کوئی تو یہ فرض ادا کرے
بجٹ کے بعد ملکی سیاست میں اتنی تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے کہ سیاسی حالات کا ساتھ نبھانا مشکل ہو رہا ہے
بجٹ کے بعد ملکی سیاست میں اتنی تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے کہ مجھ جیسے گوشہ نشیں کا ان تیز رفتار سیاسی حالات کا ساتھ نبھانا مشکل ہو رہا ہے۔ اقتدار کی لڑائیوں کو دیکھتے ہوئے ایک عمر گزر گئی لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ پیارے پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدل سکا، وہی اقتدار کے بھوکے لوگ ہیں یا ان کے سیاسی جانشین ہیں جو شروع دن سے ہم پر مسلط ہو گئے تھے اورآج تک مسلط چلے آرہے ہیں۔
خوش قسمتی سے اگر غلطی سے درمیان میں کوئی نیک نام آبھی گیا تو ان مسلط لوگوں نے پہلے تواسے اپنے ڈھب میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اگر وہ ان کے جال میں پھنس گیا تو کام بن گیا لیکن اگر وہ ان کے داؤ پیچ سے بچ نکلا تو اسے اپنی شاطرانہ چالوں اور حربوں سے ناکام کر کے نکال دیا گیا۔ یہ وہ سیاسی داؤ جگادری ہیں جو اپنے مطلب اور مفادات کے اسیر ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں چاہے اس کا انھیں وقتی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہو لیکن انھیں بالآخر اس بات کا علم اور یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائیں گے۔
مجھے نواب ملک امیر محمد خان یاد آرہے ہیں جنھوں نے فہم و فراست اور تدبر کے بل بوتے پر آدھے پاکستان کے گورنر کی ذمے داریاں جس خوش اسلوبی سے سر انجام دیں اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا اور ان صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان میں انتظامیہ کو چلانے کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ گورنر نواب امیر محمد خان کالا باغ ہر افسر کو جانتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ان سے کام لینے کا کیا طریقہ کار ہے اور کسی کو کس طرح قابو کیاجا سکتا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک افسر پکڑا گیا، نواب صاحب نے کٹہرے میں کھڑا کر دیا، اتنے میں ایک صاحب نے عرض کیا کہ آپ کے دوست کا بیٹا ہے ۔
نواب صاحب نے اسے گلے سے لگا کر کہا کہ تم تو میرے بھتیجے ہو، جاؤ اور اتنا کام کرو کہ تمہارا چچا شرمندہ نہ ہو۔ یہ افسر ڈپٹی کمشنر تھا، اس نے اپنے ضلع کو جنت بنا دیا ۔ ان کے دور حکومت میںایک چیف سیکریٹری نے افسری کے زعم میں کچھ خود سری کی کوشش کی ۔ نواب صاحب نے احترام کے ساتھ اسے چائے پر بلایا اور بلوچستان کے چند دور دراز مقامات کا ذکر کیا کہ قیام کے لیے کیسے رہیں گے ۔ وہ افسر پیچ و تاب کھاتا نواب صاحب کی چائے زہرمار کر کے رخصت ہو گیا لیکن اس کی افسری نکل گئی۔
لیکن اب ان جیسے لوگ کہاں، وہ اپنے مفادات کو نہیں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے تھے، نواب صاحب کے دور حکومت میں ان کے بیٹوں کو گورنر ہاؤس کے قریب سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ ان کے بعد ہم نے دیکھا کہ باپ اگر کسی اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ گیا ہے تو اس کے بیٹے اس عہدے کے اختیارات استعمال کر کے احکامات جاری کرتے رہے ہیںیعنی اصل عہدیدار وہ تھے اور ان کی جی حضوری کے لیے لوگ لائنوں میں لگے رہتے تھے۔
بہر حال یہ آج کے پاکستان کی سیاست ہے اور نواب صاحب کا دور ایک ابھرتے، پاکستان کی سیاست کا دور تھا جس کو ان کے بعد آنے والے بونے لوگوں نے کئی نئے نام دیے کوئی اسے روشن پاکستان کہتا رہا اور کوئی اسے نیا پاکستان کا نام دیتا ہے، کسی نے کشکول توڑنے کی بات کی تو کسی نے قرض اتارنے کے دعوے کیے، کوئی اسے غریبوں کا پاکستان کہتا رہااور اپنی امارات میں اضافہ کر گیا لیکن عملاً کچھ بھی نہ ہوا اور حالات جوں کے توں رہے اور ان کاریگر لوگوں نے پاکستان کے عوام کو نئے پرانے پاکستان کے چکر میں الجھا کر ان کا اصل پاکستان بھی ان سے چھین لیا۔
میں عرض کررہا تھا کہ سیاسی حالات میں تبدیلی کے لیے نقارے بجائے جا رہے ہیں اور ان نقارچیوں کو ہم سب دیکھ رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ نقارے بجا چکے ہیں، یہ کوئی نئے چہرے مہرے نہیں ہیں، پرانے لوگوں کے نئے چہرے ہیں جو جانشین کا نام دے کر ہماری قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں لیکن ان کا اصل وہی ہے ۔
ہم سب کئی دہائیوں سے ان کودیکھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آیندہ بھی کئی دہائیوں تک یہی چہرے دیکھے جاتے رہیں گے۔ دراصل قوم کو ان لوگوں نے ذہنی طور پر غلام بنا لیا ہے اور جب معاملات غلامی کی حد تک پہنچ جائیں تو تبدیلی ناممکن ہو جاتی ہے۔مغلوں کے بعد برصغیر کے عوام کوانگریزوں نے غلامی کے چنگل میں جس طرح جکڑے رکھا، یہ غلامی ہمارے اندر رچ بس گئی ہے اور آزادی کی کئی دہائیوں کے بعد بھی ہم انگریزوں کے بنائے گئے نظام اوران کے پروردہ لوگوں سے اپنے آپ کو آزاد کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
آزاد ملک میں نئی نسلوں کے جوان ہونے کے بعد اگر اس نوجوان نسل نے تھوڑا بہت آزاد ہونے کی جدو جہد کی ہے تو اسے بھی ان کاریگر لوگوں نے اپنے شاطرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے عملاًناکام بنانے کی بھر پورکوشش کی ہے اور نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے جواں جذبوں اور جذباتی عمل کی ان کی سیاست کے سامنے کوئی وقعت نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل ان کاریگر لوگوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی اور اپنے جذبوں کو جواں رکھے گی۔
کیونکہ نوجوان نسل ہی قوم کا مستقبل ہوتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے مستقبل کو مایوسیوں اور اندھیروں میں دھکیلنے کے بجائے ان میں روشن مستقبل کی امید پیدا کریں نہ کہ ہم اپنے ملک کا مستقبل اپنی سیاست اور مفادات کی نظر کر دیں جو پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔کوئی تو ہو جو یہ فرض ادا کرے لیکن بدقسمتی سے مجھے اپنے لیڈروں میں کوئی یہ فرض ادا کرنے والا نظر نہیں آتا۔ وماعلینا الالبلاغ