کورونا سے بھی بڑا آٹے کا بحران سراُٹھا رہا ہے
پاکستان میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے صوبے پنجاب میں ہی گندم کی فی من قیمت 2 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے
کورونا سے بھی بڑا آٹے کا بحران سراُٹھا رہا ہے ۔ فوٹو : فائل
پاکستان کیلئے اندرونی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان سے نبٹنے کی کوئی واضح اور کار آمد حکمت عملی فی الوقت دکھائی نہیں دے رہی۔کورونا وائرس جس تیزی اور شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے، اس سے حکومت خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی کیونکہ جو کچھ آ ج ہورہا ہے اسے کئی ہفتے قبل ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ سست رفتار بنایا جا سکتا تھا لیکن ہیجان خیزی کا شکار حکومت کے بوکھلاہٹ میں مبہم فیصلوں نے صورتحال کو مزید خراب بنا ڈالا ہے۔
کورونا وائرس کے معاملے میں جو بھی تباہ کن غلطیاں سرزد ہونا تھی وہ ہو چکی ہیں اور اب صورتحال حکومت کے ہاتھ سے نکل چکی ہے لیکن حکومت ایک دوسرے بڑے خطرے بلکہ کورونا سے بڑے بحران سے نگاہیں چرا رہی ہے اور یہ بحران عوام کے غذائی تحفظ سے متعلق ہے ۔ملکی تاریخ میں گندم اور آٹے کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر جا پہنچی ہیں ۔
پاکستان میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے صوبہ پنجاب میں قیمتوں کا یہ عالم ہے کہ گندم کی فی من قیمت 2 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے اور مارکیٹ ذرائع کا دعوی ہے کہ حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیئے تو آئندہ دس سے پندرہ روز کے دوران گندم کی قیمت 2200 روپے فی من سے بھی تجاوز کر سکتی ہے اور اسی تناسب سے بیس کلو آٹا تھیلا کی قیمت 1200 روپے سے بڑھ جائے گی ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک ماہ قبل تک پنجاب بھر میں بیس کلو آٹے کا تھیلا 805 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جو اس وقت ایک ہزار روپے میں بیچا جا رہا ہے فلورملز ایسوسی ایشن کی قیادت پر اب انتہائی دباو بڑھ رہا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت کے تناسب سے آٹے کی قیمت مقرر کی جائے جس کا مطلب ہے کہ آٹا تھیلا 1075 سے1100 روپے میں فروخت ہوگا۔
تمام تر دباو کے باوجود ابھی تک فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا اور دیگر قائدین سینئر وزیر عبدالعلیم خان کا بھرم ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ابھی قیمت بڑھانے کے معاملے کو طول دے رہے ہیں لیکن شاید چند روز بعد وہ مزید التواء نہیں کر پائیں گے۔گندم اور آٹے کے حوالے سے جو کچھ آج ہو رہا ہے اور جو کچھ آنے والے دنوں میں ہونے والا ہے اس کا ذمہ دار کوئی فرد واحد نہیں بلکہ اجتماعی طور پر تمام حکومت ہے جس میں سیاسی اور انتظامی دونوں فریق شامل ہیں۔گزشتہ برس آٹا بحران مکمل طور پر انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا کیونکہ گندم نہایت وافر مقدار میں موجود تھی لیکن غلط فیصلہ سازی کے سبب حکومت ایک خودساختہ بحران کا شکار ہوئی اور اپنی ساکھ بھی گنوائی ۔
آنے والے دنوں میں میڈیا اورا پوزیشن کورونا وائرس سے کہیں زیادہ شور وغوغا آٹے کی قیمتوں اور دستیابی کے حوالے سے مچا رہے ہوں گے۔ پنجاب کی آبادی11 کروڑ سے زائد ہے اور یہاں تقریباً ایک ہزار فلورملز موجود ہیں ان میں سے 700 سے زائد ملز پورا سال فعال رہتی ہیں جبکہ باقی کی ملیں کبھی فعال اور کبھی غیر فعال رہتی ہیں۔ سرکاری تخمینہ جات کے مطابق پنجاب کی آبادی کو یومیہ 6 لاکھ تھیلے آٹا درکار ہوتا ہے گو کہ سرکاری تخمینہ مکمل درست نہیں کیونکہ اب تو دیہی علاقوں میں بھی فلور مل والا آٹا بہت استعمال کیا جا رہا ہے ۔
محکمہ خوراک ہر سال اوسطاً36 لاکھ ٹن گندم فلور ملز کو فراہم کرتا ہے جبکہ گزشتہ تین برس کی بات کی جائے تو 40 لاکھ ٹن سالانہ سے زائد گندم ملوں کو فراہم کی گئی۔ پنجاب میں آٹے کی ضروریات کیلئے درکار مجموعی گندم کا 60 فیصد محکمہ خوراک کی فراہم کردہ گندم سے پورا ہوتا جبکہ بقیہ40 فیصد اوپن مارکیٹ سے لی گئی گندم سے پورا ہوتا ہے لیکن اس بار پنجاب حکومت نے ایک غلط حکمت عملی اپناتے ہوئے فلورملز کو مئی تا ستمبر تک کی ضروریات کیلئے گندم ذخائر خریدنے سے روک دیا اور صرف 3 دن کی پسائی کیلئے درکار گندم خریدنے کی ''زبانی کلامی'' اجازت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں کی تعداد میں ملوں کی خرید کردہ گندم سے بھری گاڑیوں کو اسسٹنٹ کمشنرز نے سرکاری گوداموں پر زبردستی اتارا ۔ غلہ منڈیوں کو ویران کیا گیا جس کے نتیجہ میں بڑی مقدار میں گندم ذخیرہ ہو گئی۔
محکمہ خوراک بھی اپنا 45 لاکھ ٹن کا ہدف مکمل نہیں کر سکا اور فلورملز کو بھی 18 لاکھ ٹن سٹاکس بنانے سے روک دیا گیا جس کا نتیجہ اب اوپن مارکیٹ میں گندم کی بڑھتی ہوئی قیمت کے بحران کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ غلہ منڈیوں کے آڑھتیوں سمیت ذخیرہ اندوز اس وقت حکومت کی کمزوری اور فلور مل مالکان کی ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے گندم کی منہ مانگی قیمت طلب کر رہے ہیں ۔
فلور مل مالکان کا کہنا ہے کہ ہمارے گاہک کئی سالوں سے ہمارے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں ،ان میں بڑے کمرشل گاہک بھی شامل ہیں اور چھوٹے تنورمالکان اور بیکری مالکان بھی شامل ہیں۔ مارکیٹ میں کئی کئی سالوں کی محنت سے اپنے آٹا برانڈ کو مستحکم کیا ہے اب اوپن مارکیٹ میں گندم کی بلند ترین قیمت کے باوجود ہم گندم خرید کر اپنی کاروباری ساکھ کو بچانے کیلئے نقصان برداشت کر رہے ہیں،بیوپاری ہماری مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔اس کو روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ پنجاب حکومت فوری طور پر سرکاری گندم کی فلورملز کو فراہمی شروع کرے اور ساتھ ہی گندم امپورٹ کی جائے۔ گندم ریلیز کرنا بھی پنجاب حکومت کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ اس وقت مجموعی طور پر ان کے پاس 43 لاکھ ٹن گندم ہے اور ابھی جون کا مہینہ چل رہا ہے ۔
اگر وہ محدود مقدار میں ریلیز کرتے ہیں تو صورتحال قابو میں نہیں آئے گی اور اگر زیادہ مقدار میں ریلیز کرتے ہیں تو سرکاری گوداموں میں گندم اتنی وافر نہیں ۔سینئر وزیر و وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان نے بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کیلئے بہت محنت کی ہے اور وہ مسلسل اس کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کا موقف بہت درست ہے کہ اوپن مارکیٹ کے گندم تاجر عوام اور فلورملز کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، ناجائز منافع خوری کی جارہی ہے ۔پنجاب میں وافر مقدار میں گندم کی موجودگی کے باوجود قیمتوں کا اس طرح بڑھنا معاشی بلیک میلنگ ہے۔
اعلی سطحی اجلاس بھی اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں تین یا چار تجاویز پر غور ہوگاجس میں پاسکو سے دو یا تین لاکھ ٹن گندم لینے اور اسے فلورملز کو جاری کرنے کی تجویز شامل ہے، ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت ہنگامی طور پر گندم امپورٹ کرے اور جتنی گندم امپورٹ کرنے کی اجازت ملی اتنی گندم فلورملز کو ٹارگٹ ریلیز کے ذریعے فراہم کر کے قیمتوں کو کم سطح پر لائے۔تیسری تجویز محکمہ صنعت کی تیار کردہ ہے جس میں فلورملز کو کیش سبسڈی دینے کی تجویز ہے ۔
مرکزی چیئرمین پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن عاصم رضا کے مطابق پنجاب کی فلورملز کے پاس اس وقت یومیہ پسائی کیلئے بھی وافر گندم موجود نہیں ہے اور اسی بات کا ناجائز فائدہ اوپن مارکیٹ کے ٹریڈرز اٹھا رہے ہیں اور قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ہم حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ قیمتوں میں کمی کیلئے محکمہ خوراک کے ذریعے سرکاری گندم کی فروخت شروع کی جائے۔ کورونا یا مہنگائی نے تو عوام کو سڑکوں پر نہیں نکالا لیکن اگر آٹا غریب کی پہنچ سے دور ہو گیا تو پھر بھوک اتنی ظالم چیز ہے کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر لے آئے گی۔ وزیر اعظم اس جانب بھی توجہ دیں کہ ان کی ہدایت پر پنجاب نے تو خیبر پختونخواہ اور سندھ کیلئے گندم آٹے کی نقل و حمل کھول دی اور اس وجہ سے مشکلات کا سامنا بھی کر رہا ہے لیکن سندھ حکومت نے پابندی کو مزید سخت کردیا ہے ۔