’’مجبور بجٹ‘‘ کی ’’ زیادتیاں‘‘ اور بھارت کی شیطانیاں
سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریوں میں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے ۔
الحمد للہ، پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کی اتحادی حکومت اپنا دوسرا وفاقی بجٹ بھی پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ پچھلے سال جب خانصاحب کی حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کیا تھا تو قومی سطح پر بڑی لے دے ہُوئی تھی ۔ اُن کے سیاسی مخالفین اور حریفوں نے کہا تھا کہ ایک بجٹ کی شکل میں تین بجٹ پیش کرکے پوری قوم کا کچومر نکال دیا گیا ہے۔
اپوزیشن کی اس ساری تنقید اور تنقیص کے جواب میں پی ٹی آئی حکومت کا بس ایک ہی''دندان شکن'' جواب تھا:گزشتہ نون لیگی اور پی پی پی کی حکومتوں نے ملک میں ''کرپشن'' کا بازار گرم کر کے قومی خزانہ اس بُری طرح خالی کیا کہ اب قوم کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔ اور اِس بار جب اِسی پی ٹی آئی کی حکومت نے 12جون2020 کو 34کھرب 37ارب روپے خسارے پر مشتمل 71کھرب 37ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے تو بھی قوم کی جھولی میں کچھ نہیں ڈالا گیا ۔
اِس بار کچھ نہ دینے کے لیے سرکار کے پاس کورونا کا بہانہ ہے ۔ بجٹ سے پہلے حکومت کے ذمے داران نے اعلان کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوںمیں کم از کم دس بارہ فیصد اضافہ کیا جائے گا اور یہ کہ اس اضافے سے پنشنرز کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
اس وعدے کو حسبِ معمول وفا نہیں کیا گیا ہے۔ ہماری سرکار نے طاقتور عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف،کے مطالبات مان لیے ہیں جس نے کہا تھا: خبردار نہ تو سرکاری تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور نہ ہی پنشنروں کو ریلیف دیا جائے ۔ قرض کی اساس پر چلنے والی حکومتیں آئی ایم ایف کے حکم کی سرتابی کیسے کر سکتی ہیں؟ چنانچہ ہماری محبوب حکومت نے بھی آئی ایم ایف کو خوش کیا ہے ، اپنے عوام کو نہیں۔ سو ، اس بجٹ کو مجبورِ محض بجٹ کہا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے وزرائے کرام کا مگر ارشاد ہے کہ تازہ بجٹ ''عوامی امنگوں'' کا آئینہ دار ہے ۔ آمنا و صدقنا۔ ہمارے وزیر اطلاعات جناب شبلی فراز کہتے ہیں: '' عمران خان نے عوامی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ پیش کیا ہے ۔'' یہ مگر نہیں بتایا گیا کہ یہ ''عوامی ہمدردی''کیا ہوتی ہے؟ شبلی صاحب کے باس، وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ کے موقعے پر فخریہ ارشاد فرمایا ہے :''وزیر اعظم آفس کے اخراجات میں 21فیصد ریکارڈ کمی کی ہے ۔'' مگر یہ مبینہ'' ریکارڈکمی'' بے روزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام کی ٹوٹی کمر جوڑنے میں ناکام رہی ہے ۔ وزیر اعظم صاحب کے فخریہ اعلان پر اُن کے ایک پی ایچ ڈی مشیر نے مزیدار گرہ لگائی ہے ۔
شہباز گل صاحب کا بیان میڈیا کی زینت یوں بنا ہے :''وزیر اعظم نے بھوکا رہ کر اخراجات میں کمی کی ہے ۔''مسرت کی بات ہے کہ اس ملک کے وزیر اعظم صاحب بھی بھوکی قوم کے ساتھ قومی یکجہتی میں بھوک برداشت کررہے ہیں ۔ جس طرح وفاقی حکومت نے اس بجٹ میں عوام کا ''خیال '' رکھا ہے ، اسی طرح پنجاب کے محبوب وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار نے بھی اعلان کیا ہے کہ '' ہم بھی اپنے صوبائی بجٹ میں ہر طبقے کا خیال رکھیں گے ۔''اس اعلا ن سے ہم تو ڈر سے گئے ہیں۔ ایسے مسرت انگیز ماحول میں بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید قابلِ ذکر نہیں ہے کہ کوئی بھی اپوزیشن کسی بھی حکومت کے پیش کردہ بجٹ سے کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہوتی ۔مثال کے طور پر امیر جماعتِ اسلامی قبلہ سراج الحق کا یہ تنقیدی ارشاد:''بجٹ بیکار مشق تھی ۔
حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا۔'' کیا سراج صاحب کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے کانوں میں تو مرکزی اور صوبہ پنجاب کے وزرا کے بجٹ کے حوالے سے دیے گئے جملہ بیانات رَس گھول رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ایسے بیانات :''یہ بجٹ عوام دوست ہے'' اور یہ کہ '' بجٹ کے حوالے سے عمران خان کی معاشی ٹیم نے نہایت درست حکمتِ عملی اختیار کی '' اور یہ کہ '' اپوزیشن اگر بجٹ کا غیر سیاسی جائزہ لے تو اُسے عوام کو دی گئی بے پناہ اور لاتعداد سہولیات بھی نظر آ جائیں گی۔''
اگر اس تازہ ترین بجٹ کے عفریت کے سامنے ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں تو واقعتاً اس میں عوام کے لیے ''بے پناہ '' اور ''لاتعداد'' سہولیات نظر آ جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ بجٹ اور اس کے اعدادو شمار ایک گورکھ دھندہ ہے ۔ اس کی تفہیم کے لیے خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہے ۔
جوں جوں ہمارے سرکاری اہلِ دانش اس بجٹ کی تشریح و تفسیر کریں گے ، انشاء اللہ اس کی دلکش اور من موہنی پرتیں ہم عوام کالانعام پر کھُلتی چلی جائیں گی۔ عوام تو اس بات کے بھی منتظر تھے کہ کورونا کے اس ''موسم'' میں پرائیویٹ لیبارٹریوں میں کورونا ٹیسٹ فیس ( جس پر کم از کم 7ہزار روپے فی فرد خرچ اُٹھ رہا ہے) میں کمی کرنے کا اعلان کیا جائے گا ، بجٹ میں اس بارے کوئی خاص رقم مختص کی جائے گی ۔
ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریوں میں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے ۔ اگر پوچھ لے اور کورونا ٹیسٹ کے بعد جواب مثبت آجائے تو زبردستی پا بجولاں وہیں بٹھا لیا جاتا ہے ۔ اور اس کے بعد سرکاری اسپتالوں میں جو سلوک کیا جاتا ہے، اس کی لاتعداد داستانیں ہمارے ارد گرد گردش میں ہیں اور متاثرہ افراد کو سرکاری اسپتالوں کی طرف منہ نہ کرنے کا درس دے رہی ہیں۔
تازہ بجٹ میں قومی دفاع کے لیے 11.9فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔اس اضافے کے ساتھ اب ہمارا دفاعی بجٹ شاید 12کھرب 89ارب روپے تک چلا جائے گا۔ غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کے لیے یہ اضافہ بھی شاید نامناسب ہو لیکن پاکستان کے خلاف معاندانہ اور شیطنت بھرے عزائم رکھنے والے بھارت کی شیطانیاں اور سازشیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ پاکستانی عوام کو پیٹ پر پتھر رکھ کر بھی اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔
ملکی دفاع کے لیے ہمیشہ ہی ، ہر کوئی ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں ایسی ہی قربانیاں دی جاتی رہی ہیں ۔ بھارت تو باز ہی نہیں آرہا۔ اُس کے پاکستان دشمن عزائم اور اقدامات کو ہمیں اپنے خون کی دیوار قائم کرکے روکنا ہے ۔ جس روز بجٹ پیش ہُوا ہے ، اُس روز بھی بھارت نے ایل او سی پر بلا اشتعال پاکستان کے خلاف گولہ باری کی اور ہماری دوخواتین کو شہید کر ڈالا ۔تو کیا ایسی خونی زیادتیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے ؟ اُس نے رواں برس میں آٹھ بار اپنے ڈرونز کے ساتھ ہماری سرحدی خلاف ورزیاں کی ہیں اور آٹھوں بار بھارت کے درانداز ڈرونز ہماری جری افواج نے مار گرائے ہیں۔
بھارت ہماری سرحدوں ہی کی خلاف ورزیاں نہیں کررہا بلکہ وہ غیر ممالک میں بیٹھے بعض نام نہاد پاکستانیوں کی معرفت پاکستان کے خلاف سازشیں بھی کررہا ہے ۔ مثال کے طور پر ابھی چند دن پہلے ہی لندن میں موجود خود ساختہ ایک جلاوطن'' پاکستانی'' کی طرف سے بلوچستان اور سندھ کے خلاف قابلِ گرفت اقدام۔ انڈین میڈیا نے اپنے خفیہ آقاؤں کے اشارے پر اس اقدام کو بہت اچھالا ہے ۔ ''سی پیک'' کے خلاف بھارتی اقدامات سے ہم کیسے صَرفِ نظر کر سکتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے قدم اکھڑ رہے ہیں ۔
چین نے حالیہ ایام میں اُس کی پٹائی کی ہے ؛چنانچہ ملٹری اور ڈپلومیٹک میدانوں میں ان ہزیمتوں اور ندامتوں سے بھارتی عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے خلاف یہ گھناؤنے کھیل کھیل رہی ہے ۔ مضبوط دفاعی بجٹ کے ساتھ ہی ہم ان بھارتی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں!!