پاکستان پر ٹڈی دل کا حملہ قحط سالی کا خدشہ
یہ ایام ہونگے جب کپاس کی فصل تیار ہو رہی ہوگی اور چاول کی فصل زمین سے سر نکال چکی ہوگی
ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے پاکستان کے صوبہ سندھ پنجاب اور بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہی کا شکار ہیں۔ زراعت کے عالمی ادارے نے دو سال پہلے وارننگ جاری کی تھی کہ آیندہ سالوں میں پاکستان سمیت دنیا کے تیس ممالک میں ٹڈی دل کے خوفناک حملوں کا اندیشہ ہے۔شومئی قسمت کے ہماری حکومتوں کا مدتوں سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب تک پانی سرپر نہ آجائے وہ متحرک نہیں ہوتیں۔ گزشتہ سال سندھ کے کئی اضلاع میں فصلوں کو نقصان پہنچالیکن ہم نے پیش بندی نہ کی۔ اس سال ٹڈی دل کا شدید ترین حملہ جولائی کے مہینے میں متوقع ہے لیکن توقع سے پہلے ہی مئی کے آخری ہفتوں میں ٹڈی دل نے سندھ بلوچستان اور پنجاب کے کئی اضلاع پر حملہ کر دیا ۔
کورونا کی وبا اور اپنے مخالفین کا ''تیاپانچہ'' کرنے میں ترجیحی بنیادوں پر مصروف حکومت نے اس طرف بروقت توجہ نہ دی جس سے بڑے علاقے پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ بھلا ہو ترک اور چینی بھائیوں کا کہ انھوں نے ٹڈی دل کے شدید حملوں کا مقابلہ کرنے میں حکومت پاکستان کو کیمیائی ادویات اور سپرے کے جہاز مہیا کیے ورنہ ہمارے پاس کف افسوس کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔
شکر الحمدللہ کہ ان حملوں سے پہلے سندھ اور پنجاب کے اکثر علاقوں میں گندم کی زیادہ تر فصل کو اٹھا لیا گیا تھا ورنہ خشک سالی کی فضا پیدا ہو جاتی۔ ٹڈی دل کے ان حملوں میں جانوروں کے چارے کی فصل، کپاس اور آم کے باغات کو خاصا نقصان پہنچا۔ یہ حملے اب بھی جاری ہیں۔ عملی طور پر ان کے خاتمے کے لیے کس حد تک کامیابی ہوئی ہے اس کا اندازہ تو نہیں لیکن کسان کھیتوں میں ''ڈھول بجا کر''اور حکومت ٹی وی چینلز پر اعلان کرنے پر اکتفا ضرور کرتی نظر آ رہی ہے۔ حکومت وقت سے استدعا ہے کہ وہ اس معاملے کو مزید سنجیدگی سے لے کیونکہ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اس وقت جزیرہ نمائے عرب اور بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں میں ٹڈی دل کا لاروا پل کر جوان ہو رہا ہے اور اس نے جولائی میں بلوچستان کے راستے سندھ اور پنجاب کے سرسبز کھیتوں پر حملہ آور ہونا ہے۔
یہ ایام ہونگے جب کپاس کی فصل تیار ہو رہی ہوگی اور چاول کی فصل زمین سے سر نکال چکی ہوگی۔ ملک کو قحط سالی سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ مرکزی اورصوبائی حکومتیں کو بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر ٹڈی دل کے ان حملوں کو روکنے کے لیے تیاری کرنی ہے ورنہ ملکی معیشت کو کورونا سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹڈی دل کے اڑتے ہوئے جھنڈ کو شکار بنانے سے معاملہ حل نہ ہو گا بلکہ جزیرہ نمائے عرب اور بلوچستان کے علاقوں میں اس کے لاروے کو تلف کرنا ضروری ہے ورنہ اس آفت سے بچنا مشکل ہوگا۔
ایک تحقیق کے مطابق ماضی میں افریقہ سے غذا کی تلاش میں اڑنے والے ٹڈی دل جب مشرق وسطیٰ کے صحرائی علاقوں میں پہنچتے تھے تو شدید گرمی اور خشک صحرا کی وجہ سے ان کا لاروا ہلاک ہو جاتا تھالیکن گزشتہ سالوں میں سعودی عرب نے Red Sea کے ساتھ ساتھ اور گلف کی ریاستوں نے اپنے وسیع علاقے میں مصنوعی آبیاری کے ذریعے جو ہریالی کی ہے، اس نے ٹڈی دل کو نئی غذا اور ہمت فراہم کی ہے، یہ دل عرب سے اپنی نسل کو ساتھ لے کر ایران اور بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں بآسانی پہنچ جاتا ہے اور یہاں مئی اور جون میں لاروے کی افزائش کا سامان پیدا کر رہا ہے اور چند ہفتوں بعد وہ پاکستان ایران اور بھارت کی زرعی فصلوں کو نشانہ بنائے گا۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ایران پاکستان اور بھارت اپنے تمام تر علاقائی اختلافات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر ٹڈی دل کو ختم کرنے کے اقدامات میں ہاتھ بٹائیں ورنہ ان تینوں ممالک میں غذائی قلت اور قحط سالی خارج از امکان نہ ہو گی ۔ٹڈی دل سے انسان کو نقصان پہنچنے کی تاریخ الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔
ٹڈی غذائیں فصلوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض پھیلانے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ 1747 میں ٹڈی دل نے ملک شام میں تاریخی تباہی مچائی جس کا تذکرہ ''کالے بادل''کے نام سے کتابوں میں ملتا ہے۔ 1875میں ٹڈی دل نے امریکا اور کینیڈا کے سیکڑوں کلومیٹر علاقے میں کھڑی فصلوں کو ختم کر دیا۔ مصر کی قدیم تاریخ میں بھی ٹڈی دل کے حملوں کا نمایاں ذکر ہے۔ٹڈی دل جہاں فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے وہاں اسے پروٹین اور غذائیت سے بھرپور اڑنے والا کیڑا بھی قرار دیا گیا ہے۔ مصر، سعودی عرب، اردن اور کئی دوسرے افریقی اور ایشیائی ممالک کے صحرائی لوگوں کی یہ مرغوب غذا ہے۔ٹڈی دل کو تلف کرنے کا بہترین وقت الصبح ہے۔ انھیں فضائی سپرے کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اڑتی ہوئی ٹڈیوں کو نشانہ بنانا تقریبا ناممکن ہے۔
پاکستان میں ٹڈ دل کا مسئلہ صوبائی نہیں بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے اگر مون سون سے پہلے پاکستان نے ٹڈی دل کے خاتمے کا اہتمام نہ کیا تو مون سون کے ساتھ ہی نمی کی وجہ سے ٹڈی دل کی افزایش دو گنا تک زیادہ ہو سکتی ہے جسے قابو کرنا مشکل ہوگا۔اگر ٹڈی دل پر بروقت قابو نہ پایا گیاتو غالب امکان ہے کہ پاکستان کے دونوں زرعی صوبے سندھ اور پنجاب غذائی قلت اور قحط سالی کا شکار ہو جائیں۔