رنگ میں بھنگ…
گھر کے نلکوں کی طرح واٹر بورڈ اور کے ای ایس سی کے جھگڑوں میں کراچی والے تو دوبوند پانی کو ترس رہے ہیں
آج کل ہر طرف قیمے کی بہار ہے کبھی دال قیمہ تو کبھی بڑا اور چھوٹا قیمہ۔ ہمارے ایک بزرگ تو بڑا اور چھوٹا قیمہ کے فرق میں اکثر دھوکہ کھا گئے اور بڑا قیمہ کھانے کے چکر میں وزیراعظم کی بات کو نہ سمجھے اور بڑا قیمہ یعنی بڑا فنڈ نہیں حاصل کرسکے ۔
مگر جناب اب پچھتاتے کیا ہوت۔ دوکروڑ پر ہی اکتفا کریں اور امید بہار رکھیں کہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ قیمے سے اتنی دوری ہوگئی ہے کہ اب تو قیمے کے نام سے منہ میں پانی بھی نہیں آتا۔ وہ بھی خشک ہوگیا ہے۔گھر کے نلکوں کی طرح سے واٹر بورڈ اور کے ای ایس سی کے جھگڑوں میں کراچی والے تو دوبوند پانی کو ترس رہے ہیں اور یہ لوگ ہیں کہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے واٹر بورڈ اور KESCوالوں نے تو شاید ملی بھگت کرلی ہے کہ تم کروکچھ نہ میں۔اب کرے اوپر والا ہی اور جو لوگ ان اداروں کو چلارہے ہیں ان کو تو سمجھو آنکھوں کا پانی ہی مرگیا ہے اور کہیں پانی ہی پانی ہے۔ مگر روکنے والا کوئی نہیں، لانڈھی کورنگی کو پانی دینے والی پائپ لائن جو قیوم آباد سے کراسنگ کے راستے چلی جارہی ہے کافی دن سے درمیان میں یا تو ٹوٹ گئی ہے یا پھر توڑدی گئی ہے کیوںکہ آفس آتے جاتے لوگوں کو لمبی قطار لگائے پانی بھرتے اور رکشوں کو دھلتا دیکھتے ہوئے سوچتی ہوں کہ جب ہم روز دیکھتے ہیں تو کیا ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل ہوگا مگر کیا کریں جب آنکھوں کا پانی مرگیا ہو تو یہ ضایع ہوتا پانی کس کو نظر آئے گا؟ اور بھی غم ہیں زمانے میں اس پانی کے سوا ۔ہاں البتہ اگر ''مال پانی'' بنانے والے ان فضول کاموں میں لگ جائیں تو پھر ہوچکا! کوئی کام آخر کروڑوں اربوں خرچ کرکے عوام کے ٹھیکیدار اس لیے تھوڑی بنے ہیں بلکہ لگائی ہوئی رقم دوگنا کرنے کے اصول پر کام کرنے آئے ہیں۔
ہمارا تو عاجزانہ مشورہ ہے جناب آپ لوگ لگے رہیں اپنے کاموں میں، عوام کو تو عادت ہوگئی ہے شکوے شکایتیں کرنے کی۔ کبھی بجلی کی شکایت تو کبھی پانی کا شکوہ اور کچھ نہیں ملا تو ڈرون پر دھرنے۔ دہشت گردی کا واویلا۔ پاگل یہ نہیں سمجھتے کہ یہ فضول واویلے کرکے کونسا ثواب مل رہا ہے، ان مقتدرہ لوگوں کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک بار پھر اپنے ہمہ وقت مائل بہ احتجاج عوام کو ہمارا مشفقانہ مشورہ ہے کہ یہ دکھڑے رونے کی بجائے
خدا کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
عزیز ہم وطنو شکر ادا کرو کہ پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت (صدقے جائوں اس موجودہ حکومت کے) کہ انھوں نے مختلف جھمیلوں سے بچا رکھا ہے، ہر وقت گھر میں شور مچا رہتا تھا کہ کیا پکائیں ۔ اب تو ہر چیز انسان کی پہنچ سے دور بہت دور چلی گئی ہے، یہ مسئلہ بھی حل ہوا نہ کوئی چیز ملے گی نہ پکے گی اور جب پیٹ بھر کھانا نہیں ملے گا تو ہری ہری بھی نہیں سوجھے گی۔ نہ دھیان دوسری بڑی باتوں پر جائے گا کہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں میرا تو کبھی کبھی دل کرتاہے کہ تمام صاحبان اختیار کی آرتی اتاروں کہ کیا کام کیا ہے۔
وہ کام کیا ہے کبھی رستم سے نہ ہوگا۔
لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کرکے نوجوانوں کو بری راہ سے روکا ہے پہلے بجلی ہوتی تھی تو ٹی وی دیکھتے تھے بھارتی فلمیں دیکھتے،کیبل سے مختلف انڈین اور چینلز دیکھتے، موبائل فون پر رات رات بھر فضول باتیں کرتے۔ اب لاکھ دعائیں دو اس لوڈ شیڈنگ کو ، جو کام والدین نہ کرسکے اساتذہ عاجز آگئے تھے وہ اس نے کر دکھایا۔ نہ بجلی ہے نہ فون چارج ہیں۔ نہ رات بھر کی باتیں ہوںگی، رات جلدی سونا صبح اٹھنا کتنی پیاری سوچ ہے بجلی بند کرنے میں مگر کچھ عاقبت نا اندیش لوگ ہیں کہ بجائے اس کے داد کے ڈونگڑے برسائیں الٹا چیخ و پکار مچارہے ہیں جلائو گھیرائو کررہے ہیں۔ یہ پاکستانی قوم ہے بھی نرالی ، اچھے کو اچھا کہنا ہی نہ آیا بس آبادی بڑھتی جارہی ہے، فیملی پلاننگ کا محکمہ کیا خاک کام کرتا، لوگوں نے فتوے دے دے کر لوگوں کو اتنا متاثر کردیاہے کہ بہبود آبادی کا بورڈ دیکھ کر ہی لوگ راستہ بدل لیتے ہیں۔ پولیو کی ٹیموں پر حملے بھی اس لیے ہوئے کہ ایسا نہ ہو مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ بن رہا ہو اس لیے آخر دہشت گردی کی فضا کو ہموار کیا، ٹارگٹ کلرز نے کچھ کام اور آسان کردیا کچھ خودکش حملہ آوروں کا اﷲ بھلا کرے کہ جب بھی مرے سیکڑوں کو لے کر مرے کہیں ڈرون نے کام ہلکا کیا اس طرح سے آبادی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے ورنہ آبادی و سائل سے بڑھتی ہی جارہی تھی۔
بات نکلی تھی قیمے سے اور یہاں تک جا پہنچی ایسا نہ ہو کوئی ہمارا ہی قیمہ قیمہ نہ کردے کیوں کہ اتنی اچھی باتیں سن کر قارئین اور عوام نے تو ہمیں چھوڑنا نہیں ہے مگر کچھ کچھ امید ہے ہمیں چھوٹے بڑے بھائیوں سے کہ ہم نے ان سطروں میں ان کے وکیل صفائی کا کردار بڑی مہارت سے ادا کیا ہے ۔ شاید کروڑ دو کروڑ کے حق دار ہم بھی ٹھہریں ورنہ مستحق تو ہم اس سے بھی زیادہ کے ہیں کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنوں کو آئینہ دکھایا ہے ۔ آس پاس کسی وزارت، سفارت کے حق دار ہم بھی ٹھہرتے مگر ہیرے کی قدر جوہری پہچانتاہے۔ امید ہے آج کے بعد ہم بھی ان لوگوں کی صفوں میں شامل ہوجائیںگے جو حکومت وقت کے منظور نظر ہیں۔
ایک سیاستدان پر بھی ہمیں بڑا غصہ آتا ہے ہروقت مرچیں چبا کر بیٹھے ہوتے ہیں، کاش کسی اینکر پرسن کی نظر بھولے بھٹکے ہم پر بھی پڑ جائے اور ہمیں بلالیں کسی پروگرام میں تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ، پھر ہم بتائیں کہ یہ حکومت تو ہمارے لیے اﷲ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اﷲ سادگی کو پسند فرماتاہے یہ مواقعے بھی ہمیں موجودہ حکومت نے ہی فراہم کیے ہیں نہ تن پر کپڑا ہوگا اب نہ پیٹ بھر کھانا تو بندہ اﷲ سے ہی لو لگائے گا ورنہ تو لوگ عیش و عشرت میں پڑ کر اﷲ کو بھول ہی گئے تھے۔ ارے سنیے جناب ! یہ سارے اقدامات اسی لیے تو کیے گئے ہیں کہ ہم اﷲ کو یاد کریں نہ کہ پچھلوں کو کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ مشرف کے دور میں آٹا 16 اور چینی 25روپے کلو تھی تو کوئی دل جلا زرداری اور گیلانی کو یاد کررہاہے کہ ان سے بہر حال ''وہ'' ہی اچھے تھے یہ عوام ہی ناقدر نکلے ۔ کتنا ہی اچھا کرلو احسان مانتے ہی نہیں۔ اب بتائو بھلا کہ اتنے فائدے کوئی حکومت دے سکتی ہے نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری (کہ دونوں بہت مہنگی ہیں) رنگ چوکھا ہی چوکھا مگر برا ہو ان لوگوں کا جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے سیاپے ڈال رہے ہیں، خان بھائی نے بھی خیبر پختونخوا کو کرکٹ کا میدان سمجھ رکھا ہے، بائونسر پر بائونسر ماررہے ہیں مگر آئوٹ کوئی نہیں ہورہا اور ہو تو کیسے آئوٹ آف پریکٹس جو ہیں۔ لیکن ہمیں کیا، ہمیں تو صرف یہ فکر ہے کہ کوئی کام ایسا نہ ہوجائے جو عوام کی بھلائی کا نہ ہو۔ اس لیے ہمارا مفت مشورہ ہے کہ موجودہ حکومتی ٹیم کو نہ بدلیں یہ ٹیم بڑی عوام بھلائی (عوام اسے عوام دشمنی کہتے ہیں) کے منصوبے بنارہی ہے جس سے حکومت کا بول بالا (وزیروں کی نظر میں)ہوگا۔