لین دین کے تنازع پر درجن سے زائد افراد نے نوجوان کو مار ڈالا

 مقتول کے ورثاء کا نعش سڑک پر رکھ کر احتجاج، ملزم دھر لئے گئے


محمد اکرم June 28, 2020
مقتول کے ورثاء کا نعش سڑک پر رکھ کر احتجاج، ملزم دھر لئے گئے

زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے ہر انسان اپنے کاروبار کو بہتر سے بہترین بنانے کے لئے کوشاں رہتا ہے، لیکن لین دین کے تنازعات بعض اوقات اسے ایسی دلدل میں پھنسا دیتے ہیں جن سے نکلنا اس کے لئے ناممکن بن جاتا ہے اور کئی زندگیوں کے چراغ تک گل ہو جاتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن کے باسی بلال نورزئی کے ساتھ ہوا۔ نرم خو اور ملنسار بلال نورزئی عبدالستار روڈ پر موٹر سائیکل شوروم کا کام کرتا تھا۔ شرافت اس کا اوڑھنا بچھونا تھا، جس کی وجہ سے لین دین کے معاملات میں بھی شفافیت اس کا اصول تھا لیکن چھوٹے سے لین دین کے تنازع پر علاقے کے درجنوں نوجوانوں نے مل کر بلال کو قتل اور اس کے دیگر دو ساتھیوں کو شدید زخمی کر دیا۔ یہ واقعہ 29مئی کی رات پونے نو بجے کے قریب پیش آیا، جس میں زخمی ہونے والے نوجوانوں نیاز محمد اور کریم کے بیان کی روشنی میں ایڈیشنل پولیس آفیسر بلوچستان عبدالرزاق چیمہ اور ان کی انوسٹی گیشن ٹیم نے واقعہ کے بارے میں تمام تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ 29مئی کی رات کو اس وقت پیش آیا، جب بلال نورزئی اور اس کے دو ساتھیوں کو اپنے ہی پیسے مانگنے پر درجنوں لوگوں نے مل کر چاقوؤں، چھریوں اور قینچیوں سے حملہ کر دیا، جس سے بلال جاں بحق جبکہ اس کے ساتھی شدید زخمی ہو گئے۔

پولیس کے مطابق کے مطابق بلال نورزئی نے واقعہ سے تین سے چار روز قبل کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارہ ٹاؤن کے رہائشی جواد نامی شخص سے ایک گاڑی کا سودا کیا جو کہ چار لاکھ روپے میں طے پایا، جس کے بعد بلال نورزئی بار بار جواد سے اپنی بقیہ رقم کا مطالبہ کرتا رہا لیکن وہ ٹرخاتا رہا۔ واقعہ کی رات 29 مئی کو بلال نورزئی اپنے دوساتھیوں نیاز محمد اور کریم کے ہمراہ ہزارہ ٹاؤن کے علاقے علی آباد میں ملزم جواد کی دکان پر گیا، جہاں جواد نے ان پر الزام لگا دیا کہ تم نے اپنے موبائل میں ہمارے علاقے کی لڑکیوں کی تصاویر لی ہیں۔

بعدازاں الزام کی تصدیق کے بجائے جواد نے اپنے دیگر ساتھیوں ذوالفقار علی، اسماعیل علی اور فوجی نامی لڑکے سمیت دس سے پندرہ نامعلوم افراد کے ساتھ مل کر بلال اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا، جس کے باعث بلال نورزئی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق جبکہ اس کے ساتھی کریم اور نیاز شدید زخمی ہو گئے۔ مشتعل ہجوم نے زخمیوں کو روڈ پر پھینک دیا۔ بعدازاں واقعہ کی اطلاع ملتے ہی متعلقہ تھانے کی پویس بھی جائے وقوعہ پہنچ گئی اور بلال نورزئی اور دیگر زخمیوں کو فوری طور رپر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ پولیس نے تھانہ بروری روڈ کوئٹہ میں مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کر دی۔

دوسری طرف اگلے ہی روز درجنوں شہری اور بلال نورزئی کے والد اور علاقہ معتبرین مشتعل ہو کر نعش کے ہمراہ سڑک پر نکل کر مظاہرہ کرنے لگے۔ مظاہرین کئی گھنٹے تک ریڈ زون کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے رہے اورانصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے رہے۔ بعدازاں وزیر اعلی بلوچستان، صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو اور پولیس کے اعلی حکام کی مداخلت کے بعد مظاہرین اس یقین دہانی پر منتشر ہو گئے کہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

مقدمہ کے اندراج اور مظاہرین کو دی گئی یقین دہانی کے بعد پولیس نے واقعہ کے مرکزی ملزم جواد اور 14 شریک ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا۔ پولیس ٹیم نے جائے وقوعہ سے ایک گاڑی، خون آلود شیشے، پتھر، چار عدد قینچیاں اور دیگر آلات بھی قبضے میں لئے۔ دوسری طرف 31مئی کو ہی وزیر اعلی بلوچستان جام کمال کی ہدایت پر جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، اس ٹیم نے مختلف پہلوؤں سے واردات کا جائزہ لیا اور تفتیش شروع کر دی۔ دوسری جانب ایڈیشنل آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق واقعہ کے روز اس وقت کے ایس ایچ اوز سمیت دیگر عملہ کو معطل کر دیا گیا ہے اور تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جے آئی ٹی اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں