فیصلہ ہو چکا
اُس نے بلا توقف جواب دیا ’’ بد قسمتی سے جسٹس صاحب نہیں بچ سکیں گے۔‘‘
آج سے ڈیڑھ سال پہلے جب سپریم کورٹ کے انتہائی دیانتدار، قابل اور جرات مند جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تو اُن دنوں میری میڈیا کی ایک اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا،'' ریفرنس کا کیا بنے گا؟'' اُس نے بلا توقف جواب دیا '' بد قسمتی سے جسٹس صاحب نہیں بچ سکیں گے۔''
میں نے کہا، حکومتوں کی طاقت بجا، لیکن ان سے اُوپر ایک بہت بڑی طاقت موجود ہے جو پوری کائنات کا نظام چلا رہی ہے۔ وہی ہو گا جو سب سے عظیم طاقت اور کائنات کے حاکمِ اعلیٰ کو منظور ہو گا۔ دیکھ لینا خدائے بزرگ و بر تر پاکستان بنانے والوں کی رزقِ حلال کھانے والی اولاد کو رُسوا نہیں ہونے دے گا''۔
میں نے پوری ایمان داری کے ساتھ اُس وقت پانچ روز مسلسل اس موضوع پر لکھّا اور قوم کے سامنے اپنے جذبات ، احساسات اور خدشات کا نچوڑ رکھ دیا۔ اُس وقت کی تحریروں کے چند پیرا گراف قارئین کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔
''جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کے صاحبزادے نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری عدلیہ اور وکلاء برادری جانتی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ ایک اعلیٰ کردار کے مالک ، با اصول اور نیک نام جج ہیں۔ ایک انتہائی نیک نام جج کے خلاف ریفرنس بھیج کر اسے بد نام کرنے کی کوشش ایک انتہائی شرمناک فعل ہے۔
کچھ ججوں کے خلاف کرپشن میں ملوث ہونے پر ریفرنس بھیج کر واپس لے لیا گیا مگر ایک ایماندار، بااصول، قابل ، غیر جانبدار، مُحبِ وطن (ملک سے محبت اس کے خون میں شامل ہے) اور دلیر جج کو کیوں بدنام کیا جا رہا ہے؟''۔
''حکمرانو ! تم شائد نہیں جانتے کہ جس منصف پر تم کیچڑ پھینک رہے ہو اُس کا باپ اِس ملک کے عظیم معماروں میں شامل تھا۔ وہ قائد ؒ کا قابلِ اعتماد ساتھی تھا۔ اس قابلِ مذمت حرکت پر بابائے ؒ قوم کی روح پر یشان ہو گی کہ اُس کے ملک میں اُس کے ساتھیوں اور پاکستان کے بانیوں کی پاک دامن اولاد کے ساتھ کیا کھلواڑ ہورہا ہے''۔
''کل رات مختلف چینلوں پر صوبائی ہائیکورٹس بار ایسو سی ایشنز کے صدر صاحبان کہتے رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ وہ آدابِ غلامی کے خوگر نہیں۔ سینئر وکلاء کے بقول جسٹس صاحب اپنی بیگم کی جائیداد declareکرنے کے پابند نہیں تھے۔کیا تمام جج صاحبان کی بیگمات نے اپنی جائیدادیں ڈکلئیر کی ہیں؟ مستعفی ہونے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے تمام جج صاحبان سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تین سو کنال کے گھر میں رہنے والے وزیر اعظم سے کئی سو گنا زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ کوئی حکومتی وزیر جسٹس صاحب کے اعلیٰ کردار پراُنگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا۔
''جسٹس فائز عیسیٰ کا نام اور مقام جسٹس افتخار چوہدری سے کہیں زیادہ محترم اور معتبر ہے، اسی لیے وکلاء ہی نہیں پورے ملک کے فہمیدہ حلقوں نے تشویش کااظہار کیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے صدر امان اللہ کنزانی رات کو ٹی وی چینلز پر بتا رہے تھے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے نام کی قسم کھائی جا سکتی ہے ۔ اُس نے اس ملک کی بنیاد رکھنے والوں کی گود میں پرورش پائی ہے۔ وہ اس ملک کو گھر سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ ایسے پاکیزہ کردار جج کو سیکنڈ لائز کرنا بہت بڑا ظلم ہے اس کے خلاف زیادتی کو پورے بلوچستان کے خلاف زیادتی سمجھا جائے گا اور ہم یہ زیادتی نہیں ہونے دیںگے''۔
''جسٹس فائز عیسیٰ کا نہ کسی سیاست سے لینا دینا ہے نہ کسی سیاستدان سے ہمدردی ہے اورنہ کسی سے دشمنی یا بغض۔ ان کا ناطہ صرف آئین اور قانون سے ہے، اگر مقدمہ درست ہوا تو وہ نواز شریف سے بھی کوئی نرمی نہیں کریںگے اور آصف زرداری سے بھی کوئی رعائت نہیں کریں گے' کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے، کیا ریفرنس فائل کرنے والے اس ملک میں انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں یا انصاف کا گلا گھوٹنا چاہتے ہیں؟ ملک سے محبت کرنے والے شہریو ! عدلیہ میری اورآپ کی ہی نہیں ، نواز شریف اور بلاول کی ہی نہیں،عمران خان کی اور ججوں اور جرنیلوں کی بھی آخری پناہ گاہ عدلیہ ہی ہے۔ کون ہے جو اپنی پناہ گاہ کو کمزور کرنا چاہتا ہے؟
اب فیصلہ آچکا ہے جس پرجسٹس فائز عیسیٰ کے وکلاء نے خوشی کا اظہار کیا ہے جب کہ وزیر اعظم کے نمایندوں نے بھی پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے بھی فیصلے پر اطمینان کا اظہارکیا مگر ان کے اُڑے ہوئے رنگ ان کی دلی کیفیّت کی غماّضی کر رہے تھے۔کچھ وکلاء یہ بھی سمجھتے ہیںکہ ریفرنس خارج کرنے کے ساتھ حکومت کو بھی سُبکی سے بچا لیا گیا ہے۔
اُن کا یہ کہنا درست ہے کہ جب مسز فائز عیسیٰ نے اپنی جائیدادوں کی مکمل تفصیل بتا دی تو اس پر بنچ کے معزز سربراہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود معاملہ ایف بی آر کو کیوں بھیجا گیا؟ نیز یہ کہ ایف بی آر پہلے بھی تو بیسیوں ججوں اور ارکان پارلیمنٹ کے بچّوں اور es spous کے ٹیکس کیسز دیکھ رہا ہے ،کیا کسی اور کیس میںکبھی کوئی معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا ہے۔ ہر گز نہیں، ایسے معاملات ٹیکس دھندگان اور ایف بی آر کے درمیان طے ہو جاتے ہیں۔
میرے خیال میں حتمی فیصلہ ہو چکا اور اب کسی نئے ریفرنس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ
٭ وہ عوامل جو آج جسٹس فائز عیسیٰ کے حق میں ہیں وہ آج سے تین مہینے بعد بھی موجود ہوںگے ۔ یعنی پورے ملک کی وکلاء تنظیمیں فائز عیسیٰ صاحب کے ساتھ کھڑی ہیں اور آیندہ ایسی حرکت ہوئی تو بھی وہ مزاحمت کریںگی اور اب ان کے ساتھ سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہو جائیں گی اور ایک بڑی تحریک چل پڑے گی۔
٭ کمشنر انکم ٹیکس اور چئیرمین ایف بی آر سول سرونٹس ہیں اور یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں قانون کے مطابق میرٹ اور انصاف پر مبنی رپورٹ بنائیں گے۔ وہ غلط کام کرنے والے سرکاری افسروں کے انجام سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ ایک نیک نام جج کے خلاف کسی سازش کا حصّہ نہیںبنیں گے۔
٭ تیسرا یہ کہ پہلے دونوں چیف جسٹس اپنے دامن پر جسٹس فائز عیسیٰ کو نکالنے کا داغ لینے پر تیار نہ ہوئے۔ آنے والے چیف جسٹس بندیال صاحب نے بھی گریز کی راہ اپنائی اور گیند موجودہ چیف جسٹس کی کورٹ میں پھینک دی ۔امید واثق ہے کہ موجودہ چیف جسٹس بھی اپنے اوپر ایسا الزام لے کر رخصت ہونا پسند نہیں کریں گے۔
٭ فروغ نسیم، الطاف حسین اور جنرل مشرّف کے ساتھ بھی رہے جب کہ حکومت کی نئی قانونی ٹیم میں بابر اعوان اور علی ظفر جَیسے سمجھدار اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں اس لیے اُمیّد ہے کہ وہ حکومت کو کسی محاذ آرائی اور adventurism کی راہ پرچلنے سے روکیں گے ۔
٭ اور آخری یہ کہ وطنِ عزیز اس وقت چومُکھّی لڑائی لڑ رہا ہے۔ پہلے اکانومی کے محاذ پر، پھر کورونا سے، پھر ازلی اور ابدی دشمن کے خلاف(اگر وہ چین کے ہاتھوں ذلیل نہ ہوتا تو آزاد کشمیر میں ضرور چھیڑ خانی کرتا)بلوچستان اور فاٹا کی صورتِ حال خاصی سنگین ہے۔ اس لیے کوئی ملک دشمن ہی ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کاسوچے گا جس سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلے اور دشمن جس سے فائدہ اٹھائے۔ ابھی ابھی عدالت ِعظمیٰ کے ایک سابق نیک نام جج صاحب کا میسج آیا ہے؛
"If Allah wants a better and brighter future for Pakistan then Justice Faiz Isa shall survive"