دو کھرب حملہ آور
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹڈی دل کیا ہوتے ہیں۔
کورونا کا عذاب کیا کم تھا کہ اب ٹڈی دل کا حملہ شروع ہو گیا ہے، پاکستان اور ہندوستان کے بہت سے علاقے اس کی زد میں ہیں جس سے بڑے پیمانے پر کھڑی فصلیں اور باغات تباہ ہو رہے ہیں۔ کورونا نے صنعتوں اور کاروبار کا چلتا پہیہ روک دیا ہے۔ اب یہ نئی آفت زراعت کو بھی ختم کرنے کے در پے ہے۔ ڈریہ ہے کہ اس آفت سے نمٹنے میں اگر مزید تاخیر کی گئی تو ملک میں غذائی بحران پیدا ہو جائے گا جس کے نتائج کافی بھیانک بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹڈی دل کیا ہوتے ہیں۔ پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگ اس سے یقیناً واقف ہوں گے۔ نوجوان نسل اس کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتی کیونکہ اس وقت ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں کورونا سمیت دیگر مسائل کا غلبہ ہے۔ یہ دلچسپ حقیقت جاننی چاہیے کہ انسان اور ٹڈیوں کا ساتھ بہت قدیم ہے۔ ہومر قدیم یونان کا مشہور شاعر ہے۔ اس کی مشہور رزمیہ نظم الیاڈ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل لکھی گئی تھی۔ اس نظم میں بھی ٹڈی دل کا ذکر ملتا ہے۔
اس کے علاوہ مہا بھارت اور انجیل میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹڈی دلوں کی جانب سے فصلیں تباہ کرنے کے نتیجے میں بے شمار لوگ قحط کا شکار ہو کر ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک واقعہ آج سے تقریباً 1700 سال پہلے پیش آیا تھا جب ٹڈیوں کے بڑے بڑے غول چین کے ایک علاقے پر حملہ آور ہوئے اور وہاں موجود ہریالی کو چٹ کر گئے ۔ کروڑوں کی تعداد میں موجود ٹڈیوں کو کھانے کے لیے چوہے پیدا ہو گئے جن کے پسوؤں سے اس علاقے میںطاعون کی وبا پھیل گئی اور وہاں کی 98 فیصد آبادی صفحہ ہستی سے غائب ہو گئی۔
ٹڈیاں دنیا کے ہر علاقے میں پیدا ہوتی ہیں لیکن جب موسمی حالات ان کے لیے ساز گار ہوتے ہیں تو ان کی تعداد میں ناقابل تصور حد تک اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں بڑے بڑے جھنڈ بنا کر ان علاقوں پر حملہ کر دیتی ہیں جہاں سبزہ موجود ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ ہزاروں برس سے جاری ہے۔ ہمارے خطے میں ان کی افزائش ریگستانی علاقوں میں ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ٹڈی دل نے 18 ویں اور 19 ویں صدی میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس وقت ہمارے ملک پر ٹڈی دل کے جو حملے ہو رہے ہیں ان کے بارے میں اقوام متحدہ کی جانب سے کافی پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا۔
اس ادارے کی تنظیم برائے خواک و زراعت نے فروری میں خبردار کر دیا تھا کہ جنوبی ایران اور جنوب مغربی پاکستان کے کئی علاقوں میں ٹڈیوں کی غیر معمولی افزائش کا خطرہ ہے۔ یہ ٹڈیاں عموماً مشرقی افریقا کے ریگستانوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
وہاں سے ہواؤں کے رخ پر اڑتی ہوئی وہ سعودی عرب، یمن، اومان اور متحدہ عرب امارات کی طرف آتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس سال ان ریگستانی علاقوں میں وقت سے بہت پہلے بارشیں ہونے لگیں۔ طوفانی بارشوں میں ان کی زبردست افزائش ہوئی۔ جب بارشیں ختم ہوئیں تو اس وقت تک ان کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی تھی۔ انھیں زندہ رہنے کے لیے خوراک کی تلاش تھی۔ لہٰذا یہ ٹڈیوں کے بڑے جھنڈ ان ریگستانی علاقوں سے نکل کر ایران، پاکستان اور ہندوستان میں داخل ہوگئے کیونکہ یہاں ان کے لیے فصلوں اور باغوں کی شکل میں سبزہ وافر مقدار میں موجود تھا۔
ہمارے خطے پر جو ٹڈیاں حملہ آور ہوئی ہیں ان کی پیدائش اور افزائش ریگزاروں میں ہوئی ہے، لہٰذا یہ دیگر اقسام کی ٹڈیوں سے کافی منفرد اور مختلف ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈیاں نقل مکانی کرنے والے کیڑوں میں سب زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسے کیڑے ہیں جن کے پر نکل آتے ہیں اور یہ بڑے بڑے جھنڈ کی شکل اختیار کرکے براعظوں حتیٰ کہ سمندوں تک کو عبور کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عام کیڑے فصلوں کو کھانے میں کافی وقت لگاتے ہیں لیکن ٹڈیوں کے جھنڈ صرف ایک دن کے اندر پورے کے پورے کھیت چٹ کرجاتے ہیں۔
یہ ٹڈیاں 15 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتی ہیں اور 150 کلومیٹر کا سفر بڑی آسانی سے طے کر لیتی ہیں۔ ایک ٹڈی کا وزن تقریباً 2 سے 3 گرام ہوتا ہے اور ایک ٹڈی دو گرام سبزہ باآسانی کھا جاتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک کلومیٹر کے دائرے میں چار کروڑ ٹڈیاں سبزہ کھانے میں مصروف ہو سکتی ہیں۔ ٹڈیوں کے جھنڈ ہواؤں کے رخ پر سفر کرتے ہوئے ان علاقوں میں بڑی تباہی مچاتے ہیں جہاں سے ہوائیں گزرتی ہیں۔
اس کے بعد یہ جھنڈ ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے نئے مرغزاروں کی تلاش میں پرواز کر جاتے ہیں۔ بادلوں کی طرح آسمان پر اڑنے والی ٹڈیاں جب فصلوں پر اترتی ہیں تو وہ اتنا کچھ کھا لیتی ہیں جو 35000 ہزار انسان ایک دن میں کھاتے ہیں۔ یہ 90 دن زندہ رہتی ہیں لیکن اپنی زندگی کے دوران مادہ ٹڈیاں تین بار 60 سے 80 انڈے دیتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی افزائش میں خوفناک اضافہ ہو جاتا ہے۔ زراعت کے لیے کس قدر خطرناک ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایے کہ ایک مربع کلومیٹرکے علاقے میں 4 سے 8 کروڑ ٹڈیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔
پاکستان پر اس وقت 25 سال کے بعد ٹڈی دل کا اتنا بڑا حملہ ہوا ہے ۔ یہ بات پہلے کہی جا چکی ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ہمیں اور خطے کے دیگر ملکوں کو کافی پہلے خبردار کیا جا چکا تھا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اس سال موسم گرما میں دو کھرب ٹڈیاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری حکومت اور متعلقہ محکموں نے اس مسئلے کی سنگینی کا بروقت ادراک نہیں کیا۔ کورونا کی وبا کی طرح اس نئی آفت کے بارے میں بھی ہمیں پہلے سے علم ہو چکا تھا۔ کورونا وائرس کا پہلا معاملہ فروری میں سامنے آیا اور ٹڈی دل کا پہلا حملہ بھی فروری میں ہوا تھا۔ جس طرح کورونا کے بارے میں فوری اور فیصلہ کن فیصلے کرنے سے گریز کیا گیا اسی طرح ٹڈی دل کی آفت کا سامنا کرنے کے لیے بھی ہم بروقت اقدام نہیں کرسکے۔ اس وقت ٹڈیوں کے بڑے بڑے جھنڈ ملک پر حملہ آور ہوکر لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کا صفایا کرنے میں مصروف ہیں۔
کسی بھی وبا یا قدرتی آفت سے انسانوں اور معیشت کو بچانے کے لیے سخت، بلاتاخیر اور غیر مقبول فیصلے کرنے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اس کام کے لیے مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹڈی دل شہروں پر نہیں بلکہ گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اکثر حکومتیں ابتدا میں اسے اپنا نہیں بلکہ کاشت کاروں کا مسئلہ سمجھ کر زیادہ توجہ نہیں دیتیں۔ وہ شہروںکے مسائل پرزیادہ توجہ دیتی ہیں جہاں سے ان کو فوری آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکلنے لگتا ہے اور سنگین رخ اختیار کرلیتا ہے، فصلوں کی تباہی سے غذائی قلت کا خطرہ سرپہ منڈلانے لگتا ہے تو حکومتیں متحرک ہوتی ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
کورونا صنعت اور شہری طرز زندگی پر جب کہ ٹڈی دل زراعت پر حملہ آور ہیں انھیں روکیے اور ملک کو نئے امتحان میں نہ ڈالیے۔