واٹس ایپ کے دو نمبر صحافی

واٹس ایپ کے دو نمبر صحافی جنھیں صحافت کی الف ب کا علم نہیں، اپنے مطلب کی خبریں نکال کر واٹس ایپ پر شیئر کرتے رہتے ہیں


واٹس ایپ پر کام کرنے والے دو نمبر صحافی خبروں کے مضمرات جانے بغیر صرف کاپی پیسٹ سے غرض رکھتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

''یار تونے گاڑی کب لی؟ مبارک ہو، لگتا ہے کوئی اچھی نوکری لگ گئی ہے۔ لیکن تیرے پاس اتنی تعلیم نہیں، پھر کس طرح تجھے ایسی نوکری مل گئی جہاں لگتے ہی تجھے گاڑی مل گئی۔'' ایک دوست نے دوسرے دوست سے سوال کیا۔

''بھائی صحافی ہوں ،کوئی مذاق نہیں ہے۔ ابھی تو شروعات ہے ،آگے آگے دیکھ تیرا دوست کیا کیا خریدتا ہے۔'' یہ سن کر پہلا دوست اسے حیرانگی کے ساتھ دیکھتے ہوئے ''یار تو صحافی کب بنا؟ اور کس چینل میں کام کررہا ہے؟''

''کسی چینل میں نہیں۔ بس یوٹیوب چینل پر ایک چھوٹا سا اپنا چینل بناکر کام کررہا ہوں۔ لوگ بڑی عزت کرتے ہیں، یہ گاڑی بھی انہی لوگوں کی طرف سے تحفے میں ملی ہے۔''

''مگر یوٹیوب پر تو ہزاروں چینل ہیں۔ پھر تجھے کہاں سے اتنے رئیس لوگ مل گئے جو گاڑی لے کر دے دیں؟'' پہلے دوست سے رہا نہیں گیا تو وہ بال کی کھال اتارنے لگا۔

''یوٹیوب پر کوئی مجھے نہیں جانتا۔ میں تو واٹس ایپ پر ساری گیم کھیلتا ہوں۔ اور میری کمائی کا ذریعہ بھی واٹس ایپ ہے۔ کئی گروپ میں موجود ہوں۔ اِدھر کی خبر اُدھر اور اُدھر کی خبر اِدھر کرتا ہوں۔ اسی سے اپنی دال روٹی چلتی ہے۔ پولیس والے بھی عزت کرتے ہیں۔ کسی تھانے میں کوئی مسئلہ ہوجائے تو اپنے بھائی کو بولنا، پھر دیکھ تیرا کام کیسے ہوتا ہے۔''

یہ سن کر پہلا دوست خاموش ہوگیا اور سوچنے لگا کہ جسے صحیح سے پڑھنا لکھنا بھی نہیں آتا، جس نے کبھی کسی ذرائع ابلاغ کے دفتر میں قدم بھی نہیں رکھا وہ کیسے ایک صحافی بن گیا؟ کیا واقعی صحافت کا معیار اس قدر گرچکا ہے کہ کوئی بھی شخص منہ اٹھائے ذرائع ابلاغ کا نمائندہ بن سکتا ہے؟

یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ آج کل پاکستان میں ہر کام میں دو نمبری عروج پر ہے۔ پھر ایسے میں صحافت کا شعبہ کس طرح اس دو نمبری سے بچ سکتا ہے۔ اس ملک میں ہر اچھی چیز کی کمی ہے۔ نہ تو یہاں چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی کسی ادارے میں کوئی ایمانداری۔ تعلیم کا معیار جہاں خستہ حال ہو، وہاں ایسے صحافیوں کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔

سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اس کے ذریعے لاکھوں ایسے مسائل ہیں جو عوام کی نگاہ میں آنے کے بعد حل بھی ہوئے، تاہم اب اس کا غلط استعمال کافی حد تک بڑھ چکا ہے، جو آنے والے چند سال میں انتہائی خطرناک صورت اختیار کرجائے گا۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی وہ چیزیں بھی شیئر کررہا ہے جو اسے نہیں کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا صارفین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ انہیں اس بات سے مطلب ہوتا ہے کہ انہیں لائیک اور کمنٹس کتنے مل رہے ہیں۔ اور اسی لائیک اور کمنٹس کے چکر میں اب تک دنیا بھر میں ہزاروں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پاکستانی قانون میں اتنی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں کہ اب اس کا اعتراف چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان بھی کرچکے ہیں۔ قانون میں اصلاحات لانے کی باتیں ہر دور میں سنی جاتی ہیں، مگر اس پر عمل درآمد کرانے کےلیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر دو نمبر لوگ اپنے ٹیڑھے کام سیدھے طریقے سے کررہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے جہاں پکڑے جائیں گے وہاں پیسہ ان کی مدد کرے گا۔ واٹس ایپ آنے کے بعد میڈیا انڈسٹری کو جتنا بڑا دھچکا لگا ہے، شاید ہی کسی اور ادارے کو لگا ہو۔

واٹس ایپ صحافی اپنے مطلب کی خبریں نکال کر واٹس ایپ پر شیئر کردیتے ہیں، جہاں ان جیسے لوگ انہیں داد تحسین پیش کررہے ہوتے ہیں۔ جیسے یہ خبر اس نے بنائی اور فلاں اخبار میں لگوائی۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو کسی خبر سے ان کا کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ کسی اخبار یا چینل سے ان کی کوئی وابستگی۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعلیٰ درجے پر پہنچے ہوتے ہیں۔ جس صحافی کی خبر ہوتی ہے اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کسی واٹس ایپ صحافی نے اس کی خبر کے ذریعے پیسہ بھی کمایا ہوگا۔

ایک ماس کمیونیکیشن کا طالب علم 4 سال لگاتار محنت کرکے تعلیم مکمل کرتا ہے اور جب وہ آن فیلڈ ہوتا ہے تو اسے ہزاروں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ادارے کی پالیسی اور صحافتی اصولوں پر کاربند رہنا پڑتا ہے۔ اپنے دل کی بات تک نہیں کرسکتا۔ لیکن دوسری طرف واٹس ایپ صحافی ان تمام اصولوں سے مادرپدر آزاد ہوتے ہیں۔ جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آیا جو خبر وہ پھیلانے جارہے ہیں اس کا بعد میں کیا نتیجہ نکلے گا۔ انہیں نہ تو اپنی عزت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور کی عزت کرنا جانتے ہیں۔ یہ لوگ محض اپنے نفس کی خوشنودی اور حرام کمائی کو ہی کل کائنات سمجھتے ہیں۔

واٹس ایپ آنے کے بعد اخباری صنعت تو تقریباً بند ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کیوں کہ جو خبر لوگوں نے اگلے دن پڑھنی ہوتی ہے وہ انہیں نیوز گروپوں سے باآسانی فوری مل جاتی ہے۔ آج کل ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی نیوز گروپ میں ایڈ ہوجائے تاکہ پل پل کی خبریں اسے فوری اور فری میں ملتی رہیں۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں صحافت کا معیار اتنا گرتے نہیں دیکھا جتنا اب دیکھ رہا ہوں۔ یہاں ہر دوسرا شخص خود کو صحافی کہلواتا ہے، جب کہ ان لوگوں کو صحافت کی الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کسی ورکشاپ میں حصہ لیا ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی کسی سینئر صحافی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف نیوز ویب سائٹس سے خبریں کاپی کرتے ہیں اور گروپوں میں پیسٹ کرکے اپنی روزی روٹی چلا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے اس عمل سے کتنے لوگوں کا روزگار داؤ پر لگ رہا ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے کاپی پیسٹ سے کسی ادارے کو کتنا نقصان ہوگا۔ یہ لوگ اپنی دھن میں بنا پڑھے کاپی پیسٹ کیے جاتے ہیں، تاکہ گروپ میں موجود لوگوں پر اپنی دھاک بٹھا سکیں۔ واٹس ایپ کے ہر نیوز گروپ میں آپ کے علاقے کا ایس ایچ او اور ہیڈ محرر بھی نظر آئے گا۔ ان پولیس والوں پر اپنا رعب اوردبدبہ بڑھانے کےلیے یہ دو نمبر لوگ ہر وہ کام کرجاتے ہیں جن کا انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ کل کو اس خبر کا کیا رزلٹ نکلے گا۔

گزشتہ دنوں میری ملاقات علاقائی واٹس ایپ صحافیوں سے ہوئی، جو اپنا رعب مجھ پر جمانے کےلیے کبھی کسی کا نمبر نکال کر بات کرتے اور مجھے بتاتے کہ فلاں ایس پی کا فون تھا، کبھی ایم پی اے سے بات کرکے مجھے یہ دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھ لو، ہم کہاں کہاں اپنے تعلقات رکھتے ہیں۔ درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے، نہ کبھی پولیس میں اصلاحات کی گئیں، اور نہ کبھی ہمارے سیاسی نظام میں کسی نے اصلاحات لانے کی بات کی۔ جن کی ڈگریاں دو نمبر ہوں وہ کیا ایک نمبر کام کرے ایسے لوگوں کے تعلقات بھی اپنے جیسے لوگوں کی طرح ہی ہوتے ہیں جو دو نمبری میں ماسٹر کیے ہوتے ہیں۔

کوئی بھی ٹیکنالوجی بری نہیں، اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس کام میں لانا چاہتا ہے۔ واٹس ایپ اب ہماری زندگی کا اہم جز بن چکا ہے۔ ہر شخص چوبیس گھنٹوں میں 18 گھنٹے لازمی موبائل ہاتھ میں پکڑے کچھ نہ کچھ شیئر کرتا دکھائی دیتا ہے، جس سے ایک طرف انہیں تسکین ملتی ہے تو دوسری طرف کمائی کا ذریعہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ واٹس ایپ کا استعمال ضرور کیجئے، مگر کسی کے روزگار کے خاتمے کا باعث نہ بنئے۔ اخباری صنعت موجودہ حالات میں خود کو انتہائی مشکل سے زندہ رکھ پا رہی ہے، ایسے میں واٹس ایپ کے ذریعے خبروں کی مسلسل شیئرنگ اخباری صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے افسران و ملازمین سے بھی گزارش کروں گا کہ اگر آپ سے کوئی واٹس ایپ صحافی ملنا چاہتا ہے تو پہلے اس سے مستند اخبار یا چینل کا کارڈ مانگیے۔ ہر اخبار اور ہر چینل مستند نہیں ہوتا، لہٰذا پہلے اسے چیک کیجئے پھر اس سے ملاقات کریں۔ کیوں کہ وہ آپ سے بظاہر تو ویسے ہی ملاقات کرنے آتا ہے مگر جاتے جاتے ایک طرف وہ آپ کی عزت لے جاتا ہے تو دوسری طرف وہ اپنے حلقے میں مزید بااثر بنتا جاتا ہے۔ کوشش کیجئے ایسے لوگوں کو اپنے آس پاس بھی بھٹکنے نہ دیں۔ اور اگر کوئی آپ کو بلیک میل کرتا ہے تو اس کی شکایت فوری طور پر سائبر کرائم یا متعلقہ تھانے میں کریں تاکہ ان جیسوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

یاد رکھیں یہ لو گ آپ کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ مگر اس کےلیے آپ کو بھی تھوڑی ہمت دکھانی ہوگی۔ ورنہ کل جب وہ آپ کی سوشل میڈیا پر عزت تار تار کرے گا تو اس کی مکمل ذمے داری آپ پر عائد ہوگی، کیوں کہ آپ نے اسے پہلے نہیں روکا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں