مسئلہ جعلی ڈومیسائل کا
ڈومیسائل اور مستقل سکونت کے سرٹیفکیٹ کا معاملہ سندھ کے عوام کے لیے ہمیشہ ایک جذباتی مسئلہ رہا ہے۔
جعلی ڈومیسائل کا معاملہ پھر سر اٹھارہا ہے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں قوم پرست تنظیمیں، ہاری کمیٹی، مزدور رہنما اور دانشور اس معاملہ پر سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی میں ایک قوم پرست تنظیم کے کارکنوں نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے جلوس کے شرکاء کو گرفتار کرلیا۔
حکومت سندھ نے جعلی ڈومیسائل کے معاملہ کی تحقیقات کے لیے بورڈ آف ریونیو کے سینئررکن قاضی شاہد پرویز کی قیادت میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی میں جنرل ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری سعید احمد منگوریو، ڈپٹی ڈائریکٹر بی آر سی، نذیر احمد قریشی شامل ہیں۔ کمیٹی کے ٹرم آف ریفرنس کے مطابق اس کمیٹی کو ایک ہفتہ کی تحقیقات کے بعد صوبہ کے چیف سیکریٹری کو رپورٹ دینی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ دو برسوں سے سندھ کے شہری علاقوں میں جعلی ڈومیسائل بنانے کے خلاف تحریک چلارہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اظہار الحسن نے حکومت سندھ کی کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ کمیٹی اتنی طاقتور نہیں کہ صوبہ بھر میں جاری ہونے والے ہزاروں ڈومیسائل کی اسکروٹنی کرسکے۔ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں کی بناء پر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کتنے افراد متعلقہ ضلع سے ڈومیسائل اور مستقل سکونت کا سرٹیفکیٹ(P.R.C) حاصل کرنے کے اہل نہیں تھے۔
ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ ڈویژن میں جاری ہونے والے 41 ڈومیسائل مشتبہ ہیں۔ اسی طرح کشمور میں 29، گھوٹکی میں 30 سے 40 ڈومیسائل کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کمیٹی 7دن کی مختصر مدت میں سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت باقی شہروں سے جاری ہونے والے ڈومیسائل کا جائزہ لے سکے گی؟
ایک رکن نے اپنی تحقیقات کے تناظر میں کہا کہ کم از کم دو اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنر صاحبان نے اپنے قریبی عزیزوں کو ڈومیسائل جاری کیے۔ انھوں نے متنازعہ ڈومیسائل کے حوالہ سے ایک مثال سے بتایا کہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی طالبہ چار سال سے جامشورو کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں، اب اس نے جامشورو کا ڈومیسائل حاصل کیا ہے۔ اس کے والد کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کا رحیم یار خان کا ڈومیسائل منسوخ کرادیا ہے۔
ڈومیسائل اور مستقل سکونت کے سرٹیفکیٹ کا معاملہ سندھ کے عوام کے لیے ہمیشہ ایک جذباتی مسئلہ رہا ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب پاکستان قائم ہوا تو کراچی دار الحکومت بنایا گیا۔ ہندوستان سے لاکھوں افراد ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ ان میں سے اکثریت کراچی میں آباد ہوگئی۔ کراچی دارالحکومت بننے کے بعد بیوروکریسی اور تاجر پورے ملک سے کراچی میں آکر آباد ہوئے۔ کراچی اور حیدرآباد میں صنعتی ترقی ہوئی اور خیبر پختون خوا ، پنجاب اور بلوچستان کے لاکھوں افراد اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر مزدور بن گئے اور کراچی میں روزگار کے آنے لگے۔ سندھ میں نہری نظام کے بہتر ہونے اور بیراجوں کی تعمیر کے بعد پنجاب سے کسان آکر اندرون سندھ مختلف شہروں میں آباد ہونے لگے۔
ایوب خان کے دور میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے لوگوں کو بھی سندھ میں زرعی اراضی الاٹ کی گئی دار الحکومت اسلام آباد منتقل ہوا اور ریٹائرڈ فوجیوں اور سینئر بیوروکریٹس کو سندھ کی قیمتی زرعی زمین الاٹ کی گئی، یوں غیر مقامی افراد کا تناسب بڑھنے لگا۔ پروفیشنل تعلیمی اداروں میں داخلہ اور سرکاری ملازمت کے لیے ڈومیسائل اور مستقل سکونت کا سرٹیفکیٹ وفاقی اداروں میں ملازمت کیلیے لازمی ہے۔ سرکاری ملازمتیں صوبائی، بلدیاتی اور وفاقی کسی بھی نوعیت کی ہوں کوٹہ سسٹم کے قانون کے تحت متعلقہ ضلع کا ڈومیسائل اور مستقل سکونت کا سرٹیفکیٹ ہونا لازمی ہے۔ اس دستاویز کے اہم ہونے کی بناء پر مختلف صوبوں سے ڈومیسائل بنوانے کی روایت خاصی پرانی رہی ہے۔
سندھی سماج میں گزشتہ 70 برسوں میں کئی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ زراعت کے شعبہ کے حالات خراب ہوئے۔ تعلیمی سہولتوں کے بڑھنے اور سیاسی اور سماجی شعور بیدار ہونے سے سندھ میں خواندگی کی شرح بڑھی اور متوسط طبقہ مستحکم ہوا۔ متوسط اور نچلے طبقہ کے لیے سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے کوئی اور دوسرا راستہ نہیں رہا۔
ڈاکٹروں اور انجنیئروں کی معاشرے میں اہمیت بڑھنے سے نوجوانوں کا پروفیشنل اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کا رجحان بڑھ گیا، یوں سیاسی شعور رکھنے والے افراد نے محسوس کیا کہ دیگر علاقوں سے آنے والے تعلقات، سفارش یا رشوت کی بنیاد پر ڈومیسائل اور مستقل سکونت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں اور مقامی نوجوان اپنے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اندرون سندھ، قوم پرست تنظیموں اور کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہونے والے گروہوں نے ہمیشہ جعلی ڈومیسائل کے معاملہ پر توجہ دی۔
کراچی میں 80ء کی دھائی میں متحدہ قومی موومنٹ کے عروج کی ایک وجہ ڈومیسائل کا معاملہ تھا، یوں سندھ بھر میں ڈومیسائل اور مستقل سکونت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر سختی محسوس ہونے لگی مگر کسی نے 1951کے سٹیزن شپ ایکٹ پر توجہ نہیں دی۔ اس قانون کے تحت پاکستان کا شہری کسی بھی ضلع میں ایک سال تک قیام کرے تو وہ ڈومیسائل کا قانونی حقدار ہے۔ اس طرح حکومت سندھ کے قانون کے تحت سندھ میں تین سال تک مستقل رہنے والا فرد مستقل سکونت کے سرٹیفکیٹ کا اہل ہو جاتا ہے۔ مستقل سکونت کے سرٹیفکیٹ کا قانون صرف سندھ میں لاگو ہے۔ اس قانون کی بناء پر مختلف صوبوں سے آنے والے افراد ڈومیسائل کے حقدار ہوجاتے ہیں۔
سینئر صحافی سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ اب شناختی کارڈ، پیدائش اور اموات کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی ذمے داری نادرا کی ہے۔ نادرا کے مرکزی بورڈ میں سندھ کی نمائندگی نہیں ہے اور نادرا کا بیشتر عملہ معاہداتی بنیادوں پر فرائض انجام دے رہا ہے، یوں وہ اسلام آباد سے آنے والی پالیسیوں پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما اظہار الحسن گزشتہ کئی برسوں سے کراچی اور حیدرآباد ڈویژن سے جاری ہونے والے جعلی ڈومیسائل کے خلاف آگہی کی مہم چلارہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت ہر ضلع میں گریڈ 1سے 15 تک کی ملازمتوں پر اس ضلع کے مقامی افراد کا حق ہے۔ 16گریڈ سے اوپر تک کے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے سندھ میں نافذ دیہی اور شہری کوٹہ کا قانون ہے مگر سندھ کی حکومت اس قانون کو نظرانداز کیے ہوئے ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ یا تو کراچی کے اضلاع کے بجائے دیگر اضلاع کے افراد کویہاں گریڈ 1 سے 15 تک کی ملازمتوں پر تقرر کیا جاتا ہے یا جعلی ڈومیسائل کی بناء پر یہ آسامیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
بنیادی طور پر جعلی ڈومیسائل کے مسئلہ کے حل کے لیے قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ معروف سوشل سائنٹنٹ ڈاکٹر ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ انتظامی فیصلوںکی نگرانی کے لیے ہر ضلع میں منتخب نمائندوں کی کمیٹی قائم ہونی چاہیے جو ڈومیسائل اور پی آر سی کے اجراء کے عمل کی نگرانی کرے۔
حکومت سندھ کی اب یہ ذمے داری ہے کہ 1951کے شہریت کے قانون میں تبدیلی کے لیے شہری علاقوں کے نمائندوں کو بھی اعتماد میں لے تاکہ ایسا متفقہ قانون منظور ہو کہ وہ لوگ جن کا سب کچھ سندھ میں ہے مطمئن ہوسکیں۔ محض سوشل میڈیا پر نفرت آمیز بیانیہ بیان کرنے سے طالع آزما قوتوں کو انتشار پھیلانے کا موقع ملتا ہے۔
مارکسٹ اسکالر حمزہ علوی کا کہنا تھا کہ سندھ میں صنعتی اور سماجی تبدیلی کی ضرور ت ہے۔ حکومت کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی ہو، نوجوانوں کو آسانی سے روزگار مل جائے اور سرکاری ملازمتوں کی کشش کم ہو اور اس سے فرد مطمئن ہوگا۔