرے شہروں بالخصوص دہلی میں گزرا جہاں وہ دنیا بھر سے آنے والے ادب سے متعلق ہر شخص کے آٹو میٹک میزبان بن جاتے تھے۔

مجھے دہلی کے علاوہ حیدر آباد دکن میں بھی اُن کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے اور میں بھی اپنے آپ کو مہمانانِ خاص کی اُس فہرست میں شامل سمجھتا ہوں جو اُن کے دل سے بہت قریب تھے، اب یہ بات اور ہے کہ اُن کا دل اتنا بڑا تھا کہ ہر مہمانِ خاص کی آمد سے اُس کی وسعت میں کمی کے بجائے کچھ اور اضافہ ہو جاتا تھا۔ اَسّی کی دہائی میں وہ کئی بار لاہور آئے اور کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں جب انھوں نے کچھ وقت میرے ساتھ نہ گزارا ہو۔ جگن ناتھ آزادؔ کی طرح وہ بھی اپنی محبت کے اظہار میں بہت پُر جوش اور بے تکلف تھے اور کسی کی کی ہوئی چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو بھی یا حُسنِ سلوک کو بھولنے کے روادار نہ تھے۔

ایک دفعہ انھیں اپنی متعلقہ فلائٹ لینے کے لیے چند گھنٹے لاہور رُکنا پڑا ، اُن کا قیام میرے اُس وقت کے اُردو سائنس بورڈ والے دفتر کے نزدیک واقع ایک ہوٹل میں تھا، مجھے اطلاع ملی تومیں رابطہ کر کے پہنچ گیا اور کوئی تین چار گھنٹے اُن کے ساتھ گزارے، اس معمولی سی بات کو جس طرح سے انھوں نے اپنے ایک کالم نما مضمون میں جس محبت کے ساتھ لکھا وہ اُن کی اُسی شرافت ، محبت اور وضع داری کا ترجمان تھا جس کی وجہ سے وہ ملنے والا اُن سے محبت پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اُن کا تعلق ایک ادبی خاندان سے تھا کہ اُن کے ایک بڑے بھائی محبوب حسین جگر مشہور اُردو اخبار ''سیاست'' کے قلمکار اور معاون ایڈیٹر تھے جب کہ دوسرے بڑے بھائی ابراہیم جلیس بھی ادب اور صحافت کا ایک بہت بڑا نام تھے جو تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے تھے ۔

2010ء میں اسی ''سیاست'' اخبار کی طرف سے حیدر آباد دکن میں ایک تین روزہ ادبی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کے مختلف سیشنز میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے اُردو ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی امریکا سے آئے تھے مگر اُن کا آبائی تعلق حیدر آباد کی دھرتی سے ہی تھا چنانچہ انھوں نے پروگرام سنتے ہی اعلان کر دیا کہ حیدر آباد میں میزبانی اُن کے ذمے ہو گی۔ تقی عابدی اُن لوگوں میں سے ہیں جنھیں اپنی بات منوانے کا ڈھب آتا ہے، میں نے یہ مسئلہ مجتبیٰ حسین کے ساتھ رکھا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگا کر بولے ''فکر نہ کرو وہ خود میری میزبانی سے بچے گا تو کسی کو مہمان بنائے گا ٗنا'' ۔

دہلی سے برادرم گروندر سنگھ عازم کوہلی کی ہم سفری میں حیدر آباد پہنچے تو اُن دونوں حید ر آباد یوں کی مہمان نوازی کا جو مزہ آیا وہ زندگی کی حسین ترین یادوں میں سے ایک ہے۔ اسی سفر میں اُردوکی مشہور افسانہ نگارجیلانی بانواور اُن کے بہت ہی قابل شوہر انور معظم صاحب کے گھر پر اُن سے ملاقات کا اہتمام مجتبیٰ بھائی نے جس تیزی اور مہارت سے کیا وہ بھی ایک علیحدہ اور دلچسپ کہانی ہے لیکن اس سفر کی سب سے خوب صورت یاد اُن کے ایک دوست کی طرف سے دیا گیا، ایک بہت تاریخی وینیو پر خالص حیدر آبادی لنچ تھا جہاں کی گئی گفتگو کو اگر ریکارڈ کر لیا جاتا تو شائد وہ مزاحیہ گفتگو کے بہترین اور یادگار نمونوں میں سے ایک ہوتی۔

مہمانوں میں ایک ایسے صاحب بھی شامل تھے جن کی اہلیہ کا چند دن قبل ہی انتقال ہوا تھا اور وہ بار بار ان کا ذکر کر کے مزاح کی ٹرین کو بریکیں لگا رہے تھے میں نے مجتبیٰ حسین کو اس سیچوئیشین کی طرف متوجہ کیا تو وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے ''اسے مت روکو ٗ مرحومہ نے ساری زندگی اسے بھیگی بلی بنا کر رکھا تھا یہ بار بار اُس کا ذکر کر کے اپنی آزادی کی خوشی کو انجوائے کرنے کی کوشش کر رہا ہے '' آج صبح برادرم عقیل عباس جعفری نے جو اپنی ذات میں ایک ادبی عجائب خانہ ہیں، مجھے مجتبیٰ حسین کی ایک باکمال تحریر بھیجی ہے جس کا عنوان ''اپنی یاد میں'' ہے اور جو اُن کی کتاب ''چہرہ در چہرہ'' میں شامل ہے۔

یہ بقول عقیل عباس جعفری کے ایک ایسا ''خود دفاتیہ'' ہے جو اپنی نوع کی ایک منفرد اور بے مثال تحریر ہے، سو آخر میں میں مجتبیٰ حسین کے اسی ''خود دفاتیئے '' سے کچھ اقتباسات درج کرتا ہوں، آپ بھی فیصلہ کیجیے کہ اُن کی وفات پر لکھا ہوا کوئی بھی مضمون کیسے اس زندگی سے بھرپور تحریر کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

''مجتبیٰ حسین'' جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے مگر جانے کیوں نہیں آ رہا، پر سوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، یہ اُ ن کے مرنے کے دن نہیں تھے کیونکہ انھیں تو بہت پہلے نہ صرف مر جانا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن وہ پیدا ہوئے تھے، تب ہی سے لگا تار مرتے چلے جا رہے تھے،گویا انھوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگا دیے، ان کی زندگی بھی قسطوں پر چل رہی تھی اور وہ مرے بھی قسطوں میں ہی... اُن کے چاردوست وقتِ مقرر پر انھیں بتائے گئے ضروری کام کے سلسلے میں آ گئے تو بچوں نے انھیں جگانے کا فیصلہ کیا بچوں نے انھیں بہت جگایا مگر مرحوم جاگنے پر راضی نہ ہوئے جاگ کر بھی کیا کرتے اب دنیا میں اُن کے لیے کوئی کام بھی تو باقی نہیں رہ گیا تھا۔

لتا منگیشکر کا گانا وہ سن چکے تھے، غالبؔ اور شیکسپیئر کو پڑھ چکے تھے، بڑے غلام علی خان اور بھیم سین جوشی کو بھی نبٹا چکے تھے بھلا وہ اور جی کر کیا کرتے... خد ا ہی بہتر جانتا ہے کہ مرحوم دوسری دنیا میں کس حال میں ہیں لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر جنت میں ہیں تو ضرور حوروں کے جھرمٹ میں ہوں گے اور اگر خدا نہ کرے دوزخ میں ہیں تو اپنے جسم کو بڑے جتن کے ساتھ دہکتے انگاروں پر اس طرح جلوا رہے ہوں گے کہ کوئی حصہ جلنے سے باقی نہ رہ جائے پھر دوزخ میں اُن کے لیے خوشی کی بات یہ بھی ہو گی کہ اُن کے بہت سے دوست جو انھیں اس دنیا میں چھوڑ کر چلے گئے تھے وہیں موجود ہوں گے...

دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اُن کے مرنے سے ادب میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوا کیونکہ مرحوم کا دعویٰ تھاکہ ''لوگ مر کر ادب میں خلا پیدا کرتے ہیں لیکن انھوں نے زندہ رہ کر ادب میں لگاتار خلا پیدا کیا تھا''

''خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں