اولاد والو پھولو پھلو

اور وہ بات جو اس گاوں یا گلوبل ویلج میں اڑی ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 11, 2020
[email protected]

بظاہر یہ دعالگتی ہے لیکن ''فلمی''ہے اور دوسری فلمی باتوں کی طرح دعامیں ''بددعا''پوشیدہ ہے، اس لیے ہم آپ کو ''دعا'' میں ''بددعا''نہیں دینا چاہتے کیونکہ آپ کو پہلے ہی سے اتنے لیڈر لاحق ہیں کہ کسی اور''بد دعا'' کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بددعائیں آپ خود کو دیتے رہتے ہیں، اس لیے کوئی خود کو بددعائیں دے رہاہو تو کسی اور کی بددعا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔جسے آپ دعا سمجھ رہے ہیں یعنی ''اولاد'' اور''پھولوپھلو''اس سے بڑی بددعا اور کیا ہوسکتی ہے، یقین نہ ہو تو کسی بھی قریبی''اولاد والے'' یا پھولے پھلے سے پتہ کرسکتے ہیں۔

''اولاد'' کو تو ایک نہایت ہی باوثوق اور قابل اعتبار ذریعے نے بھی ''مالکم واولد کم فتنہ''کہاہے رہا''پھلنا پھولنا اور پھیلنا'' توظاہر ہے کہ ان سب کا انجام ''پھٹنے''پر ہوتاہے، مطلب یہ ہے پھلتے پھولتے اور پھیلنے کا آخرکار وہی انجام ہوگا جوکسی ''غبارے'' کا ہوتا ہے یا جیسا آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کے فخر، دعوے علم وسائنس اور ترقی کے غبارے کا ہوگیاہے کہ ایک سوئی سے بھی باریک چیز نے اس کی ساری ہوا نکال کررکھ دی ہے اور اسے ''غبارے''کی طرح ایک ربڑ کا چتھڑا کرکے رکھ دیاہے اور وہ سب کچھ بھول کرمنہ چھپائے ہوئے پھررہاہے۔

کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے گاوں میں

کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاوں میں

اور وہ بات جو اس گاوں یا گلوبل ویلج میں اڑی ہے، سوئی کی نوک سے کئی گنا چھوٹی ہے، مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ہم آپ کو اولاد یا پھلنے پھولنے یا پھیلنے کی دعا نہیں دیں گے اور اگر دیں گے تو اس میں ''ترمیم''کرکے دیں گے جیسا کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے سے کہاتھا۔اس کے بیٹے نے ڈرائیورنگ سیکھ لی تو باپ سے بولا،ڈیڈ اب تو بس میں نے ڈرائیونگ سیکھ لی ہے، اس لیے میں گاڑی چلاوں گا، آپ دعا دیں۔ باپ نے کہا، بیٹا دعا تو میں دوں گا لیکن یاد رکھو کہ میری دعا صرف پچاس کیلومیٹر تک ہی کام کرے گی، اس سے زیادہ اسپیڈ پر گاڑی چلاوگے تو میری دعا کے رینج سے باہر ہوجاوگے۔

چنانچہ ہم بھی آپ کویہ ترمیم شدہ دعا دے سکتے ہیں کہ اولاد اور پھلنا پھولنا حد سے زیادہ آگے نہ بڑھے کیونکہ آگے سرخ نشان لگا ہوا ہے جو نظر بھی نہیں آتا۔لیکن ہے بہت ڈینجرس، ویسے بھی زیادہ پھولنے اورپھیلنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ انسان کی ترقی کا ''غبارہ''بھی بہت زیادہ پھول گیاتھا لیکن ایک چھوٹے سے کانٹے کی ''نوک'' کیا چھبی کہ چتھڑا ہوکر رہ گیا۔وہ ناک جو اونچی ہوکر خطرناک بن گئی تھی، اب اتنی شرمناک ہوگئی کہ کسی کو دکھانے کی قابل نہیں رہی ہے۔ ایک بہت ہی مشہور کہانی ہے جو تقریباً ہر قوم اور زبان کی لوک اور فوک کہانیوں میں شامل ہے۔

کہانی تو بہت لمبی ہے ،کم ازکم سترسال لمبی ہوگی، اس میں ''چار'' عیار بھائی لوگوں کے ساتھ نوسربازیاں کرکے لوٹتے ہیں۔ آخرکار ان کا واسطہ ایک بظاہر سادہ نظرآنے والے مہانوسرباز سے پڑجاتاہے۔ یہ چار بھائی ہربار اس شخص کے پیچھے برے برے ارادے لے کرجاتے ہیں لیکن وہ پہلے ہی سے تیار ہوتاہے چنانچہ ان کے ہاتھ کبھی''نیولا''بیچتا ہے ،کبھی لاٹھی اور کبھی کچھ اور۔ آخری بار جب یہ چاروں بھائی اس کی تلاش میں جاتے ہیں تو اس کی بیوی بتاتی ہے کہ وہ فلاں مقبرے میں، فلاں قبر کے اندر چھپاہوا ہے۔ یہ چاروں اس قبر پرپہنچتے ہیں۔

قبر میں ایک اتنا سوراخ ہے جس میں صرف انسان اپنا سرداخل کرکے جھانک سکتا۔چاروں بھائی باری باری اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اندر وہ مہا عیار نہایت تیز استرا لیے تیار بیٹھا ہے جیسے ہی ایک بھائی جھانکتا ہے، وہ اس کا ناک کاٹ ڈالتا ہے، وہ بچارا اپنی کٹی ہوئی ناک پلو سے چھپاکر ایک طرف اُف اُف کرکے بھاگ اٹھتا تو دوسرا جھانکتا ہے اور اپنی ناک قبر میں چھوڑ کر بھاگ اٹھتاہے۔

یوں چاروں باری باری اپنی ناک کٹوادیتے ہیں اور تو بہ تائب ہوجاتے ہیں کہ بس اور نہیں۔اگراس کم بخت کے ساتھ کچھ اور چھیڑنے کی کوشش کی توکہیں ناک کی طرح ''سر'' سے محروم نہ ہوجائیں، ناک چھپانا بہتر ہے سرکٹوانے سے۔پشتو میں اس کہانی کو ''نکٹوں''کی کہانی کہتے ہیں اور ہر اس موقع پر اس کا حوالہ دیا جاتاہے جب کچھ لوگ بے خبری میں مار کھا جاتے ہیں یاناک کٹوادیتے ہیں۔یہ کتنے افسوس کامقام ہے کہ انسان جس چیز کو اونچا کرنے اور دوسروں کو دکھانے کے لیے ساری عمرمحنت کرتا ہے، اسی کو چھپانے پرمجبور ہوجائے۔اور یہ سب زیادہ پھلنے اور پھولنے کا نتیجہ ہے۔چاہے وہ ناک ہو یا غبارہ ہو۔

کان تو دو دن بہارجانفزا دکھاگئے

حسرت ان ناکوں پہ ہے جو بن کٹے ''مورچا''گئے

یعنی ''مورچہ نشین''ہوگئیں۔اس لیے وے انسانوں زیادہ مت پھولو پھلو اور پھیلو کہ تمہاری کل بساط تو یہ دو سانسیں اور دو نتھنے ہیں۔اگر ان سے بھی محروم ہوگئے تو سانس کیسے لوگے۔

بیریوں کے بیر مت توڑو

سجن کانٹا لگ جائے گا

بات صرف مرنے مرانے کی نہیں مرنا مرانا تو انسان کے ساتھ مستقل لگاہوا ہے، اس سے رستگاری ممکن ہی نہیں ہے لیکن ناک چھپاکے مرنا کچھ اچھا مرنا نہیں ہے۔

تو چھپا چھپاکے نہ رکھ اسے تیری ناک وہ ناک ہے

کہ دو انگلیوں سے پکڑو تو کچھ بھی نہیں ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں