قومی زبان کی حالت زار… ذمے دار کون
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے
میرے ایک صاحب علم و فکر دوست چند روز پہلے مجھے سے ایک تحریر پر تبصرہ چاہ رہے تھے۔ یہ تحریر اتنی چشم کشا ہے کہ میں اسے قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تحریر ہماری قومی زبان اردو سے کیے جانے والے سلوک کی بولتی تصویر ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر انیس سو ساٹھ کی دہائی تک ہماری معاشرت میں انگریزی زبان کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، ہم نے مدرسے کو اسکول کہنا شروع کر دیا تھا لیکن پڑھائی کے دوران انگریزی زبان کی اصطلاحات کم ہی استعمال ہوتی تھیں مثلا ہیڈماسٹر، فیس، فیل، پاس وغیرہ وغیرہ۔ گنتی ابھی کانٹنگ counting میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور پہاڑ ے بھی ''ٹیبل'' نہیں کہلاتے تھے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں چھوٹے بچوں کو اﷲ حافظ کی جگہ ''ٹاٹا'' سکھایا جانے لگااور مہمانوں کو الوداع کہتے ہوئے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے''ٹاٹا'' کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ عیسائی مشنری اسکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی اسکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔ سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی اسکولوں میں ''پیپر'' جب کہ سرکاری اسکول میں ''پرچے'' ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو ''سر'' کہا جانے لگا اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔
ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔ گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔ چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا۔ پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ''ایگزامز'' ہونے لگے۔ ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائنل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں۔ اب طلبا امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ اسٹوڈنٹس ایگزام کے لیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔ قلم، دوات، سیاہی، تختی اور سلیٹ جیسی اشیا گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں، ان کی جگہ لیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے۔
کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا۔ نصاب کو کورس کہا جانے لگا اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔ ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔ اسلامیات اسلامک اسٹڈی بن گئی۔ انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی۔ اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے۔ پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس اسٹڈی کرنے لگے۔ پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔ اساتذہ کے لیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔ زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔''ابو جی'' یا ''ابا جان'' جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لیے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں۔ اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ ''امی'' یا امی جان ''ممی'' اور مام میں تبدیل ہو گیا۔ سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ ''انکل اور آنٹی'' میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنز میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔ نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا... گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے نوکرانیاں کہلاتی تھیں، اب ممی ڈیڈی اور برگر فیملیز انھیں ماسی کہہ کر پکارتی ہیں۔
گھر اورا سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔ سڑکیں روڈز بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔ کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا، نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔
ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں۔ بابو کلرک اور چپراسی بن گئے ۔ پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے، اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔
سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ رقاصایں آرٹسٹ بن گئیں اور محبت کو ''لو'' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔ صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ نیوز سننے لگے۔ کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔ اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمے دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے۔ اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔ وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟ دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمے دار ہیں۔ دوسرا کوئی نہیں۔ بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں۔ اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔ قومیں اپنی مادری زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں۔