ہے کوئی صحافی یہاں

نوے فیصد صحافی حضرات کی نجی ٹویٹس یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھیں تو ہمیں ان میں اخلاق بھی ناپید نظر آتا ہے


اکرم ثاقب June 01, 2020
دورِ حاضر کے اکثر صحافی، اخلاقیات اور اپنے فرائض سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحافی یا جرنلسٹ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خبر رپورٹ کرے۔ جرنلسٹ آزاد بھی کام کرتا ہے اور کسی اخبار یا کسی نشریاتی ادارے سے بھی منسلک ہوسکتا ہے۔ رپورٹر ایسا جرنلسٹ ہوتا ہے جو کسی بھی خبر کی اچھی طرح تحقیق کرکے تحریر کرتا ہے اور اپنے یا کسی بھی ادارے تک وہ خبر پہنچاتا ہے۔ اسی طرح تجزیہ کار یا اینالسٹ خبر کا تجزیہ کرتا ہے، اس خبر کی اونچ نیچ کو جانچتا ہے اور اس کے اثرات پر اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ اینکر یا میزبان کسی بھی پروگرام کو چلاتا ہے۔ اس پروگرام کے بارے میں بتانا اس کا کام ہوتا ہے۔

اب آپ خود ہی تجزیہ کریں کہ ہمارے تمام چینلز پر کون لوگ آتے ہیں؟ اینکر پرسن کو علم نہیں کہ اس کا کیا کام ہے؟ تجزیہ کار کو علم نہیں ہوتا کہ اسے کیوں بلایا گیا ہے۔ جرنلسٹ کو اپنے کام کا پتہ نہیں۔ کالم نگار اینکر پرسن بن کر آتے ہیں تو وہ کالم نگار زیادہ اور اینکر کم نظر آتے ہیں۔ چند ایک ایسے صحافی ہیں جو اپنے کام سے واقف ہیں۔ باقی یہ بھی نہیں جانتے کہ صحافی ہوتا کیا ہے۔ مزاحیہ کالم نگار سیاسی تجزیے کےلیے بلا لیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی معاملات کے ماہر سے اندرونی سیاست کے مسائل حل کرائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ چینل کے مالک ہیں تو آپ کےلیے کسی بھی چیز کا علم رکھنا ضروری نہیں، آپ ہر بات کے بزعم خود ماہر ہیں۔ پھر کتنے ڈاکٹری (میڈیکل) شعبے کے لوگ صحافت کا علاج کرنے کود چکے ہیں۔

ایک سچے صحافی میں چند خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ جن میں سرفہرست ایمانداری ہے۔ اس پہلی خصوصیت سے ہی بے شمار صحافی محروم ہیں۔ ان سے اپنے کام کے ساتھ ہی دیانتداری نہیں ہوپاتی۔ ایک صحافی کی دیانتداری کا مطلب ہے کہ وہ مبالغہ آرائی نہ کرے۔ آج کے صحافیوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی ہمارے اوپر یہ سچ آشکار ہورہا ہے کہ مختلف چینلز پر آنے والے لوگ پہلے تو صحافی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے، دوسرا یہ کہ تمام ہی آمیزش کرتے پکڑے جاتے ہیں۔

ایمانداری سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے جسے آزادی کہا جاتا ہے۔ تھوڑا سا غور کرکے دیکھ لیجئے کہ کتنے صحافی آزاد ہیں؟ ہر ایک کسی پارٹی سے نہ صرف لگاؤ رکھتا ہے بلکہ اس کی ہر اچھی بری بات کا پرچار بھی کرتا ہے۔ پھر آزادی کا مطلب سچ لکھنا ہوتا ہے۔ بقول حامد میر مشرف دور میں انہیں دس فیصد سچ بولنے کی اجازت تھی جو کہ آج کل اور بھی سمٹ چکی ہے۔ لیکن اس بات کے خلاف یا حق میں کوئی بھی آواز بلند نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ کسی غیر ملکی انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ شائع کردی جاتی ہے۔ آزادی اور شفافیت کی بنیاد پر ہی ہم کسی صحافی کا درجہ مقرر کرتے ہیں، مگر افسوس کہ آج تک کسی صحافی نے اتنی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صحافت کا پاکستانی حمام سب کو ننگا کئے ہوئے ہے۔ وہ صحافی جو ایک علاقہ چھوڑ کر دوسرے میں نوکری کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ صحافت میں آتے ہی کئی کاریں، بنگلے اور ہوٹل بنا لیتے ہیں اور کوئی ان سے پوچھتا ہی نہیں کہ مال کہاں سے بنایا؟

عوامی احتساب ایک صحافی کو راہ راست پر رکھتا ہے مگر ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں ہے۔ عوام جو چاہے کہتے رہیں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمارے پیارے وطن میں عوامی احتساب تو ہے ہی نہیں، بس نیب ہے جو سیاسی احتساب کےلیے ہر دم کوشاں ہے۔ ہمارے ہاں تو عوام کو ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسے مکھن میں بال۔

کسی بھی معاملے اور بحران میں نقصان کو کم سے کم سطح پر لانا اور خاص طور پر ایسے نقصانات جن کا تعلق کسی خاص خبر سے ہو۔ وائے افسوس کہ یہاں ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نقصان کو زیادہ سے زیادہ ہی بتایا اور کیا جاتا ہے اور داؤ لگے تو ہر خبر سے بلیک میلنگ کا سامان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ جو ایسا کرتے ہیں وہ جلد ہی سائیکل سے بہت بڑی گاڑی پر جا پہنچتے ہیں۔

کسی پر الزام نہ لگانا یا کسی کو بلاوجہ ملوث نہ کرنا صحافی کی شان ہے، مگر یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ دوسروں پر الزام لگا کر مال بنانا ہماری صحافت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ بے جا الزام لگا کر ہی اپنی آمدنی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جغادری حاکم وقت کے دربار میں حاضری کو فخر سمجھتے ہیں اور طرف داری اور الزام تراشی کا وہ بازار گرم کرتے ہیں کہ اسی پارٹی کا حامی بھی اسے غلط سمجھنے لگتا ہے۔

نوے فیصد صحافی حضرات کی نجی ٹویٹس یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھیں تو ہمیں ان میں اخلاق بھی ناپید ہی نظر آتا ہے۔ ان خوبیوں اور خصوصیات کی بنیاد پر اگر کسی بھی صحافی کو جانچنے کی کوشش کریں تو لازمی طور پر ہم ناکام رہیں گے۔ گو حامد میر نے طارق جمیل سے معافی منگوا لی مگر اب تمام صحافیوں کے توبہ تائب ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم تمام اپنی اپنی آستین جھاڑ دیں اور دل کو صاف اور پاک کرلیں تاکہ ہمارے اندر سچ لکھنے اور بولنے کا جذبہ پیدا ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔