’’ستارے ٹوٹ کر جاتے کہاں ہیں‘‘
عالمی ادب پر اُس کی نظر بہت گہری تھی اور وہ ان کے معیاری اُردو تراجم کے لیے ہمہ دم مستعد رہتا تھا۔
بہت سال پہلے میں نے ایک نظم میں ستاروں کے ٹوٹنے کے بارے میں کچھ خیال آرائیاں کی تھیں لیکن اُس وقت دھیان کے کسی دُور دراز گوشے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایک دن اس مو شگافی کو اپنے ارد گرد ٹوٹتے ہوئے ستاروں کی صورت میں ایک حقیقت کے طور پر دیکھنا پڑے گا۔
تعزیتی کالموں پر مشتمل میرے ایک کالماتی مجموعے ''کوئی دن اور''میں تقریباً ڈیرھ سو ایسے افراد کا تذکرہ ہے جو اپنے اپنے میدان کے بڑے اور نمایاں لوگ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے میری یادوں کے ساتھ بھی جڑے ہوئے تھے یہ تعداددو سو سے بھی اُوپر ہوگئی ہے جب کہ بقول شاعر ہر ایک گُنی آدمی اپنے دور کے لاکھوں لوگوں کا نمایندہ ہوتا ہے اور یہ کہنا اُس کا حق بنتا ہے کہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
موت ایک برحق حقیقت ہے سو اپنی موت سے پہلے ہمیں کئی بار اس کا بالواسطہ تجربہ ہر اہلِ فن کی وفات کی خبر کے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے لیکن بعض اوقات یہ خبریں اس قدر پے در پے اور تیزی سے آتی ہیں کہ آنکھیں اور دل دونوں ہی سنبھل نہیں پاتے اگر چہ حال ہی میں رخصت ہونے والے تینوں دوستوں یعنی مدثر حسن قاسمی، آصف فر خی اور عابد شاہ عابد تینوں کے تینوں دل کے عارضے کے سبب ہم سے جدا ہوئے ہیں اور ان کی رحلت کا کوئی تعلق کورونا کی وبا سے نہیں ہے مگر ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ اس طرح کی ہرخبر سے کورونا کی دہشت انگیزی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ دیکھ کر اس کے پھیلائے ہوئے خوف میں مزید اضافہ ہوجاتاہے کہ
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہُوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
سنا ہے کہ اس شعر کے خالق عنائت علی خان بھی آج کل شدید علیل ہیں ۔ ربِ کریم اُن پر اپنا کرم فرمائے اور انھیں صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے کہ ایسے لوگ روز روزتک پیدا نہیں ہوتے۔
مدثر حسن قاسمی ایک بڑے عالم کے بیٹے تو تھے ہی مگر خود اُن کی اپنی شخصیت بھی عربی زبان کے اُستاد، شعروادب کے دلدادہ اور ٹی وی کے ایک انتہائی باصلاحیت فن کار کے حوالے سے انتہائی مضبوط اور خوبصورت تھی۔ میرا ایک ڈرامہ سیریل ''رات'' اُس کے کیرئیر کے ابتدائی ڈراموں میں سے تھا جس میں اُس نے ایک ڈرپوک لڑکے کا کردار کیا تھا جو اپنے چند یونیورسٹی فیلوز کی بدمعاشی اور ہنگامہ پسندی سے متاثر ہوکر اُن میں شامل ہونا چاہتا ہے مگر اُس کی فطری جھجک اور خاندانی شرافت بار بار آڑے آجاتی ہے۔
محمود اسلم اس گروہ کا سرغنہ اور آج کا مشہور گلوکار عدیل برکی اُس کے ساتھیوں میں سے تھے، وہ ایک بہت با ادب اور تعلقات کو جی جان سے نبھانے والا نوجوان تھا اور ہر چیز کو اُس کی جگہ اور حدمیں رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً تیس برس ایکٹنگ اور پروڈکشن سے متعلق رہنے کے باوجود اُس نے کبھی اپنے شوق کو اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا اور اسی طرح اُس نے اپنی گھریلو ذمے داریوں کو بھی احسن طریقے سے نبھایا۔ برادرم یونس جاوید کے مشہور ٹی وی سیریل ''اندھیرا اُجالا'' میں اُس نے کچھ بہت یادگار رول کیے۔
مجھے چنیوٹ میں اس کا آبائی گھر دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے اور اُس کا وہ خوشی سے تمتماتا ہوا چہرہ اب تک میری نظروں میں ہے جس کے ساتھ وہ اپنے مہمانوں کی خدمت کر رہا تھا، چند روز پہلے اُس کی علالت کی خبر ملی تو میں نے اُسے فون کیا جو بند تھا، میں نے اس کی جلد صحت یابی کے لیے ایک دعائیہ پیغام چھوڑا اور بعد میں شائد اس لیے دوبارہ فون نہیں کیا کہ مجھے یقین سا تھا کہ اُس کی عمر، معقول صحت اور عادات کے باعث یہ علالت زیادہ سنگین نہیں ہوگی مگر...
آصف فرخی سے اولین تعارف اُس کے والد محترم ڈاکٹر اسلم فرخی کی معرفت ہوا، ان دنوں وہ تازہ تازہ میڈیکل کی تعلیم سے فارغ ہواتھا اور جدید ادب کا ایک بہت اچھا قاری اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اُن چند لوگوں میں سے تھا جو اُردو ادب پر انگریزی زبان میں نہ صرف لکھتے تھے بلکہ بہت اچھا لکھتے تھے پر اُس کے افسانے اور تراجم بھی دیکھنے کا موقع ملا تو دل میں اس کی محبت کچھ اور بڑھ گئی۔
چند برس قبل اُس نے اپنے ا دبی رسالے ''دنیا زاد'' کے اجراء کے ساتھ ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام محترمہ امینہ سید کے ساتھ مل کر ادبی میلوں کا سلسلہ شروع کیا تو اس کی شخصیت کے کچھ مزید جوہر کُھلے، اپنے دور کے ادبی مشاہیر کے ساتھ عمدہ ، گہری اور بامقصد گفتگو کرنے میں اُسے ایک ایسا کمال حاصل تھا جس کی مثال بہت مشکل سے ملتی ہے۔
عالمی ادب پر اُس کی نظر بہت گہری تھی اور وہ ان کے معیاری اُردو تراجم کے لیے ہمہ دم مستعد رہتا تھا، چند برس قبل مجھے اُس نے ایک چینی شاعر کی ایک بہت مختصر نظم ترجمے کے لیے بھیجی جو مبہم ہونے کی حد تک علامتی تھی اور جس کے استعارے اپنی نوع کے اعتبار سے اُردو کے مروّجہ مزاج سے خاصے مختلف تھے۔ میں نے اُسے بتایا کہ اس کے ترجمے کے لیے مجھے نسبتاً زیادہ آزادی سے کام لینا پڑے گا، اُس نے ترجمہ شدہ نظم کی ایک ایک لائن کو غور سے سنا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اس کو یاد کرتے ہوئے میں یہ مختصر نظم بعنوان ''دریا پر اُترتی شام '' آپ کی نذر کرتا ہوں۔
کشتی رواں تھی میری خاموش پانیوں میں
کُہرے میں نیم گُم سا، چھوٹا سا اک جزیرہ
نزدیک آرہا تھا
اک اجنبی شفق میں
آہستگی سے سُورج ایک سمت ڈوبتا تھا
اک سمت ہورہے تھے ایک ایک کرکے روشن
یادوں کے کچھ ستارے
جیسے کسی نشے میں
پیڑوں پہ جُھک رہا تھا یوں آسمان اُس دم
چاہو تو اُس کو چُھو لو
پورا وہ چاند ایسے، مدہوش پانیوں میں
نزدیک آرہا تھا
چند روز قبل میں نے اسے کورونا کے بعد کی دنیا کے حوالے سے ایک نظم بھیجی تو اُس نے جوابی فون پر مجھ سے وعدہ لیا کہ میں یہ نظم کہیں اور نہیں چھپوائوں گا کہ یہ اُس نے اپنے جریدے ''دنیا زاد'' کے آیندہ شمارے کے لیے رکھ لی ہے ،کیا خبر تھی کہ اگر یہ آیندہ شمارہ کبھی نکلا بھی تو وہ خود اُسے دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔
آج صبح فیس بُک پر کوئٹہ کے شاعر،ادیب، اُستاد اور دوست برادرم عابد شاہ عابد کے بارے میں ایوب بلوچ صاحب کی ایک پوسٹ دیکھی تو دل دھک سا رہ گیا ۔ پی ٹی وی والے برادرم سجاد احمد نے تصدیق کردی توعابد شاہ مرحوم کے برادرِ خورد جمال شاہ کو تعزیتی فون کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ کچھ عرصے سے بیمار چلے آرہے تھے ا ور بہت کمزور بھی ہوگئے تھے ۔ بے شمار ملاقاتوں کے منظر آنکھوں میں گھوم سے گئے، وہ کوئٹہ ٹی وی کے ادبی پروگراموں کا ایک اہم حصہ توتھے ہی مگر اکثر کُل پاکستان مشاعروں اور سیمینارز میں بھی اُن سے ملاقات اور گفتگو رہتی تھی۔
بلوچی دوستوں میں منکسر المزاجی اگرچہ ایک مشترک خوبی ہے مگر عابد شاہ اس میدان میں بھی سب سے آگے تھے، وہ خود تو خوب صورت تھے ہی مگر اُن کی سدابہار مسکراہٹ اُن سے بھی زیادہ خوب صورت تھی، ایسے علم دوست اور تعلقات کو نبھانے والے لوگ کسی بھی معاشرے کے لیے ایک قیمتی اثاثے سے کم نہیں ہوتے اور اُ ن کے اُٹھ جانے سے یقینا ایک ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو بہت دیر تک قائم رہتا ہے ۔ رب کریم ان تینوں رفتگاں کو اپنی امان میں رکھے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے۔