ہم آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ سینٹرز میں فرق نہیں سمجھتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
''میں یہاں اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں، یہاں رکھے جانے والے افراد میں سے کوئی بھی کورونا کا مریض نہیں، ہاں البتہ خوف کا شکار ضرور ہے۔ بس بیٹا ہمارے حکام بالا قرنطینہ اور جبری آئسولیشن کا فرق نہیں جانتے۔''
ہمارے ایک انکل دفاعی ادارے میں کام کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے وہ کورونا کے باعث گھر پر تھے۔ عید سے پہلے انھیں اچانک دفتر حاضری کےلیے بلوا لیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ بلوائے جانے والے تمام افراد کا کورونا ٹیسٹ ہوگا اور انھیں الگ الگ کمروں میں رکھا جائے گا۔
وہاں پہنچنے پر سب کو معلوم ہوا کہ کسی بھی قسم کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوگا اور سب کو قریبی اسکول کی عمارت میں کاغذی کارروائی کے بعد 14 دن کےلیے قرنطینہ میں رکھا جائے گا اور ایک ایک کمرے میں 4 افراد رکھے جائیں گے۔
منیر انکل سے جب میری فون پر بات ہوئی تو وہ کہنے لگے ''یہ کمال ہے کہ ہم میں سے کسی کو کورونا کی علامات نہیں اور ٹیسٹ بھی نہیں ہوا۔ مزے کی بات تو یہ کہ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جارہا کہ قرنطینہ کے بعد بھی ہمیں گھر جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں یا دو تین ماہ بعد چھٹی ملے گی؟ یا پھر بیرکوں میں رکھا جائے گا جہاں پہلے سے جگہ موجود نہیں ہے۔''
وہ کہنے لگے کہ ''بیٹا افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ دفاعی اداروں تک میں کوئی پلاننگ نہیں۔ ہم تو یہاں تنہا رہتے تنگ آگئے، یہاں تو کوئی سماجی دوری نہیں ہے، کوئی کرکٹ کھیل رہا ہے تو کوئی لوڈو۔''
یہ سب کچھ سن کر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ کورونا وائرس ایک وبا تو ہے ہی ہے لیکن اس کے ساتھ قرنطینہ سینٹر میں گندگی، تعفن، لوگوں کی بہتات، مثبت اور منفی ٹیسٹ آنے والے افراد کو اکٹھا رکھنا، طبی سہولیات کا فقدان، بیماری کا خوف، چڑچڑا پن اور رشتے داروں سے دوری ذہنی کورونا کو جنم دے رہی ہے۔ قرنطینہ سینٹرز میں رہنے والے سبھی افراد خود کو مریض سمجھنے لگے ہیں۔
ہماری حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اس وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ دنیا بھر میں رہنے والے کئی سائنس دان بھی اس بات سے متفق ہیں، لیکن جب تک اس وبا کا علاج دریافت نہیں ہوتا تب تک سب کے سب ہوا میں تیر ہی چلا رہے ہیں۔
تاہم دوسری طرف قرنطینہ سینٹرز کی داستانیں کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ یہاں گرمی کی شدت بھی ہے اور طبی عملے کی عدم دستیابی بھی۔ نہ باتھ رومز مناسب ہیں، نہ ہی کسی قسم کے صابن اور سینی ٹائزر کی فراہمی۔ اسی طرح کورونا کے مشتبہ مریضوں کو ایک ساتھ رکھتے ہوئے ذیابیطس، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض والے افراد کو اکٹھا رکھا ہوا ہے۔ جن میں پہلے ہی قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور یہ لوگ آسانی سے کورونا کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے افراد بھی ہیں جن کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیوٹ لیب سے منفی آیا ہے۔ یعنی سب ایک ہی کیٹیگری میں ہیں۔
مقام افسوس یہ بھی ہے کہ ہم آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ سینٹرز میں فرق نہیں سمجھتے۔ آئسولیشن وارڈ میں ایسے مریض رکھے جاتے ہیں جو کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوں جن کا ٹیسٹ پازیٹو ہو تو یہاں ان کےلیے تولیہ، صابن، بستر، چادر، کھانے کےلیے پلیٹس اور گلاس وغیرہ الگ رکھے جاتے ہیں۔
آئسولیشن میں رہنے والے مریضوں کو الگ کمرہ اور باتھ روم دیا جاتا ہے۔ جبکہ قرنطینہ مراکز میں ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے جن کے بارے میں صرف شبہ ہو کہ شاید ان میں علامات پائی جاسکتی ہیں۔ کیا ہمیں ان میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا ہم قرنطینہ میں رکھے جانے والے افراد کو بھی کورونا میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں؟
کورونا کی وبا خطرناک اور ایک نیا چیلنج ضرور ہے اور اس کا فی الوقت کوئی علاج نہیں۔ لیکن کیا یہ درست ہے کہ جن افراد میں کسی قسم کا کورونا کا شائبہ بھی نہیں، انھیں گوشہ تنہائی میں گھر والوں سے دور رکھ دیا جائے؟ جہاں کوئی ان کا حال دل سننے والا نہ ہو۔
لوگ قرنطینہ سینٹرز سے دور کیوں بھاگتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے، وہ آخرکار کب تک اکیلا رہ سکتا ہے؟
ظاہر ہے کہ وہ ذہنی الجھنوں کا بھی شکار ہوگا، چڑچڑا پن بھی اس کے مزاج میں در آئے گا اور زندگی سے مایوسی اور ناامیدی ہر وقت اس کے ساتھ سائے کی طرح چلتی رہے گی۔
حالیہ دنوں میں لاک ڈاؤن کے خاتمے پر بازاروں میں جو رش دیکھنے کو ملا کیا ان سب کے کورونا ٹیسٹ نہیں ہونے چاہئیں؟ کیا انھیں ذمے داری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے یا صرف قرنطینہ میں رہنے والوں کا ہی فرض ہے کہ وہ کورونا میں مبتلا نہ ہونے کے باوجود بھی گھر والوں سے دور اذیت ناک زندگی بسر کریں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔