مولانا نورانی اور مفتی جمیل احمد نعیمی کی دینی خدمات
مولانا شاہ احمد نورانی کے علمی، دینی، رفاہی و تبلیغی کارناموں کے علاوہ ریاست میں ان کا اہم اور نمایاں کردار رہا ہے
سہ ماہی جریدہ ''انوارِ رضا'' جلد نمبر 6 شمارہ 102 چند روز قبل مجھے موصول ہوا اس کا عنوان ہے ''کردارِ نورانی زندہ ہے'' پرچے کے مدیر اعلیٰ ملک محبوب الرسول قادری صاحب ہیں، ضخامت کے اعتبار سے 270 صفحات کا احاطہ کرتا ہے جناب محبوب الرسول قادری نے اپنی انتھک محنت اور شاہ احمد نورانی سے عقیدت و محبت اور ان کے دینی کارناموں کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مذکورہ پرچہ ترتیب دیا ہے، انھوں نے اپنے مضمون میں بعنوان ''امام نورانی! آپ کا مشن جاری رہے گا'' لکھا ہے کہ ہمارا عظیم قائد اللہ کی زمین پر رسول اللہؐ کے مقدس نظام کو عملی رواج دینے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گیا، آج ان کی رحلت کو 9 برس بیت رہے ہیں مگر ہم ایک لمحہ کے لیے بھی ان کی جدائی کے درد کو بھلا نہ سکے ہیں۔ ہم اپنے رب کے حضور عہد کرتے ہیں کہ پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالتؐ اور نفاذِ نظام مصطفیؐ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور امام نورانی کا پرچم تھامے رہیں گے۔''
قابل احترام جناب علامہ شاہ احمد نورانی پر لکھی گئی وقیع تحریروں سے رسالہ مرصع ہے قلم کاروں میں محسن پاکستان، فخر پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جناب مجید نظامی جو صحافت اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے ممتاز و معتبر شخصیت ہیں، مرزا فہیم اختر اور دیگر اہل علم کے نامِ گرامی شامل ہیں۔ جناب حمایت علی چوہدری شہید نے مولانا شاہ احمد نورانی کا مفصل تعارف اپنی تحریر کے ذریعے کروایا ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی جائے پیدائش میرٹھ اور سن پیدائش 17 رمضان 1344ھ ، 31 مارچ 1926 ہے آپ کا سلسلۂ نسب خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ سے جاکر ملتا ہے۔
اسی نسبت سے آپؒ صدیقی کہلاتے ہیں، علامہ شاہ احمد نورانی نے قرآن مجید فرقان حمید آٹھ سال کی عمر میں حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم ایسے اسکول سے مکمل کی جہاں ذریعہ تعلیم عربی تھا۔ آپؒ کو دنیا کی تیرہ زبانوں پر دسترس حاصل تھی، وہ بیک وقت مستند عالم دین، حافظ قرآن، خوش الحان قاری، عالمی شہرت یافتہ مبلغ، بلند پایہ مقرر، اسلامی مفکر اور سیاسی لیڈر ہیں، ذاتی طور پر نہایت نرم مزاج، خوش گفتار اور پیکر عزت و انکسار ہیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی کی تبلیغ نے بے شمار غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا 1955 میں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعۃ الازہر میں مصر کی دعوت پر تشریف لے گئے اور جہاں علما کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا اس کے علاوہ آپؒ نے مشرق وسطیٰ اور دوسرے کئی ممالک کے تبلیغی دورے کیے، تبلیغی و اسلامی تحقیقاتی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی۔
مولانا شاہ احمد نورانی کے علمی، دینی، رفاہی و تبلیغی کارناموں کے علاوہ ریاست میں ان کا اہم اور نمایاں کردار رہا ہے ایسا کردار جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ روشن رہے گا۔ مولانا نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کو فوقیت دی اور سیاست کو عبادت سمجھتے ہوئے نظام مصطفیؐ کے نفاذ کے حقیقی مقصد کے لیے کوشاں رہے، آئین پاکستان کی تدوین میں نمایاں امور انجام دیے۔
مولانا کی حق گوئی اور بے باکی کا یہ عالم تھا کہ 22 مارچ 1971 کو قصرِ صدارت ڈھاکہ میں جب اس وقت کے صدر یحییٰ خان سے ان کی ملاقات ہوتی ہے تو آپؒ نے ببانگ دہل نشے میں مدہوش صدر سے فرمایا کہ ملک سیاسی بحران میں مبتلا ہے اور آپ ہیں کہ مے نوشی کر رہے ہیں اور رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔
آئین میں مسلمان کی تعریف بڑی مہارت سے کی اور انھوں نے قادیانیوں کے خلاف پہلی اینٹ رکھی مسودہ حلف کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر مملکت ہو یا وزیر اعظم یا پھر قومی اسمبلی کے اراکین ہوں، ان سب کو مولانا شاہ احمد نورانیؒ کا تیار کردہ حلف نامہ اٹھانا پڑتا ہے وہ اس بات کا اقرار بذریعہ تحریر کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ اور اس کے رسولؐ پر ان کا ایمان ہے۔
اس طرح مولانا نے سوشلزم کے نقوش اور اس کے خد و خال کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔ اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب شاہ احمد نورانی کی تجویز پر ہی تسلیم کیا گیا اس طرح حکومت پاکستان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کا تحفظ کرے۔
ایران و عراق کی جنگ کے خاتمے کے لیے ان کا کردار قابل تحسین رہا ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ان کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ پاکستان کو خودکفیل ہونا چاہیے اس مقصد کے لیے بے روزگاروں کے لیے الاؤنس دینے کی تجویز اور بیت المال قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ غرض ''کردار نورانی'' مجلے یا کتاب کو ہم مولانا نورانی کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں مذکورہ مجلہ مکمل طور پر مولانا احمد شاہ نورانیؒ کی قدآور شخصیت، ان کی زیست کے ہر باب کا احاطہ کرتا ہے ان کی اسلام دوستی اور اسلامی افکار کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ بے شک مولانا احمد شاہ نورانی اپنے وقت کے اسلامی اسکالر، عالم دین اور مبلغ تھے وہ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے اللہ انھیں غریق رحمت کرے آمین۔
دوسرے دینی اور اسلامی مفکر جناب مفتی محمد نعیمی صاحب کی وہ خدمات ہیں جنھیں اہل علم فراموش نہیں کرسکتے ہیں وہ ایک قدآور اور نابغہ روزگار ہستی کے طور پر زندہ و تابندہ ہیں اللہ ان کی عمر میں اضافہ فرمائے آمین مولانا مفتی جمیل احمد نعیمی نے اپنی پوری عمر درس و تدریس اور مبلغ کی حیثیت سے گزاری، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ احمد شاہ نورانی کے شانہ بشانہ ہر موقع اور ہر طرح کے حالات میں کھڑے نظر آتے ہیں اور قدم سے قدم ملا کر چلنے کی سعادت انھیں نصیب ہوئی، تحریک ختم نبوت ہو یا نظام مصطفیؐ ان کا کردار ناقابل فراموش ہے، وہ اسلام کے سچے اور متحرک و جری سپاہی ہیں انھیں شہرت و ناموری کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے وہ جب رسول اللہؐ کی محبت میں ڈوب کر اسلام کی روشنی دور دور تک پہنچانے کا احسن کام انجام دے رہے ہیں۔
مولانا مفتی محمد نعیمی کا ایک اہم ترین کام جامعہ نعیمی کی تعمیر و تشکیل ہے جہاں سیکڑوں طالب علم استفادہ کر رہے ہیں۔ وہ جامعہ نعیمی کراچی کے ناظم تعلیمات کے منصب پر فائز رہے، اس کے علاوہ استاذ الحدیث جامعہ نعیمیہ کراچی، جماعت اہلسنت کے ناظم اعلیٰ کے طور پر کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے ہیں، پاکستان کی سپریم کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر براجمان ہیں، ترجمان اہلسنت کے چیف ایڈیٹر کی ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔
20 جنوری 1968کو مفتی صاحب نے انجمن محبان اسلام کو انجمن طلبا اسلام میں تبدیل کردیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی خواہش تھی کہ طلبا اپنی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلام کا پیغام پہنچائیں تاکہ نئی نسل کی اصلاح ہوسکے ایک سعادت ان کے حصے میں یہ بھی آئی کہ غلاف کعبہ کی تقریب کے موقع پر وہ بھی شامل تھے اور پاکستان سے غلاف کعبہ نذر کیا گیا تھا، بے شک یہ پاکستان کی بہت بڑی خوش قسمتی تھی۔