دکھ کہاں سے آتے ہیں
یونانی فلسفی تھیلس کو سقراط سے پہلے کے ’’سات دانا آدمیوں‘‘ میں ایک خیال کیا جاتا ہے
یونانی فلسفی تھیلس کو سقراط سے پہلے کے ''سات دانا آدمیوں'' میں ایک خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ''دنیا کا سب سے مشکل کام خود کو جاننا ہے، دوسری طرف سدھارتھ ابدی سچائی کی تلاش میں تھا کہ جو تمام دکھوں اور دنیاوی بندھنوں سے نجات دلا دے۔ اسی تلاش کے دوران وہ ''گیا'' کے قریب پہنچا اور تقریباً چھ برس تک وہاں ریاضتوں اور کٹھن مشقوں میں مشغول رہا ،ان ریاضتوں کے باعث وہ نہایت دبلا اور کمزور ہو گیا آخر اس نے کٹھن ریاضتوں کو بھی ترک کردیا اور یہ تہیہ کرکے ایک شجر پیپل کے نیچے بیٹھ گیا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں اٹھے گا جب تک کہ نروان نہ پالے اس کی یہ مراد پوری ہوئی اور وہ ''بدھ'' یعنی بصیرت یافتہ بن گیا۔
نروان پا لینے کے بعد گوتم بدھ نے سوچا کہ اس بصیرت کو دوسرے انسانوں تک بھی پہنچانا چاہیے چنانچہ اس نے پیروکار بنائے جو بڑھتے بڑھتے سنگھ یعنی جماعت کی شکل اختیار کر گئے۔ بدھ نے وہ راستہ دیکھ لیا تھا جو تمام دکھوں کی فنا اور نجات اور نروان تک لے جاتا تھا وہ سارناتھ کی طرف گیا اور ہرن باغ میں پہلا وعظ کیا ''اے بھکشو، دنیا میں دو انتہاؤں سے بچنا چاہیے ایک خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور نفسانی لذت میں کھو جانا اور دوسری کٹھن ریاضتیں اور خود اذیتی۔'' بدھ نے اپنی فکری عمارت کی بنیاد انسانی دکھ کی حقیقت پر رکھی۔
آئیں !یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دکھ ہوتے کیا ہیں اور یہ آتے کہاں سے ہیں؟ اصل میں تمام دکھ ناسمجھی کے ناجائز بچے ہوتے ہیں۔ سقراط کہا کرتا تھا کہ ''میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا'' جب آپ یہ جان لیتے ہیں کہ آپ کچھ نہیں جانتے تو پھر آپ جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح انسان بھوت پریت سے ڈرتا ہے اسی طرح دکھ جاننے سے ڈرتے ہیں جب آپ جان جاتے ہیں تو دکھ آپ سے دور بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔
زندگی کے آغاز میں جب انسان کچھ نہیں جانتا تھا تو وہ ہر چیز سے ڈرتا تھا ہر چیز بار بار اسے ڈراتی تھی وہ بار بار خوفزدہ ہو جاتا تھا، اس لیے آغاز کی زندگی دکھی تھی پھر جیسے ہی اسے لفظ ملے تو اس نے سوچنے کا آغاز کردیا اور پھر اس کے جاننے کی شروعات ہوئی جیسے اس نے جاننا شروع کیا تو اس کے خوف اس سے ڈرنے لگے اور جب آپ کے خوف جو اصل میں سب سے بڑے جھوٹے ہوتے ہیں آپ سے ڈرنے لگیں تو یہیں سے دکھوں کے مرنے اور خوشیوں کے زندہ ہونے کا آغاز ہونے لگتا ہے کیونکہ خواہشات خوف سے جنم لیتی ہیں خوفزدہ انسان خواہشوں کے پیچھے بھاگتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے جب کہ جاننے والا اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دکھ آپ کے بن بلائے وہ مہمان ہوتے ہیں جنھیں آپ اصل میں کبھی اپنا مہمان دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں چونکہ نہ جاننے کی وجوہ سے آپ بھٹکتے پھر رہے ہوتے ہیں اور اس بھٹکنے میں آپ وہاں وہاں چلے جاتے ہیں جہاں آپ جانا ہی نہیں چاہتے ہیں اصل میں سب سے وحشت ناک پہلو یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت کبھی بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتی ہے۔
انھیں ساری عمر یہ معلوم ہی نہیں چل پاتا کہ وہ اصل میں ہیں کیا اور وہ چاہتے کیا ہیں اور وہ پیدا کیوں کیے گئے ہیں وہ زندہ کیوں ہیں وہ ساری عمر صرف اور صرف اندھیروں سے اپنا سر پھوڑتے رہتے ہیں ان میں کچھ دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں کچھ زمینوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کچھ طاقت کو زندگی سمجھنے لگتے ہیں کچھ اختیار کے پیچھے اپنی زندگی پوری کردیتے ہیں کچھ اقتدار کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو ناسمجھی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جنھیں خوف کی بیماری لگ جاتی ہے۔
اصل میں یہ سب کے سب دکھی انسان ہوتے ہیں جنھیں سب سے زیادہ پیار، محبت کی ضرورت ہوتی ہے اصل میں یہ جاننے والوں کے منتظر ہوتے ہیں کہ کہیں سے وہ آجائیں اور انھیں ان دکھوں سے نجات دلوا دیں تاکہ انھیں چین اور سکون اور سکھ حاصل ہوسکے۔
عظیم یونانی فلسفی پائر ہو کہا کرتا تھا''دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے بعد دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے باہم لڑتے اور جدوجہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کو دوسری چیزوں سے بہتر تصور کرلیتے ہیں ۔اس قسم کی جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لاحاصل ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اور غیر اہم ہیں اب ہمارے حکمرانوں کی ہی مثال لے لیجیے وہ سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔ حقیقت میں ان کا اصل مسئلہ ہی نا جاننا ہے۔
اس لیے وہ اپنے اصل مسئلے ہی سے ناواقف ہیں وہ دوسروں کو اپنا مسئلہ سمجھے بیٹھے ہیں جب کہ وہ خود اپنا مسئلہ آپ ہیں اس لیے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مسائل پہ مسائل پیدا کرتے جارہے ہیں وہ بے تعلق اور غیر اہم چیزوں کے لیے اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحت تک داؤ پر لگا رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ یہ ساری جدوجہد اور کوشش بے مقصد اور لاحاصل ہے آخر میں سوائے مایوسی کے انھیں اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا اگر یہ کہا جائے کہ یہ خود اذیتی میں مبتلا ہو گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا خود کو اذیت پہ اذیت دیے جا رہے ہیں کبھی آپ نے ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کو مارے مارے پھرتے دیکھا ہے کبھی اپنے اقتدار کی خاطر انھیں ریاست کے اہم کرداروں کے خلاف بولتے ہوئے سنا ہے وہ سب اقتدار میں آتے ہیں اپنے ملک اور اپنے عوام کی خدمت کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور پھر زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور لطف اندوز دوبارہ ہونے لگتے ہیں عام شہری بن کر۔ اور ان کے گھر والے بھی دوبارہ عام شہری بن جاتے ہیں۔
یہی وہاں صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے کیونکہ وہ زندگی کو جان چکے ہیں ہم آتے ہیں اب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں یہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے اور آخر تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ رومن فلسفی پوٹینس کہتا ہے خود شناسی میں ہم خوب صورت اور اپنی ذات سے لاعلمی میں بدصورت ہوتے ہیں۔