مریض تڑپ رہے ہیں۔۔۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں مگر ہر طرف ’سکون‘ ہے

لاک ڈاؤن سے ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ تک۔۔۔


Rizwan Tahir Mubeen June 23, 2020
’کورونا‘ کا پھیلاؤ بازار کھلنے نہ کھلنے سے نہیں،بلکہ حفاظی اقدام نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ فوٹو : فائل

فروری 2020ء میں جب کورونا کا پہلا مریض سامنے آیا، تو پہلے مرحلے میں کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور پھر مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور مارچ 2020ء کے آخری عشرے میں 'حکومت سندھ' نے اور بعد میں وفاقی حکومت نے بھی 'لاک ڈاؤن' کیا، یا یوں کہہ لیں کہ اس طرز کے کچھ حفاظتی اقدامات کیے۔۔۔ لگ بھگ دو ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔۔۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران بھی کھلنے والے اشیائے ضروریہ کے بیش تر بازاروں میں 'سماجی دوری' سے لے کر دیگر حفاظتی اقدام کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی گئیں۔۔۔

اپریل کے بعد مئی 2020ء میں جب ماہ صیام کا آخری عشرہ تھا۔۔۔ اور دو ماہ سے مسلسل کاروبار بند رہنے سے تاجروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تھا۔۔۔ وہ حکومتی فیصلے کے برخلاف دکانیں کھلنے پر تل گئے۔۔۔ اگرچہ غیر سرکاری تنظیموں نے نچلے اور متوسط طبقے کی اس دوران بڑے پیمانے پر دادرسی کی کوشش کی، لیکن مجموعی طور پر چھوٹی پونجی کے لوگوں کی سفید پوشی تار تار ہونے لگی تھی اور ان کے معاشی مسائل بہت بڑھ رہے تھے۔۔۔ چناں چہ 'حفاظتی اقدام' کی چھتری تلے بازار کھولنے کی باتیں زور پکڑتی گئیں۔۔۔ اس حوالے سے بے شمار تجاویز بھی سامنے آئیں، جس میں سے ایک تجویز یہ بھی تھے کہ ہر ہفتے، دو، دو دن کے حساب سے مختلف زمروں میں بانٹی گئی دکانیں کھولی جائیں گی۔

جیسے ایک دن ملبوسات، ایک دن کاسمیٹک، ایک دن مختلف پرزہ جات وغیرہ کی دکانیں کھل جائیں، تاکہ بازار میں گاہکوں کی بھیڑ ہونے کا امکان کم سے کم ہو۔۔۔ لیکن پھر عدالت نے عید سے پہلے بازار کھولنے کا حکم دے دیا۔۔۔ اور پھر چل سو چل، آن کی آن میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید ہمارے ملک سے یہ مہلک 'وبا' ختم ہوگئی ہے۔۔۔ حکومت نے بھی زبانی کلامی 'حفاظتی اقدام' کی تاکید کرتے ہوئے سڑکیں اور راستے کھولنے شروع کر دیے، مسافر طیاروں کی پروازوں سے ریل گاڑیوں کی آمدورفت تک، سب کچھ رواں ہوگیا۔۔۔

بازاروں سے لے کر گاڑیوں میں کسی بھی قسم کے حفاظتی اقدام کے مناظر شاذ ونادر ہی دیکھنے میں آئے۔۔۔ کیسی 'سماجی دوری' اور کیسے ہاتھ دھونا اور ماسک لگانا۔۔۔ شاپنگ مال سے لے کر چھوٹے بڑے بازاروں میں ہجوم کا یہ عالم تھا کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔۔۔ بہت سے لوگوں نے کھل کر عید کی 'خریداری' کی، بہت سے دکان داروں کے کچھ آنسو پونچھ گئے۔۔۔ لیکن اس کا نتیجہ 'کورونا' کے متاثرین کی تعداد میں بے تحاشا اضافے کی صورت میں برآمد ہوا۔۔۔ اس وبا کے باعث ہونے والی 20، 25 روزانہ کی ہلاکتیں اب 100 سے متجاوز ہیں۔۔۔

اس پر کوئی بات نہیں کر رہا کہ ہمارا ناکافی طبی سہولتوں کا نظام بری طرح بیٹھ چکا ہے۔۔۔! لوگ 'آکسیجین' سلینڈر کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔۔۔ دیگر بیمار اور بزرگ افراد طبی سہولتوں کے حوالے سے شدید تکلیف اور پریشانی کا شکار ہیں، کیوں کہ ایک تو اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے، دوسرا لوگوں کو اسپتال جانے سے ایک اَن جانا سا خوف بھی ہے۔۔۔ ظاہر ہے وہاں ہر طرح کے مریض آتے ہیں اور اس سے وہاں آنے جانے والوں کے متاثر ہونے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔ اور پہلے سے بیماریوں کا شکار افراد 'کورونا' کا تر نوالہ ثابت ہو رہے ہیں۔۔۔

ملک کے معاشی دارالحکوت قرار دیے جانے والے اور قومی پیداوار میں 70 فی صد حصہ ڈالنے والے شہر قائد کراچی کی موجود طبی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے ایف ایم 101 کے پرزینٹر عاصم بشیر کا دل دوز تجربہ سنیے، اور غور کیجیے گا یہ کوئی سنی سنائی بات، لفاظی، یا بات برائے بات نہیں، بلکہ ایک بھائی کی درد انگیز بپتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بڑی بہن گذشتہ چار برس سے گردوں کے امراض کا شکار تھیں، 15جون کو اچانک ان کی طبیعت بگڑی، تو انہوں نے بہن کو اسپتال لے جانے کی غرض سے شہر کراچی کی تمام بڑ ی ایمبولینس سروسز کو کالیں کیں، لیکن ایمبولینس تک دست یاب نہ ہو سکی۔۔۔!

ان کی حالت ایسی تھی کے اسٹرچر کے ذریعے ہی انہیں لے جایا جا سکتا تھا، مجبوراً ایک گاڑی کا بندوبست کیا اور پھر ڈیڑھ گھنٹے تک ہم انہیں گاڑی میں لیے پھرتے رہے کہ کہیں کوئی طبی امداد مل سکے۔۔۔۔ تمام جان پہچان دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔! کراچی کے کسی اسپتال نے انہیں داخل کرنا تو دور کی بات، معائنے تک سے بھی انکار کر دیا۔۔۔ کوئی سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہ تھا، بہت منّت سماجت کے بعد چوتھے اسپتال نے انہیں 'ایمرجینسی' میں چیک کیا اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی تصدیق کر دی۔۔۔!'

المیہ ہے کہ ہمارے اسپتالوں کی اس بدترین صورت حال میں بھی انتظامی سطح پر اب تک یک سوئی موجود نہیں ہے۔۔۔ سیاسی بیان بازیوں سے لے کر ایک دوسرے پر نکتہ چینی اور تنقید کے دفتر لے کر بیٹھ گئے ہیں۔۔۔ الغرض 'کورونا' کے خلاف مشترکہ اور دوراندیش حکمت عملی کا شدید فقدان ہے۔۔۔ اس لیے 'لاک ڈاؤن' میں عدالتی نرمی کے ایک ماہ بعد ملک کے مختلف علاقوں کو 'سیل' کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔۔۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی وغیرہ کے متعدد علاقوں کو دو ہفتوں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔۔۔ اور اسے 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' سے موسوم کیا جا رہا ہے۔۔۔ کیوں کہ بہت سے ذمہ داران 'لاک ڈاؤن' کے 'خلاف' تھے، اس لیے شاید انہوں نے 'اسمارٹ' کا سابقہ لگا کر اپنی بچت کا سامان کیا ہے۔۔۔

دوسری طرف روزانہ سات بجے تک بازار بند کرانے اور ہفتہ اتوار چھٹی کرنے پر تنقید کی گئی کہ کیا 'کورونا' نے یہ بتایا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو یا شام سات بجے کے بعد آتا ہے۔۔۔؟ وغیرہ۔ ایسا لگا کہ جیسے یہاں سے لے کر وہاں تک ہم سب بیان بازیوں کے کسی مقابلے میں شریک ہیں۔۔۔ یوں مثبت طریق کار اور اتحاد ویگانگت سے اس مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کا جذبہ تقریباً مفقود رہا۔۔۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ یہ بات معقول طریقے سے کی جاتی کہ ہفتہ وار تعطیلات اور اوقات کار محدود کرنے سے لامحالہ بازاروں میں رش بڑھے گا۔۔۔ لوگ دوڑیں گے کہ دکان سات بجے بند ہو جائے گی اور ہفتے اور اتوار کو بند رہے گی۔۔۔

اس لیے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تعطیلات اور وقت کی قید ختم کی جائے اور ساری توانائیاں 'حفاظتی اقدام' لازمی قرار دینے پر صرف کی جائیں۔۔۔ مختلف زمروں میں بانٹ کر دو، دو دن مختلف دکانیں کھولنے پرغور کیا جائے، کیوں کہ درحقیقت کورونا نہ بازار اور دفاتر کھلنے سے پھیل رہا ہے اور نہ ذرایع آمدورفت کی فراوانی سے۔۔۔ یہ صرف حفاظتی اقدام سے بے پروائی کا نتیجہ ہے۔۔۔ اگر لاک ڈاؤن کر کے ساری زندگی کا نطام معطل کر دیا جائے، لیکن حفاظتی اقدام اختیار نہ کیے جائیں، تو یہ امر فقط معاشی خسارے کا ہی باعث ہوگا۔۔۔اور گذشتہ چند ماہ سے ہم مسلسل اسی کا سامنا کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں