یہ وہ سحر تو نہیں چلے تھے جس کی آرزو لے کر
پاکستان میں اب تک عمران خان سمیت 22 وزرائے اعظم کی نشست پر براجمان رہے
امریکا دنیا کی واحد سپرپاور ہے اور اس کی وجہ وہاں کا سسٹم یا ضابطہ قانون ہے جو کسی انسان کا محتاج نہیں ،اس لیے کہ امریکی ادارے ہمیشہ سے شخصیات سے بالاتر رہے ہیں۔ امریکا نے اپنے جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لیے پاکستان سے 65 سالہ پرانے تعلقات بالائے طاق رکھ دیے اور جب قصاص دینے کی نوبت آئی تو امریکی صدر سمیت امریکا کے کسی حکومتی عہدے دار کے پاس 20 کروڑ روپے ادا کرنے کی اتھارٹی نہیں تھی چنانچہ یہ رقم اس وقت پاکستانی خزانے سے ادا کرنی پڑی۔ افسوس برسہا برس سے ہمارے ہاں شخصیات کو اداروں سے مقدم اور مضبوط سمجھا جا رہا ہے۔
ہمارے ملک کو دراصل کبھی ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا سوچا ہی نہیں گیا اور اکثر و بیشتر ایک نئے دور کی نوید دی جاتی ہے، ایک نئے پاکستان بنانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کی سدھار اور بناؤ سنگھار پر ہی توجہ مرکوز کی جاتی۔ نہ جانے ہم کب اپنی ترجیحات طے کریں گے؟ کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی دلیلیں بھی احسن طریقے سے پیش نہیں کرسکتے، ہم کتنے تہی دست، کتنے بے بس اور کتنے لاچار ہوگئے ہیں یہ اغیار بھی اچھی طرح جان چکے ہیں۔
پاکستان میں اب تک عمران خان سمیت 22 وزرائے اعظم کی نشست پر براجمان رہے اور ان میں سے کسی ایک نے بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مقررہ مدت پوری نہیں کی اور انھیں گھر واپس بھیج دیا گیا۔ ویسے بھی سوائے محدود ترقیاتی منصوبے ہی وہ واحد اختیار ہے جو وزیر اعظم کے پاس بچا ہے جب کہ اصل طاقت کہیں اور موجود چلی آرہی ہے۔ مملکت پاکستان میں وزیر اعظم کی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ بیورو کریسی ہے جس کے قد اور اختیارات دونوں میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے، کمزور سیاسی جماعتیں اور ان کا ہوا میں معلق منشور بھی ان کی ناکامی کی بہت بڑی وجہ بنتی رہی ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بحران لیڈر بناتے بھی ہیں اور انھیں گراتے بھی ہیں۔وطن عزیز کی بدقسمتی کہہ لیں کہ اسے قائد اعظم کے بعد کوئی لیڈر میسر نہ آسکا۔ آزادی کے 78 سالوں بعد بھی ہمارے ہاتھ اغیار کی طرف پھیلے ہی چلے آ رہے ہیں اور یوں ترقی کی دوڑ میں ہم برسوں سے چھوٹے ممالک سے بھی پیچھے چلے آ رہے ہیں۔
کسی بھی حکومت کے پاس آمدنی کے دو ہی ذرایع ہوتے ہیں۔ ٹیکس یا قرض۔ ہمارے ہاں ہمیشہ قرض کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ جنھیں ٹیکس دینا چاہیے وہ ٹیکس سرے سے ادا نہیں کرتے یا پھر آٹے میں نمک کے برابر ادا کرتے ہیں، سارا بوجھ عام انسانوں یا تنخواہ دار طبقے کی ناتواں کمر پر لاد کر نئے نئے ٹیکس اس پر مسلط کیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پوری قوم قرض کے بوجھ تلے دبتی چلی آرہی ہے۔
اس وقت پاکستان کی بالغ آبادی تقریباً 16کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جس سے ہر حکومت ٹیکس وغیرہ کے نام پر باقاعدگی سے رقم سالانہ بنیاد پر وصول کرتی ہے لیکن اس کے حقوق کے نام پر ایک ٹکہ اس پر کوئی نہیں خرچتا۔ 2011 کے اخبارات میں نادرا کی ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی جس کے مطابق پانچ لاکھ چھیاسٹھ ہزار ایسے شہری ہیں جو بنگلوں میں رہتے ہیں، غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹ رکھتے ہیں مگر ٹیکس کی مد میں ایک پائی قومی خزانے میں وہ جمع نہیں کراتے، اگر 75 ہزار روپے سالانہ فی کس وہ ٹیکس دینا شروع کردیں تو چالیس ارب روپے کی خطیر رقم ان سے وصول ہوجائے گی لیکن یہ قدم کسی دور حکومت نے آج تک نہیں اٹھایا۔ بس گیس، بجلی، پانی، پٹرول، ڈیزل، آٹا، چینی، گھی، تیل اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں پر دام بڑھا کر قومی نقصان کو پورا کیا جاتا چلاآرہا ہے۔
ہمارے ملک میں کورونا اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے جو کچھ کیا جاتا رہا ہے اس سے کوئی بہتری تو دیکھنے میں نہیں آئی البتہ بدتری کے مظاہر چہار سو دیکھے جاسکتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے اختلاف نے کراچی کے عوام کو خاص طور پر زبردست معاشی بدحالی میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے اور ملکی معیشت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ وفاق اور سندھ حکومت کی رسہ کشی نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کو ریت کی بھربھری عمارت میں بدل دیا۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ (کراچی) 40 سالوں سے وفاق کو پالتا پوستا چلا آرہا ہے۔
ریونیو، محصولات اور دیگر ٹیکسز کی ضمن میں۔ لیکن اس شہر اور شہریوں کے مسائل آسمانوں سے بات کر رہے ہیں۔ کاش ہمارے ارباب اختیار یہ جان پاتے کہ ملک کی دم توڑتی معیشت کو دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے لیکن بھوک، افلاس، بے روزگاری یا غربت سے مرجانے والے انسانوں کو کسی طور دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور اب تو ہمارے ہاں کے 90 فیصد عوام نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بھوک و افلاس سے مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی کورونا سے مرجائے۔ عملی طور پر نہ وفاقی حکومت کو عوام الناس کا خیال ہے اور نہ ہی سندھ حکومت کو کراچی شہر کے عام لوگوں یا کاروبار کرنیوالے اداروں کا دکھ دکھائی پڑتا ہے، کسی کو تین کروڑ آبادی والے شہر سے کوئی ہمدردی نہیں اور کب تک یہ ہولناک صورتحال رہے کی اس کا جواب نہ وزیر اعظم کے پاس ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔
جو ستم پچھلے 72 سالوں میں نہیں دیکھنے میں آئے تھے وہ سبھی ایک ایک کرکے قوم پر نازل ہو رہے ہیں۔ ہر طرف عوام کے ساتھ زیادتی کا بازار گرم ہے اور یہ ساری بداعمالیاں قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے والے سیاسی لوگ، وزرا اور ان کے اہلکار کر رہے ہیں۔
یہ سب کرنیوالے وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے کل کا پتا نہیں، بعض کی دل کی شریانیں بند ہیں، بعض کے جسموں میں کینسر نے جڑ پکڑ رکھی ہے، قبروں میں ٹانگیں لٹکی، سہارے کے بغیر چند قدم بھی نہیں چل پاتے۔ ہمارے ارباب اختیار مردہ ضمیر ہیں لیکن خود کو زندہ قوم کہلوا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ صرف دو فیصد لوگوں نے قاعدے اور قانون کو اپنی میراث بنا رکھا ہے، اگر انصاف مہیا کرنیوالے ادارے اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دینے لگیں تو ملک کی سدھار ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارے ملک کا پورا سیاسی نظام کرپشن کو پالتا اور خود بھی اسی میں پلتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ شر ہمیشہ اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ اچھے اور بااختیار لوگ کچھ بھی نہیں کرتے۔ تاہم امید اور امکان کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو ملک کے تمام سپریم اداروں کی پاسداری اور ان کے احترام کو ہر حال میں یقینی بنانا ہوگا اور اگر انھوں نے ایسا نہ کیا یا اس سے صرف نظر کیا تو مستقبل میں تاریخ جو فیصلہ دے گی وہ کسی اور کے نہیں خود ان کے اپنے خلاف ہوگا۔