امریکا کی سڑکوں پر جمہوریت کا جنازہ

آج کل جمہوریت کے سب سے بڑے داعی امریکا کی سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں


امریکا میں نسلی تعصب کے خلاف پرتشدد مظاہرے اور احتجاج ہرہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

علمائے سیاست نے جمہوریت کی بہت سی تعریفیں کی ہیں، لیکن ان میں سب سے جامع اور مقبول تعریف یہ ہے کہ عوام کےلیے، عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے۔ یعنی یہ عوام کی حکومت ہوتی ہے جسے عوام کے ذریعے تشکیل دیا جاتا ہے، اس میں کاروبار حکومت عوام کی مرضی کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ عوام کو ایک بہت بڑا دھوکا دیا گیا ہے۔

آج پوری دنیا میں عوام کو اس نعرے کے ساتھ بہکایا جارہا ہے، جبکہ چند سرمایہ دار اور اونچے طبقے کے لوگ اس کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کررہے ہیں۔ آج کسی بھی جمہوری ملک کا کوئی سیاستدان اس نظام حکومت کے خلاف ایک لفظ اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ وطن عزیز کی دینی سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم تو جمہوریت کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ اس نظام حکومت سے پوری طرح مطمئن یا خوش ہیں۔ لیکن انہیں بھی معلوم ہے کہ عوام کو جمہوریت کے زہر کی پڑیا اس طرح میٹھی کرکے پلا دی گئی ہے کہ ان کے اذہان اس نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام قبول کرنے کےلیے تیار ہی نہیں ہیں۔

جمہوری نظام کو دنیا کا سب سے بہترین نظام حکومت قرار دیا جارہا ہے اور اس کے حامی یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ دنیا کے تمام سیاسی نظاموں کا تجربہ کرنے کے بعد جمہوریت ہی بہترین آخری نظام حکومت ثابت ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اشتراکی نظام کے حامی بھی اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے کہ تمام نظاموں کا تجربہ کرنے کے بعد اشتراکی نظام ہی آخری بہترین نظام ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ وہ نظام رفتہ رفتہ خود اپنی موت آپ مر گیا اور ان کے تمام تر دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

جمہوری نظام حکومت میں عوام کو یہ کہا جاتا ہے کہ نظام حکومت ان کے ذریعے چلایا جائے گا لیکن ایسا عملاً ہوتا نہیں۔ کیا عوام ساری کی ساری اس حکومت یا اس سیاسی جماعت کی حامی ہوتی ہے جو برسر اقتدار آتی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوتا بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد دوسری جماعتوں کو بھی ووٹ دیتی ہیں جو برسر اقتدار نہیں آسکتیں اور اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہیں۔ فقط معمولی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت بھی برسر اقتدار آجاتی ہے، جس سے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ جس کی تعداد کروڑوں میں بھی ہوتی ہے، ناخوش ہوتا ہے۔ تو پھر یہ کیسی عوام کی حکومت ہوئی؟ اس کے علاوہ جب سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آجاتی ہیں اور وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کا اکثر لحاظ نہیں رکھتیں تو عوام کے پاس کوئی ایسی طاقت یا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ ان سے انتخابی وعدوں کی تکمیل کرا سکیں یا اپنی مرضی کا کوئی قانون پاس کرا سکیں۔ عوام فقط اتنا کرسکتے ہیں کہ آئندہ انتخابات تک انتظار کریں اور انتخابات کی آمد پر انہیں ووٹ نہ دے کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرلیں۔ لیکن یہاں بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ عوام کو سبز باغ دکھا کر ورغلا لیتے ہیں اور عوام پھر انہیں ووٹ دے دیتے ہیں یا عوام کبھی زیادہ ہی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ووٹ نہ دیں تو وہ دوسری ایسی جماعت کو ووٹ دے دیتے ہیں جو ان کےلیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

عوام اگر زیادہ تنگ آجائیں تو ان کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور وہ ہے احتجاج کا راستہ۔ لیکن اس راستے پر چل کر بھی عوام کا بہت سا جانی و مالی نقصان ہوجاتا ہے۔ عوام اگر قومی و عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ املاک بھی کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ عوام کی اپنی ہی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی اگر عوام کا احتجاج حکومت کے قابو میں نہ رہے اور عوام اپنے حقوق کےلیے زیادہ غصے کا اظہار کریں تو پھر حکومت تشدد کا راستہ اختیار کرلیتی ہے۔ یہی تشدد آج کل جمہوریت کے سب سے بڑے داعی امریکا کی سڑکوں پر دیکھا جارہا ہے۔

یہی مغربی ممالک جنہوں نے اس جمہوریت کے نام پر بہت سے ہنستے بستے ممالک تباہ کردیے۔ جمہوریت کے نام پر کئی ایسی حکومتیں خراب کیں جنہیں عوام کا اعتماد حاصل تھا۔ لیکن عوام کے ذہنوں میں جمہوریت ڈال کر عوام کو بھی مروایا اور ریاستیں بھی تباہ کردیں۔ آج وہاں جب احتجاج شروع ہوا تو انہیں اپنی ہی وضع کی ہوئی تمام جمہوری اقدار بھول گئی ہیں اور عوام پر تشدد کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پولیس اہلکار اپنے حقوق کےلیے احتجاج کرنے والی خواتین پر تشدد کرتے اور انہیں گرفتار کرتے دکھائی دے رہے ہیں، حالانکہ وہ اپنے حقوق کےلیے احتجاج کررہے ہیں جسے جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔

جب دوسرے ممالک میں حکومتوں کے خلاف احتجاج ہوتا تھا تو یہ عوام کو حکومت کے خلاف مزید اکساتے تھے لیکن جب اپنے ملک میں احتجاج شروع ہوا تو اپنی حکومت بچانے کےلیے عوام پر تشدد شروع کردیا ہے۔ احتجاج تو چند دیگر یورپی ممالک میں بھی جاری ہے لیکن امریکا میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہا ہے۔

امریکا میں حالیہ احتجاج کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے جو اپنے حقوق کا مطالبہ کررہی ہے۔ احتجاج کرنے والے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے حقوق کی ہمیشہ خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں۔ انسانی مساوات بلکہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا درس دینے والے یہ لوگ انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ جو کہا وہ کیا نہیں۔ قول و فعل کا تضاد ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ اس لیے ان کے جمہوریت کے نعروں میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔

لہٰذا ہمیں مغربی جمہوریت کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے اپنا اسلامی نظام حکومت اپنانا چاہیے۔ ہمیں اللہ رب العزت نے دین اسلام کی دولت سے مالا مال کیا ہے، اس دین میں ہمیں تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔ اس لیے ہمیں اس سچے دین کی مکمل طور پر اتباع کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم مغربی جمہوریت کے مکارانہ نعروں کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و عاقبت دونوں خراب کر بیٹھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں