بچوں پر تشدد موثر قانون سازی کی ضرورت

بچوں پر تشدد کے سیکڑوں واقعات کے باوجود ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہیں ہوسکی


تشدد کے ان واقعات میں اکثر بڑے عہدیدار یا زیادہ مالدار افراد ملوث ہوتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

راولپنڈی میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد اور قتل کے تازہ واقعے کے بعد ایک بار پھر ملک میں طوفان برپا ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس بار بچی کے والدین کو انصاف مل کر رہے گا اور اس بے گناہ کے قاتل اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے۔ لیکن یہ کوئی پہلی بار نہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار ایسے واقعات رونما ہوتے رہے اور ہر بار اسی طرح طوفان کھڑے ہوتے رہے اور دو چار دن بعد ہر واقعے کی طرح اس واقعے کو بھی بھلا دیا جاتا ہے اور پھر پوری قوم نئے سانحے کے انتظار میں لگ جاتی ہے۔

ہمارے ملک میں یہ فیشن بن چکا ہے کہ امرا دیہاتوں میں غریب لوگوں کو تھوڑی بہت رقم دے کر ان کے بچوں کو شہروں میں بھیجنے پر راضی کرلیتے ہیں اور پھر ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے گھروں میں پرمشقت کاموں پر لگا دیتے ہیں۔ وہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کےلیے سودا سلف لاتے ہیں اور گھروں کی صفائی ستھرائی کا کام بھی یہی کمسن بچے سر انجام دیتے ہیں۔ اس کے بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے؟ اکثر ایسے بچوں کو گھر والوں کا بچا کچھا کھانے کو ملتا ہے، سونے کےلیے گھر والوں سے الگ تھلگ بستر دیا جاتا ہے، اوپر سے بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی ان کا مقدر بن جاتی ہے، جسے یہ صبح و شام سہتے رہتے ہیں۔

یہ معصوم والدین کے پیار اور شفقت سے محروم اپنے گھروں سے میلوں دور سسکتے رہتے ہیں۔ نہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں، ہم بھی اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کرسکتے ہیں۔ نہ تو ان کی میڈیا تک رسائی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی تھانے کا راستہ معلوم ہوتا ہے۔ اور تو اور انہیں تو اپنے گھر تک کا راستہ معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ بے چارے بے بسی کی تصویر بنے جبر و تشدد برداشت کرتے رہتے ہیں۔

ہزاروں بچے ایسے ہیں جن کی آواز میڈیا تک نہیں پہنچ پاتی اور نہ ہی ان کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ کیس تو زیادہ تر ان کے رپورٹ ہوتے ہیں جن پر بہت زیادہ تشدد کیا گیا ہو۔ جس سے بچے شدید زخمی ہوگئے ہوں یا قتل کردیے گئے ہوں۔ اس کے علاوہ روزمرہ کے چھوٹے موٹے تشدد کے کیسز گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں نکل سکتے۔

تشدد کے ان واقعات میں اکثر بڑے عہدیدار یا زیادہ مالدار افراد ملوث ہوتے ہیں۔ چند سال قبل ایک جج کی بیوی نے اپنی ملازمہ پر شدید تشدد کیا تھا۔ جب وہ خود قانون کے رکھوالے تھے تو قانون ان پر کیسے ہاتھ ڈالتا؟ اگر میڈیا کو دکھانے کےلیے ہاتھ ڈالا بھی تو کچھ ہی دیر میں ضمانت بھی منظور ہوگئی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کی ایک رکن کی بیٹی نے اپنے 16 سالہ ملازم پر تشدد کیا تھا اور اس کیس کا حال بھی پہلے والے کیس سے زیادہ مختلف نہ ہوا۔ ایسے تمام کیسز میں بااثر افراد ملوث ہوتے ہیں جو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کسی مجرم کو سزا نہیں ہوسکتی اور معصوم بچوں پر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

یہ ایک ایسا جرم ہے جس میں ان بچوں کے والدین بھی برابر کے شریک ہیں۔ چاہے وہ اپنی انتہائی مجبوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ بچے زیادہ ہوتے ہیں اور آمدن نہایت قلیل۔ اب بچوں کو کھلائیں کہاں سے؟ تو وہ سوچتے ہیں کہ بچے کو کسی امیر کی کوٹھی پر بھیجنے سے ایک تو اس بچے کے کھانے پینے اور پہننے کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور دوسرا باقی بچوں کی کفالت کےلیے بھی کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ یوں ان لوگوں کی مجبوری ان کے بچوں کو چھوٹی سی عمر میں اس جہنم میں دھکیل دیتی ہے جہاں ان کی چیخ و پکار سننے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

شیخ سعدیؒ نے ایک حکایت نقل کی ہے کہ ایک بادشاہ مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ بہت علاج کرایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ اس کے طبیبوں نے مشورہ دیا کہ اس کا علاج ایسی ایسی نشانیاں رکھنے والے شخص کے پتے سے ہی ممکن ہے۔ بادشاہ نے ایسے شخص کی تلاش کا حکم دے دیا۔ اس کے سپاہیوں نے ایک غریب کسان کے بیٹے میں وہ نشانیاں پالیں اور اس کے باپ کو بڑی رقم کا لالچ دے کر بیٹے کے قتل پر راضی کرکے بادشاہ کی خدمت میں لے آئے۔ بادشاہ نے قاضی سے اس کے قتل کے جواز پر اپنے حق میں فتویٰ حاصل کرلیا۔ جب جلاد لڑکے کو قتل کرنے کےلیے آگے بڑھا تو لڑکا آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ بادشاہ کو تعجب ہوا اور اس سے سوال کیا۔ اے لڑکے! یہ ہنسنے کا کیا موقع ہے؟ لڑکے نے جواب دیا ''اولاد کے ناز نخرے ماں باپ اٹھاتے ہیں لیکن میرے ماں باپ نے دولت کے لالچ میں مجھے فروخت کردیا۔ اس کے بعد قاضی اور بادشاہ انصاف فراہم کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی میرے قتل کی ٹھان لی ہے۔ اب آخری سہارا اللہ کا ہے۔ یہی دیکھ کر مسکرایا ہوں کہ ابھی اس کا انصاف بھی نہیں پہنچا''۔

بادشاہ کو اس پر ترس آگیا اور اس نے لڑکے کو انعام دے کر رخصت کردیا اور چند ہی ایام میں وہ تندرست بھی ہوگیا۔ اس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب حکمران مفاد پرست ہوں، عدالتیں بے انصاف ہوں تو پھر والدین اپنی اولاد کو بھی فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

امرا کے اپنے بچے تو اتنے ناز و نعم میں پلتے ہیں کہ انہیں کوئی ڈانٹ تو دے یا اساتذہ تک کوئی ہاتھ تو لگا کر دیکھے یہ اس کے گلے پڑجاتے ہیں۔ لیکن غریبوں کے بچوں کو یہ بچہ ہی نہیں سمجھتے۔ بچے کیا انہیں تو انسان بھی سمجھنے کےلیے تیار نہیں۔ یہ بچے غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے۔

بچوں پر تشدد کے سیکڑوں واقعات کے باوجود ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہیں ہوسکی۔ کچھ عرصہ قبل بچوں سے مشقت وغیرہ کرانے پر پابندی تو لگی تھی لیکن کوئی ایسا قانون نہیں بن سکا جس کے تحت بچوں کو اس طرح غلام بنا کر رکھنے اور ان پر تشدد کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔ لہٰذا ارباب اقتدار کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور فوری طور پر ایک موثر قانون بناکر مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کا سدباب کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں