تاریخ بڑی بیباک اورنڈر ہوتی ہے
مؤرخ بڑا ظالم اور بے باک ہوتا ہے اُس کی آنکھوں میں کسی کا لحاظ اور احترام نہیں ہوتا۔
لاہور:
جولائی 2018 سے شروع ہونے والااُمیدوں اور خوش گمانیوں سے بھر پور عہدرفتہ رفتہ نااُمیدیوں اور ناکامیوں کی انگنت کہانیاں لے کرملکی تاریخ میں ایک منفرد باب کی شکل میں تحریر ہوتا جارہا ہے۔
مؤرخ بڑا ظالم اور بے باک ہوتا ہے اُس کی آنکھوں میں کسی کا لحاظ اور احترام نہیں ہوتا۔ پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے جھوٹ بولے گئے ،لیکن وقت نے اُنہیں بے پردہ اور بے عیاں کرہی دیا۔وہ خواہ سقوط ڈھاکا کا واقعہ ہو یاپھر کارگل کی جنگ کا ۔یہی وجہ ہے کہ اول تو اتنے بڑے سانحات پر کمیشن بٹھانے سے کترایاجاتا رہا اور اگر طوعاً وکرہاً ایسا کرنا بھی پڑا تو پھر اُنکی رپورٹوں کو پبلک نہیں کیاگیا۔مگر تاریخ اپنا فرض اداکرتی ہی رہی ہے۔
آج بھی جو کچھ ہورہا ہے اُس کی حقیقت اور سچائی ایک روز کھل کرسامنے آجائے گی۔ تاریخ کسی کومعاف نہیں کرتی۔ الیکشن سے پہلے آپ نے کیاکیاکہاتھا اورپھر برسراقتدار آنے کے بعد پہلے دن سے جس طرح اُن سب باتوں سے منحرف ہوتے گئے سب کچھ تحریر کیا جا رہا ہے۔خزانہ اگر 2018 میں خالی تھا تو آپ نے اِن دوسالوں میں اُسے کتنا بھر دیا۔قرضوں پہ قرضے لیے جارہے ہیں لیکن کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہا۔ملک سارا جیسے منجمد ہوکررہ گیاہے۔
پچھلے دوسال سابقہ حکمرانوں کو موردالزام دیتے گزر گئے ۔ اگلے تین برس بھی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کرلیاجائے گا۔قسم کھا رکھی ہے کہ کوئی میگا پروجیکٹ نہیں لگانا ، مہنگائی کو آسمانوں پر پہنچادینا ۔ ملکی ترقی کی شرح نمود کو 5.5سے گھٹا کر منفی درجوں میں میں پہنچادینا۔روپے کی ویلیوکو بے قدروقیمت کردینا،کوئی نیا اسپتال یا یونیورسٹی نہیں بنانا، صرف اورصرف لمبے لمبے بیانوں اوراسمارٹ تقریروں سے قوم کاپیٹ بھرتے رہنا۔یہی ہماری اِس موجودہ حکومت کاایجنڈااورمنشور ہے۔
قوم کو الیکشن سے پہلے کیسے کیسے لارے لپے دیے گئے تھے۔ایسالگتاتھا کہ ہمیں کوئی نیاارطغرل مل گیاہو۔ جو ہمیں تاریک اندھیروں سے نکال کر روشن اورترقی یافتہ دور میں لے آئے گا۔ ہمارے گرین پاسپورٹ کی عزت ووقار دلائے گا۔ ہماری ایکسپورٹ بڑھائے گا۔ مہنگائی اور گرانی کا سدباب کریگا مگر افسوس کہ ایسانہ ہوا بلکہ ہم پہلے سے بھی زیادہ زوال وانحطاط کے دور میں گرتے چلے گئے۔ یہ سب کچھ برداشت کرلیاجاتا لیکن اگرسامنے کوئی آس واُمید بندھی ہوتی۔
یہ ایک کروڑ نوکریاں اورپچاس لاکھ گھر بنانے کی ساری باتیںہواہوتی نظر آرہی ہیں۔ نئی نوکریاں کیا فراہم کرتے پہلے سے موجود نوکریاں ہی ختم کروادی ہیں۔ پھر حیران کن با ت ہے یہ کہ اِن سب باتوں پراُنہیں کوئی پشیمانی بھی نہیں ہے۔ نواز شریف دور میں اسٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جانے والوں نے خود اپنے دور میں وہی کچھ کرنے کافیصلہ کیاتو الزام کورونا کی وباء پر۔
اول تو اسٹیل مل کو اپنے دعوؤں کے مطابق چلاکر دکھانا تھاتودوسال میں ایسا کرچکے ہوتے اور اگر بند ہی کرنامقصود تھاتو پھر ایسے وقت نہ کرتے جب کورونا کے سبب ویسے ہی ہمارے یہاں ہزاروں اورلاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔اتنی بڑی تعدا د میں بے روزگار ہونے والے لوگ اب کیا کرینگے جب جابز کی صورتحال پہلے ہی سنگین صورت اختیار کرچکی ہے۔وہ چوریاں اورڈکیتیاں نہیں کرینگے تو کیاکرینگے۔اسٹیل مل کا یہی فیصلہ کرنا مقصود تھا تو پھر سابقہ دور میں کرنے کیوں نہیںدیاگیا۔
حکومت نے اِن دوسالوں میں ایسا کونسا پروجیکٹ لگایا ہے جس سے ہمارے لوگوں کو روزگار ملاہو۔سوائے نوکریوں سے بیدخل کرنے کے اورکیاہی کیاگیا ہے۔ جتنی مہنگائی اِن دوسالوں میں ہوئی ہے وہ سابقہ کسی دور میں نہیں ہوئی۔ خان صاحب اکثر قوم سے گلاکرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔اگردیکھاجائے تو ہماری قوم سے ڈائریکٹ اوراِن ڈائریکٹ بے حساب ٹیکس لیاجاتا ہے۔
صابن سے لے کر ماچس کی ڈبیہ تک ٹیکس وصول کیاجاتاہے لیکن جواب میں اُنہیں کیاوہ سہولتیں دی جاتی ہیں جومغرب میں اُ ن کے حکومتیں اپنے لوگوں کو دیاکرتی ہیں۔ ہم پانی، صحت،اسکولز،ٹرانسپورٹ اورسڑکوں سمیت شہریوںکو اُن کے بنیادی حقوق دینے کے توروادار نہیںہیں اور باتیں کرتے ہیں مغرب کے لوگوں کی۔وہاں کی حکومتیں اگر ٹیکس وصول کرتی ہے تو اپنے لوگوں کو ساری بنیادی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔ ہم اپنے عوام سے ٹیکس تو پوراوصول کرتے ہیں لیکن سہولتیں کیافراہم کرتے ہیں۔خدارا یہ دوغلی پالیسی ترک کیجیے۔
وقت تیزی سے گذرتا جارہا ہے۔ سابقہ حکمرانوں نے تو قرضے لیے توکچھ کام کرکے بھی دکھایا۔ بجلی اورتوانائی کے کارخانے اور پروجیکٹ لگائے جنکی وجہ سے لوگ آج آپ کے دور میںلوڈشیڈنگ سے بچے ہوئے ہیں۔ سڑکیں ،شاہراہیں اورموٹرویز بنائیں۔ سی پیک جیساعظیم منصوبہ شروع کیا۔ میٹروبس سروس اور اورنج ٹرین کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ آپ سے تو پانچ سالوں میں ایک پشاور میٹروبس کاپروجیکٹ ہی مکمل نہیں ہوا۔ اُس منصوبے کے لیے امپورٹ کی جانے والی بسیں عرصہ سے کھلے آسمانوں کے نیچے گل سڑھ رہی ہیں۔
اِس کا حساب کون دیگا۔ شکر کریں آپ کو دہشت گردی اور خود کش حملوں کووہ دور نہیں ملا جو سابقہ حکمرانوںکو ملاتھا۔آپ کوکراچی شہراُس طرح جلتاہوا نہیں ملا جس طرح میاں نواز شریف کو ملا تھا۔ لیکن اُنہوں نے ایک بار بھی اپنی ناکامیوں کاالزام اِن چیزوں پر نہیں ڈالا ۔ یہ ساری باتیں تاریخ کاحصہ ہیں ۔ اِسی لیے کہتے ہیں تاریخ بہت بے باک اورنڈر ہوتی ہے۔اُس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وہ کسی کالحاظ یامروت نہیں کرتی، جوکچھ سابقہ حکمرانوں نے کیا وہ بھی ایک ایک چیزتاریخ کے صفحات میں درج ہے اور جو آپ کررہے ہیںوہ بھی درج ہوتی جارہی ہے۔