عوام دوست نہیں حجام دوست بجٹ
کیا وزیر اعظم 300 کنال کے حساب سے جتنا ٹیکس بنتا ہے (اپنی جیب سے) ادا کیا کریں گے؟
ISLAMABAD:
دنیا بھر میں وزیرِ خزانہ پارلیمنٹ کے سامنے بجٹ پیش کرتا ہے مگر ہمارے ہاں وزیرِ صنعت وہ بجٹ پڑھتا ہے جو کسی اور وزارت نے تیار کیا ہوتا ہے۔ بجٹ کے بعد بے شمار ریٹائرڈ سول سرونٹس سے بات ہوئی، الفاظ مختلف تھے مگر سب کا ردِّعمل یکساں تھا کہ ''تبدیلی والوں کی جان کو رو رہے ہیں'' زراعت سے وابستہ کچھ دوستوں کے فون آئے خاصے پریشان تھے۔ میں نے پوچھا اس بجٹ سے کوئی طبقہ خوش بھی ہے؟ کہنے لگے ''ہاں نائی خوش ہیں۔'' میں نے پوچھا، آپ کا مطلب ہے باربرز، مگر وہ کیوں خوش ہیں ؟ کہنے لگے دیہاتوں میں شادی پر دیگیں پکانا اور مرگ پر مردے نہلانا نائیوں کے ذمے ہو تا ہے۔
چونکہ نیا بجٹ، غربت اور بے تحاشا بیروزگاری کا پیغام لایا ہے اس لیے وہ خوش ہیں کہ مردے نہلانے والا کاروبار چمک اُٹھے گا۔ انھوں نے مزیدوضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حاضر سروس اورریٹائرڈ ملازمین کئی مہنیوں سے آس لگائے بیٹھے تھے کہ اس بار حکومت ہمیں اَیسا ریلیف دے گی جس سے ہماری زندگی میں بھی کچھ آسودگی آئیگی۔گمانِ غالب یہی ہے کہ اُن کی آس ٹوٹنے سے ان میں سے اکثر زندگی کی ڈور بھی زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکیں گے، لہٰذا نائی برادری کی ''مصروفیت'' بہت بڑھ جائیگی۔ اس پر میں نے کہا '' اس کا مطلب ہے کہ بجٹ عوام دوست نہ سہی حجام دوست ضرور ہے''۔
آج سے ڈھائی دھائیاں قبل جب عمران خان صاحب نے پہلی بار انتخابی سیاست میں قدم رکھا تو اپنی انتخابی تقریروں میں جن چند افراد کا نام اپنی inspiration کے طور پر لینا شروع کیا اُن میں یہ نا چیز بھی شامل تھا، راقم نے ربع صدی قبل خان صاحب سے ملکر جب انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ قوم کے غیرمتنازعہ ہیرو ہیں وہ سیاست کی دلدل میں اُتر کر متنازعہ نہ بنیں، اسوقت بھی راقم''آخری نتائج'' کے بارے میں زیادہ پُر امید نہیں تھا۔
پھر جب خان صاحب ٹی وی ٹاک شوز میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ناچیز کے اسٹینڈ کا ستائشی کلمات کے ساتھ بہت زیادہ حوالہ دینے لگے تو میرے کئی دوست پوچھتے تھے کہ'' عمران خان آپکے بارے میں اتنی اچھی رائے رکھتے ہیں توآپ کے پسندیدہ لیڈر بھی وہی ہوںگے؟'' اس پر میرا ہمیشہ ایک ہی جواب ہو تا تھاکہ ''اگر عمران خان صاحب میرے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں تو میں ان کا مشکور ہوں لیکن سیاسی لیڈر شپ کے حوالے سے میرا آئیڈیل اور معیارمحمد علی جناحؒ ہیں۔ مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ، با اصول۔ جھوٹ، منافقت، مفاد اور مصلحتوں سے بالا، جو وعدہ کیا پورا کیا، جو بات کی سوچ سمجھ کر کی، جو منہ سے نکلا اسپر پہرہ دیا اور جو کہا وہ کر کے دکھایا۔''
عمران خان صاحب کو قدرت نے جن غیر معمولی خوبیوں سے نوازا ہے ان میں ان کا جسمانی حسن، ان کی کرشمائی شخصّیت اور مضبوط ارادہ (strong will) نمایاں ہیں۔ میں اس وقت بھی ایشیاء کے دیگر ممالک کا جائزہ لیتا تھا کہ ایسے کتنے افراد ہیں جو جسمانی دلکشی کے مالک ہوں، عالمی سطح کے کھلاڑی رہے ہوں، ہر روز دو ڈھائی گھنٹے ورزش بھی کرتے ہوں اور انھوں نے کسی معاشرے کو سمت مہیا کی ہو یا کسی قوم کی تقدیر بدلی ہو، زیادہ ترکے ساتھ ایسی کہانیاں ہی جڑی ہوئی نظر آئیں جیسی خان صاحب سے منسلک رہی ہیں۔
ہمسایہ ملک کی مثال لیں تو وہاں امتیابھ بچن جیسے کرشماتی ہیرو کو عوام نے پارلیمنٹ کا ممبر تو بنا دیا مگر کبھی کسی نے اسے وزیر اعظم بنانے کی بات نہیں کی، وزارت عظمٰی وہاں عام شکل و صورت والے، عمر رسیدہ اور تجربہ کار سیاستدانوں کے حصے میں آئی، بھارت کی معیشت کو چار چاند لگائے تو ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ۔
جذباتی ہونا بری بات نہیں مگر ہماری قوم جذباتی نہیں ہیجانی کیفیت میں فیصلے کرتی ہے۔ خان صاحب نے سوشل سروس کے میدان میں بہت اچھے کارنامے سرانجام دیے تھے، مگر کوئی جہاندیدہ، با شعور اور mature قوم یہ کیسے فرض کر سکتی ہے کہ جو شخص اچھا کھلاڑی ہے جس نے قوم کی donations سے دو اچھے ادارے بنائے ہیں وہ بائیس کروڑ عوام کے مسائل حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ان سے امیدیں باندھنے والے بہت سے لوگ اب مایوس ہوئے ہیں، کچھ سال پہلے بد دل ہو گئے تھے مگر مجھے پہلے دن سے ہی زیادہ خوش فہمی نہیں تھی۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے، امور مملکت پر وزیراعظم کی گرفت کا یہ عالم ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکا ب میں، پنجاب (جسے وہ خود کنٹرول کرتے ہیں) میں اتنی بری گورننس آج تک نہیں دیکھی گئی، خود وزیر اعظم کے حکم پر بعض انتہائی بری شہرت کے حامل افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے ۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں نیچے سے اوپر تک کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پولیس اور پٹوار سے عوام تنگ ہیں اور دقیانوسی کریمنل جسٹس سسٹم سے افتادگان خاک نسلوں سے زخم خوردہ ہیں، مگر حکومت کی پٹاری میں تقریروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
کسی فرسودہ نظام کی اصلاح ترجیحات میں ہی نہیں ہے۔ کرپشن کے خلاف ان کی مہم کے اصل مقاصد کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ '' کسی سیاسی مخالف کو نہیں چھوڑونگا اور کسی بھی ڈاکو اور چور کو جو ہمارا وفادار بینکر ہماری پناہ میں آجائے اس کو نہیں چھیڑونگا بلکہ اس کی حفاظت اور سرپرستی کرونگا''۔ موجودہ حکومت کے یکطرفہ اور سیاسی انتقام سے لبریز احتساب نے احتساب کے تصور کو ہی بدنام کر دیا ہے ۔ اور ان کی معاشی کارکردگی تو اس پر کسی بھی معیشت دان سے بہتر تبصرے مختلف صوبوں اور مختلف شہروں اور دیہاتوں کے باشندے کیمروں کے سامنے آ کر کر رہے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور اسکرین پر دکھایا گیا چارٹ ایک سوالیہ نشان بینکر سامنے کھڑا ہے کہ جس وزیر اعظم کو بدنام کر کے نکالا گیا اس کے دور میں جی ڈی پی گروتھ 5.8% تھی اور قوم کی تقدیر بدلنے والے عمران خان منفی چار( - 4) کے ساتھ منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، دو سال میں پچھلی حکومتوں سے زیادہ قرضے لیے گئے، مہنگائی کے ریکارڈ قائم کیے، ڈالر 164 روپے تک پہنچ کر بھی بے لگام ہے، سود اور افراط زر کی شرح بھی پچھلوں سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
پٹرول و ڈیزل نایاب ہیں، بیس کلو آٹے کا تھیلہ دو ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ ملکی معیشت عالمی ساہو کاروں کے آگے سجدہ ریز ہے اور وزرات خزانہ پر انھوں نے اپنے کارندے تعینات کر دیے ہیں۔کوئی شہادت نہ ہونے کے باوجود جس وزیر اعظم کو بدنام کر کے نکال دیا اس کے دور میں بیروزگاری کی شرح 3% تھی، اب 11% ہے ۔ اس کی 5.8% جی ڈی پی گروتھ کا تبدیلی والے خواب بھی نہیں دیکھتے، خواب اور ٹارگٹ کیا ہے ! پچھلی حکومت کا تیسرا حِصّہ یعنی 2%اکانومی کے ساتھ Nosedive کا لفظ سنا ضرور تھا، اس حکومت میں زمین بوس ہوتی ہوئی معیشت کو دیکھا تو اس کی سمجھ آگئی۔ تو اس ہنستے بستے ملک کو برباد کر کے ہمیں کیا ملا؟
موجودہ حکومت کی برکت سے مہنگائی کی افزائش کرونے کی طرح ہوئی ہے جس سے ہم جیسے سفید پوش بھی متاثر ہوئے ہیں۔ رزق حلال کھانے والے سرونگ اور ریٹائرڈ ملازمین کو یہ آس تھی کہ سالانہ اضافہ ہو گا توان چند ہزار روپوں سے یوٹیلٹی بل آسانی سے ادا کر لیا کریں گے مگر عالمی مہاجنوں نے یہ آس بھی توڑ دی لہٰذااب حجام اپنے پھٹے صاف کریں۔
بجٹ میں تبصرے اور تنقید کے لائق تو بے شمار چیزیں ہیں مگر میں صرف اس شعبے کا ذکر کروںگا جس کا مجھے ادراک بھی ہے اور کسی حد تک مہارت بھی، اور وہ ہے نوجوانوں کو ھنر مند بنانے کے پروگرام کا خاتمہ، جو میرے خیال میں نوجوان دشمنی بھی ہے اور ملک دشمنی بھی ۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد پاکستان کے لیے بوجھ بن کر مہلک بھی بن سکتی ہے لیکن اگر ہم نوجوانوں کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنر فراہم کریں تو یہ ہمارے لیے سونے اور تیل سے بڑی نعمت بن سکتی ہے۔
2015 میں Skill Development کے سیکٹر میں وفاقی حکومت کا بجٹ دو ارب کے قریب تھا اور سال میں بیس ہزار نوجوانوں کو ھنر مند بنایا جاتاتھا۔ نیوٹیک کے سربراہ کے طور پر راقم نے حکومت کو قائل کیا اور2017-18 کے سال میں ایک لاکھ نوجوانوں کوہنر مند بنایا گیا،جس سے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار ملا اور لاکھوں اپنے کنبے کی کفالت کرنے لگے۔
اس سے اگلے سال ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا پروگرام طے تھا۔ بیروزگاری اور غربت کے مسائل حل کرنے کے لیے اس سے بہتر نسخہ دنیا کے تمام ماہرین اکٹھے ہو کر بھی نہیں دے سکتے ۔ 2018-19کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی صاحب اس کے لیے دس ارب کا بجٹ مختص کر نے کے لیے تیار تھے۔ مگر اب کیا ہو گا؟ نوجوانوں کے پاس سکل نہیں ہو گی تو وہ بیروزگار رہیں گے اور پھر ٹی ٹی لے کر سڑک پر آجائیں گے اور شہریوں کو لوٹیں گے ۔تو کیا ان سے ہمیں حفیظ شیخ بچائے گا یا حماد اظہر؟
بجٹ میں کہا گیا ہے کہ جو شخص چار کنال کے فارم ہاؤس میں رہیگا وہ سالانہ چار لاکھ ٹیکس دیگا ۔ کیا وزیر اعظم صاحب تین سو کنال کے حساب سے جتنا ٹیکس بنتا ہے (اپنی جیب سے) ادا کیا کریں گے؟ امید اس لیے نہیں کہ ِاسوقت ایک کنال کے گھر میں رہنے والا یہ خاکسار تین سوکنال کے گھر میں رہنے والے وزیر اعظم سے تین گنا زیادہ ٹیکس دے رہا ہے!!
وزیراعظم کے پسندیدہ مولانا طارق جمیل صاحب سامنے ٹی وی پر فرما رہے ہیں کہ کسی قوم سے اللہ کی ناراضگی کی نشانی یہ ہے کہ اس پر نااہل (incompetent) حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔