امام مسجد جس نے سفید فام آمریت سے ٹکرلی

ایک عالم دین کی ایمان افروز داستان جنھوں نے معاشرے میں نظام عدل وانصاف نافذ کرنے کے لیے اپنی جان دے دی


ایک عالم دین کی ایمان افروز داستان جنھوں نے معاشرے میں نظام عدل وانصاف نافذ کرنے کے لیے اپنی جان دے دی ۔ فوٹو : فائل

''آمر دنیا سے رخصت ہو تو اس کی حکمرانی ختم ہوجاتی ہے ۔اور جب ایک شہید دنیا سے جاتا ہے تو اس کی حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے۔''( ولندیزی فلسفی، سوزین کرکے گارڈ)

٭٭

امریکا میں سیاہ فاموں کے قتل یہ سچائی سامنے لے آئے کہ تمام تر ترقی کے باوجود دنیا میں رنگ، نسل، زبان، امارت وغیرہ کی بنا پر نفرت و دشمنی کے منفی جذبات ختم نہیں ہو سکے۔ یہ منفی جذبے مٹانے کے لیے ہی پیغمبر و رسول آئے اور راہ راست پر گامزن عام انسانوں نے بھی نفرت کے ہرکاروں سے مقابلہ کیا۔ انہی دلیر افراد میں امام عبداللہ ہارون کا شمار ہوتا ہے جن کی داستان حیات ولولہ انگیز اور سبق آموز ہے۔عبداللہ ہارون 8 فروری 1924ء کو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں پیدا ہوئے۔

اس مملکت پر سولہویں صدی سے یورپی استعمار نے قبضہ کرلیا تھا۔ پرتگالی، ولندیزی اور برطانوی یہاں آبسے۔ انہوں نے کھیت بنائے اور کارخانے بھی۔ چونکہ مقامی سیاہ فام قبائل ان حملہ آوروں سے برسرپیکار رہتے تھے، اس لیے یورپی استعمار جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے لاکھوں مزدور جنوبی افریقہ لے آیا اور وہ کھیتوں، کارخانوں اور دیگر پیشوں میں کام کرنے لگے۔ ان میں سے اکثر غلام کا درجہ رکھتے تھے۔ہندوستان کے برہمنوں کی طرح یورپی طاقتوں نے جنوبی افریقہ میں ذات پات کا نظام قائم کردیا۔ اس نظام میں سب سے اوپر وہ خود براجمان تھے۔

انہیں ہر لحاظ سے آسائشیں اور سہولتیں میسر تھیں۔ وہ عالیشان گھروں میں رہتے اور اچھا کھاتے پیتے تھے۔ دوسرے درجے پر وہ مقامی سیاہ فام لیڈر فائز تھے جنہوں نے ارض وطن سے غداری کی اور یورپی استعمار کے مددگار بن بیٹھے۔ یورپی حکمرانوں نے انہیں بھی کچھ سہولتیں دے رکھی تھیں اور وہ شاہانہ زندگی گزارتے۔ ذات پات والے اس نظام میں سب سے نیچے عام سیاہ فام اور گندمی نسل کے لوگ تھے۔ انہیں بس غذا، پانی اور رہائش دستیاب تھی تاکہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ ورنہ انہیں نہ عمدہ غذا حاصل تھی اور نہ ہی اچھی تعلیم، اچھا علاج اوردیگر سہولیات میسر تھیں۔ زندگی لشٹم پشٹم بسر ہوجاتی۔

نا انصافی کا چلن

یورپی غاصب جنوبی افریقا کی آبادی میں صرف 20 فیصد تھے مگر انہوں نے مملکت کی 90 فیصد زمین پر قبضہ کررکھا تھا۔ یہی نہیں، انہوں نے سیاہ فاموں اور گندمیوں کے لیے علیحدہ رہائشی بستیاں بنائیں، اسکول اور ہسپتال بھی۔ غرض سفید فام غاصبوں نے ہر ممکن سعی کی کہ خود کو سیاہ فام اکثریت سے علیحدہ و ممتاز رکھ سکیں۔

اسی سلسلے میں کئی قوانین بنائے گئے تاکہ ظلم و جبر کا شکار سیاہ فاموں میں سے کوئی احتجاج کرے تو اسے مثالی سزا دی جاسکے۔ ان آمرانہ قوانین کے ذریعے سفید فاموں نے سیاہ فاموں اور گندمیوں پر ایسا جابرانہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام تھوپ دیا جسے ''اپارتھیڈ'' کا نام ملا۔ یہ مقامی افریقن زبان کا لفظ ہے اور معنی ہیں: ''علیحدہ کرنے کا عمل۔''

جب عبداللہ ہارون پیدا ہوئے تو جنوبی افریقہ میں ظالمانہ اپارتھیڈ جاری تھا۔ ایک طرف سفید فام تھے جو پُر آسائش اور آرام دہ زندگی گزارتے۔ دوسری سمت سیاہ فام اور گندمی افراد جو سارا دن فارموں، کانوں اور کارخانوں میں کام کرکے بس اتنا کما پاتے کہ روزمرہ اخراجات پورے ہوجائیں۔ عبداللہ ہارون کا تعلق بھی اسی طبقے سے تھا۔اٹھارویں صدی میں ان کے اجداد کو بہ حیثیت غلام انڈونیشیا سے لایا گیا ۔

اواخر انیسویں صدی میں عبداللہ کے دادا نے اپنی قیمت دے کر محدود آزادی حاصل کرلی۔ اب وہ آزادانہ کوئی بھی کام کرسکتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے پرچون کی دکان کھول لی۔ یوں ظالم سفید فاموں کے کارخانوں میں کام کرنے کی اذیت سے جان چھوٹی۔ وہ گدھوں کی طرح کام لیتے تھے اور معمولی معاوضہ ادا کرتے۔

ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے لاکھوں مزدوروں میں بیشتر مسلمان تھے۔ عام طور پر مسلمان کہیں بھی آباد ہو، وہ اپنا اسلامی تشخص اور انفرادیت ضرور برقرار رکھتا ہے۔ انہوں نے بھی غیر دیس میں اسلامی تعلیمات سے ناتا جوڑے رکھا اور خصوصاً گھر میں مذہبی رواج پر عمل پیرا رہے۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کا اپنا علیحدہ گروہ تشکیل پاگیا۔ اس گروہ کے دو ذیلی حصے تھے: ایک ملائی مسلمان اور دوسرے ہندوستانی مسلمان۔ ان کی تعداد مملکت کی کل آبادی کا ڈیڑھ فیصد تھی۔

عبداللہ ہارون پانچ سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تب لاولد ایک پھوپھو نے انہیں گود لے لیا۔ وہ خاتون مذہبی تھیں۔ انہوں نے بھتیجے کو مدرسے بھجوا کر اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ یوں لڑکپن ہی میں عبداللہ جان گئے کہ دین اسلام کی رو سے سبھی انسان برابر ہیں چاہے کوئی کالا ہو یا گورا۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ ہر مسلمان کو معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی خاطر جدوجہد کرنا چاہیے اور یہ کہ جابر حکمران کے سامنے سچ کا اظہار ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔

مدرسے کے علاوہ عبداللہ نے پرائمری تک سکول میں بھی تعلیم پائی۔ یوں وہ کسی حد تک جدید تعلیم سے بھی آگاہ ہوئے۔ پھوپھو نے پھر اپنے خرچ پر انہیں مکہ معظمہ بھجوایا تاکہ وہ اعلیٰ اسلامی تعلیم سے روشناس ہوسکیں۔ عرب سے واپس آکر عبداللہ مقامی علما سے اکتساب فیض پاتے رہے۔ یوں وہ تیس برس تک عالم دین کا اعزاز پانے میں کامیاب رہے۔

عبداللہ ملنسار، ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ انہیں شوق تھا کہ اپنوں اور غیروں میں دین سے متعلق باتیں پہنچائی جائیں۔ چناں چہ وہ جس سے ملتے، اسے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے اور سچا مسلمان بننے کی ترغیب دیتے۔ کچھ عرصے بعد وہ والد کی دکان پر کام کرنے لگے۔ یوں انہیں غیر مسلموں سے بھی میل جول بڑھانے کا موقع ملا۔ اب وہ ان میں تبلیغ اسلام کرنے لگے اور بعض سیاہ فاموں کو دین حق کی آغوش میں لے آئے۔

نماز پڑھنے عبداللہ قریب ہی واقع الجامع مسجد جاتے تھے۔ وہاں اپنی ملنساری، سادگی اور خلوص کے باعث جلد نمایاں اور ہردلعزیز شخصیت بن گئے۔ یہی وجہ ہے 1955ء میں انہیں مسجد کا امام مقرر کردیا گیا۔ یوں عبداللہ کو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر جنوبی افریقہ کی اہم ترین اور بڑی مساجد میں سے ایک کا امام بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔قابل ذکر بات یہ کہ بطور امام انہوں نے انتظامیہ سے کوئی معاوضہ لینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاری اخراجات کی خاطر پرچون فروشی سے ہونے والی آمدن کافی ہے۔ قناعت پسندی اور مادہ پرستی سے بے رغبتی نے عبداللہ کو نوجوانوں میں زیادہ مقبول کردیا۔

امام مسجد بن کر عبداللہ تبلیغ اسلام میں زیادہ سرگرم ہوگئے۔ انہی دنوں ان کی ملاقات ایک پاکستانی عالم دین مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی سے ہوئی جو تبلیغ دین کے سلسلے میں بہت سرگرم تھے۔ مولانا نے نوجوان امام کو بہت سا تبلیغی لٹریچر دیا۔ عبداللہ نے ان کتابچوں کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کرایا تاکہ غیر مسلموں کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا جاسکے۔

اس دوران امام عبداللہ نے دور جدید کے مسلم مصلحین مثلاً جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا، حسن البنا، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، محمد قطب وغیرہ کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔ تب انہیں احساس ہوا ، طاقتور یورپی استعمار ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک پر قابض ہے اور یہ کہ ہرملک میں مسلم لیڈر ووٹ یا گولی کی طاقت سے غاصبوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی امام عبداللہ نے بھی جنوبی افریقا میں آمرانہ سفید فام حکومت سے ٹکرلینے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ حکمرانوں کو مجبور کردینا چاہتے تھے کہ نسلی، لسانی اور مذہبی امتیاز کی پالیسی ترک کرکے مملکت میں عدل و انصاف اور مساوات انسانی پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔

جدوجہد کا آغاز

امام عبداللہ کو مگر مسجد انتظامیہ میں شامل بعض رہنماؤں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان رہنماؤں کا استدلال تھا کہ حکومت ان کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن امام عبداللہ کے نزدیک یہ بزدلانہ اور اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی پالیسی تھی۔

ظاہر ہے، حکومت کی مخالفت مسلم رہنماؤں کے معاشی و سیاسی مفادات کو نقصان پہنچاسکتی تھی۔ اسی لیے وہ حکومت مخالف تحریک چلانے سے خائف تھے۔ان مسلم رہنماؤں کی اکثریت لکیر کی فقیر تھی۔ انہیں جدت پسند امام عبداللہ کی بعض سرگرمیوں پر بھی اعتراض تھا۔ دراصل انہوں نے مسجد میں تعلیم بالغاں کی کلاسیں شروع کردی تھیں جن میں لڑکیاں اور خواتین بھی شریک ہوتیں۔ نیز بحث و مباحثہ کرنے والے گروپ بھی تشکیل دیئے جن میں سیاست، معیشت اور دیگر موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ روایت پسندوں کے نزدیک یہ بھی بدعت اور تقلید کی مخالفت پرمبنی تھی۔

اس زمانے میں سیاہ فام لیڈر اپارتھیڈ نظام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرچکے تھے۔ ہم وطن مسلمانوں کے متعلق ان کا عام خیال یہ تھاکہ یہ لوگ ایک انقلابی پیغمبر (ﷺ) کے پیروکار ہیں مگر یہاں وہ سورہے ہیں۔

انہیں علم نہ تھا کہ جنوبی افریقن مسلمانوں میں جلد ہی ایک شیر جنم لینے والا ہے۔1961ء میں امام عبداللہ نے ہم خیالوں کے اشتراک سے ایک پمفلٹ بعنوان ''اعلان اسلام'' (call of islam) جاری کیا۔ اس میں انہوں نے حکومت کی سرکاری پالیسیوں کو ''ظالمانہ، غیر انسانی اور اسلامی تعلیمات کے منافی'' قراردیا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فی الفور اپارتھیڈ نظام ترک کرکے جنوبی افریقہ میں عادلانہ و منصفانہ طرز حکمرانی تشکیل دے۔ جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم لیڈر نے بڑی شدت سے حکومت پر تنقید کی ۔ اس پمفلٹ کو غیر مسلموں میں بھی شہرت ملی اور انہیں احساس ہوا کہ طبقہ ِمسلماں میں بھی بیداری پیدا ہوچکی۔

ظالم حکمرانوں سے لڑتے ہوئے امام عبداللہ نے سیاہ فاموں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ جابر حکومت نے مگر انھیں الگ تھلگ رکھا ہوا تھا۔ سیاہ فاموں کی بستیوں میں جانے کے لیے خصوصی پاس درکار ہوتا تھا۔ امام جناب نے حل یہ نکالا کہ ٹافیاں گولیاں فروخت کرنے والی ایک برطانوی کمپنی میں بطور سیلز مین ملازمت کرلی۔

یوں انہیں کیپ ٹاؤن کی سیاہ فام آبادیوں میں جانے کے لیے پروانہ راہداری مل گیا۔امام عبداللہ نے پھر سیاہ فام لیڈروں سے تعلقات بڑھائے۔ ان کی بستیوں میں جاکر تبلیغ اسلام بھی کی۔ وہ ہر بستی کے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے ۔ یوں وہ بستیوں میں ''ٹافی والا بابا'' کے خطاب سے مشہور ہوگئے۔ بچے انہیں دیکھتے ہی خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ امام عبداللہ کی سعی سے کئی سیاہ فاموں نے اسلام قبول کرلیا۔انہی دنوں کیپ ٹاؤن کے کچھ مسلم لیڈر ''مسلم نیوز'' کے نام سے ایک اخبار شائع کرنے لگے۔ امام عبداللہ اس کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ اب وہ بذریعہ قلم بھی ظالم حکومت کے خلاف جہاد کرنے لگے۔

انہوں نے سیاہ فاموں کی جماعتوں، افریقن نیشنل کانگریس اور پان افریکنسٹ کانگریسی سے تعلقات قائم کرلیے۔ حتیٰ کہ وہ غریب سیاہ فاموں کی مالی امداد بھی کرتے تھے اور انہیں سہارا دیتے۔1966ء اور 1968ء میں امام عبداللہ نے بیرون ممالک کا دورہ کیا۔وہ جلاوطن افریقی رہنماؤں سے ملے۔ نیز اسلامی ممالک میں چندہ جمع کیا تاکہ اپنی عملی جدوجہد کو وسیع کیا جاسکے۔

امام عبداللہ کی حکومت مخالف سرگرمیاں مگر حکمران طبقے کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی تھیں۔ وہ ان کے اقتدار کو ضعف پہنچارہے تھے۔ یہی وجہ ہے، 28 مئی 1969ء کو حکومت کی ایما پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ پھر ایک سو تئیس دن قید میں رہے۔ اس دوران ان پر شدید تشدد کیا گیا۔ حکومت ان سے جلاوطن سیاہ فام لیڈروں کی بابت معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی مگر امام عبداللہ نے کچھ بتانے سے انکار کردیا۔

اس دوران سیاہ فام پادریوں نے امام صاحب کی رہائی کے لیے بیانات دئیے۔جنوبی افریقن تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پادریوں نے کھل کر ایک امام مسجد کی حمایت کی۔آخر ظالمانہ تشددکے باعث 27 ستمبر کو وہ شہید ہو گئے۔گو سرکاری طور پر اعلان ہوا کہ وہ سیڑھیوں سے گر کر چل بسے مگر یہ سفید جھوٹ تھا۔امام عبداللہ کی شہادت کے بعد لندن کے مشہور گرجاگھر،سینٹ پال کیتھریڈل میں ان کے لیے دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔گرجا گھر کی سوا تین سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان کے اعزاز میں یہ تقریب منعقد ہوئی۔ امام عبداللہ ہارون آمرانہ نظام کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے اور خصوصاً نئی نسلوں کو یہ پیغام دے گئے:

''کہیں بھی ظلم ہوتا دیکھو تو خاموش نہیں رہو اور معاشرے میں عدل وانصاف پھیلانے کی خاطر جدوجہد کرو۔ظالم ومغرور کے سامنے کبھی سر نہ جھکایو اور بہادری سے اس کا سامنا کرو چاہے وہ کتنا ہی طاقتور اور بے رحم ہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں