بے بس حکومتیں
طوفان، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں اکثر امیر افراد بچ جا تے ہیں
حکومتیں طاقت ور ہوتی ہیں۔ خواہ وہ بادشاہت ہو، فوجی آمریت، صدارتی یا پارلمینٹرین، کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہو، ریاست کے سربراہ عقل کل کہلاتے ہیں۔ لیکن آج یہ انتہائی طاقتور، ہتھیار بند، منظم، وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بے بس نظر آ تی ہے۔ جو لوگ کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے اور بھوک مٹانے کی کوششیں اور تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، وہ ہیں عام شہری، فلاحی انجمنوں کے کارکن۔ کہیں نرسوں، کہیں ڈاکٹروں، کہیں مزدور دوست انجمنوں اور عوام دوست دانشور بھر پور مقابلہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
ریاست لاچار نظر آرہی ہے۔ ٹرمپ تو اپنی غلطی کو یواین او کے شعبہ صحت پر تھوپ کر اپنی حکومت کی بے بسی کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ ادھر امریکا کے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز جو ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ امیدوار تھے نے ٹرمپ سے مقابلے کی دست برداری کا اعلان کیا ہے، ویسے بھی وہ انقلابی سوشلسٹ نہیں ہیں، پھر بھی امریکی ارب پتیوں کے خلاف اور عوام کی بھلائی کی بات کر رہے تھے۔
اگر وہ جیت بھی جاتے تو کر بھی کیا پاتے۔ ریاست خود ایک جبر کا ادارہ ہے خواہ وہ انقلابی ہو یا سرمایہ دارانہ۔ کچھ عرصے جبر کے ذریعے عوام کو فائدہ دے سکتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو روس اور چین میں سرمایہ داری واپس نہیں آتی۔ سامراجی حکمران بے بس نظر آ رہے ہیں تو سوشلسٹ کیوبا کے ڈاکٹرز جان پر کھیل کر دن و رات دنیا بھر میں خاص کر اسپین، اٹلی اور ایران میں مریضوں کی خدمت میں تیار کھڑے ہیں۔
پاکستان میں حکومت کے ٹائیگرز کا صرف شور ہے ، کارنامہ کوئی نہیں۔ ریاست کے آ لہ کار عوام کی خدمت کی بجائے میڈیا پر تقریر کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جب کہ سماجی بھلائی کی انجمنوں کو غذائی اجناس بانٹتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ سوشلسٹ کوریا،سوشلسٹ نیپال، بھوٹان، کمبوڈیا، لاؤس، منگولیا، کینیا، روانڈا، ایتھوپیا، کوسٹاریکا، یونان اور سوشلسٹ کیوبا سمیت، لاطینی امریکا اور افریقہ میں اموات کم ہو رہی ہیں۔ اس لیے کہ وہ وسائل، دولت اور ہتھیاروں کے بجائے احتیاط، یکجہتی، تدابیر اور اجتماعی سماجی شعور کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس وائرس نے ایک اور بڑا کام کیا ہے۔
طوفان، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں اکثر امیر افراد بچ جا تے ہیں۔ بیماریوں اور بھوک سے غریب ہی کثرت سے مرتے ہیں۔ لیکن اس وائرس نے ان تفریقات کو ختم کر دیا ہے۔ مگر سب لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ یہ وائرس بلاامتیاز حملہ ور ہوا ہے اور مارتا جا رہا ہے۔اس نے نسل، رنگ، مذہب، فرقہ، زبان، خاندان، ریاست کی سرحدوں اور مذہبی دیواروں کو توڑ دیا ہے۔
پاکستان میں اب تک بارہ سو ڈاکٹرز کورونا کے شکار ہو چکے ہیں۔ دنیا میں جہاں سب سے زیادہ اموات ہو رہی تھیں اب وہاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جیساکہ اٹلی، اسپین، پرتگال، برطانیہ، امریکا اور فرانس میں ہو رہی تھیں۔ چند دنوں قبل برازیل ، میکسیکو اور ہندوستان میں اضافہ ہوا ہے۔
اب میکسیکو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک سری لنکا، بھوٹان، نیپال، کمبوڈیا، ویتنام، شمالی کوریا، لاؤس اور منگولیا میں ایک شخص کی بھی موت نہیں ہوئی۔ آئیے اس وبا سے نجات کے ساتھ ساتھ آلودگی اور طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کریں ہاں جہاں اموات میں کمی ہو رہی ہے وہاں لاک ڈاؤن میں نرمی سمجھ میں آتی ہے لیکن جہاں اموات میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں نرمی کرنا سمجھ میں نہیں آتی۔ ہاں مگر احتیاطی تدابیر اور تحفظات پر حکومت اور عوام سختی سے عمل پیرا ہوں تو ایک حد تک بات بنتی ہے۔
یہاں تو پچانوے فیصد عمل نہیں ہو رہا ہے اور نہ کروایا جا رہا ہے۔اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمارے پاس ضروریات ، احتیاط اور آلات کا بھرپور ہونا، تو درکنار، ڈاکٹروں اور نرسوں کا بھی تحفظ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اگر معالج ہی نہیں ہوا تو مریضوں کا علاج کون کرے گا۔ چونکہ اس بیماری کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے اس لیے احتیاط کے سوا کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔
اور اگر احتیاط کی موثر راہ نہیں اپنائی گئی تو معاملہ سنگین ہوسکتا ہے۔ لہٰذا عوام اور باشعور افراد کا یہ اولین فریضہ بنتا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پرعوام کی خدمت میں اپنے کو وقف کر دیں اور جتنی فلاحی ، سماجی، ادارے غذا اور علاج کرنے میں مصروف ہیں ان سے بھرپور تعاون کریں۔ جیساکہ ایدھی ٹرسٹ وغیرہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں ان سماجی ، انفرادی، امداد باہمی اور انسان دوست جو کوئی گروہ بھی عوام کی خدمت کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینا اور ان کا احترام کرنا ہمارا اولین فریضہ بنتا ہے۔
یہ وبا دو چار ماہ یا دو ہزار بیس تک ختم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر اس دوران عالمی سرمایہ داری کا کیا ہو گا۔ اس دنیا میں اربوں اور پاکستان میں لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ جب کہ دنیا کے امیر ترین دس افراد اب بھی آدھی دنیا کو خرید سکتے ہیں۔
انیس سو انتیس تا تیس کے عالمی معاشی بحران میں صرف امریکا میں کروڑوں انسان لقمہ اجل ہوئے تھے۔ چارلی چپلن نے ایک فلم بنائی تھی جس کا نام تھا، پکچر آف دی موڈرن ورلڈ۔ اس میں دکھا یا گیا تھا کہ اجناس کے گوداموں سے جب ہفتہ وار کچرا پھینکا جاتا تھا تو لاکھوں بچے کتوں کی طرح اس پر جھپٹا مارتے تھے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں انسانوں نے درختوں کے چھال کھائی، پرانے جوتوں کو ابال کر کھایا۔ اب اس کورونا وائرس کے بعد عالمی سرمایہ داری بے بس اورلاچار ہوگئی ہے۔ عوام بھوک سے تڑپ اٹھے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اجناسوں اور سپر اسٹووں پر عوام ہلہ بول دیں۔ بنگلہ زبان کے معروف فلسفی، دانشور، ڈرامہ نگار، اور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ انسان اگر عرصے سے بھوکا رہے اور اس کے سامنے بھگوان آکر کھڑا ہو جائے تو اسے بھی انسان کھا جائے گا۔ ابھی سے برطانیہ، امریکا، بھارت اور پاکستان میں مزدوروں کی بر طرفی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ ماضی میں عالمی جنگ اول کے بعد انقلاب روس اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد انقلاب چین برپا ہوا۔ اب جنگ کورونا کے بعد حقیقی محنت کشوں ، شہریوں اور پیداواری قوتوں کا انقلاب بپا ہو سکتا ہے۔
ملکوں کی سرحدیں ٹوٹ کر دنیا ایک ہو جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ عوام کا معاشی قتل کے خلاف اٹھنے والا سیلاب سب کو بہا لے جائے۔ اس کے لیے ابھی سے عوام کو خودکار، خود انحصار اور مقامی سطح پرکمیٹیاں تشکیل دینے کی تیاری کرنی ہوگی۔ پھر ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوںگے۔ اسلحہ کی پیداوار نیست و نابود ہو جائے گی۔ دنیا ماحولیاتی آلودگی سے پاک، جنگلوں سے پر اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ خون کے دریا بھی عبور کرنے پڑیں۔