غیرت برائے فروخت

یہ کیسی ’’مدینے کی ریاست‘‘ ہے کہ ریاست کے قانون کے بجائے ظالم وڈیرے فیصلہ کرنے اور سزا دینے کےلیے آزاد ہیں


رضوانہ قائد July 08, 2020
ضلع جامشورو کے گاؤں میں چوبیس سالہ لڑکی کو انتہائی بےدردی سے سنگسار کردیا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

QUETTA: سماجی ذرائع اور اخبارات پر چار دن سے ایک اور دردناک خبر موضوعِ بحث ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ضلع جامشورو کے گاؤں وڈا چھچھر میں چوبیس سالہ لڑکی وزیراں چھچھر کو انتہائی بےدردی اور ظلم کے ساتھ مبینہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق اسے سنگسار کیا گیا۔ عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ کے ایم ایس نے بھی لڑکی کو سنگسار کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ اس لڑکی کا چہرہ اور جسم بری طرح مسخ کردیا گیا تھا۔ جسم کی تمام ہڈیاں پتھروں اور ڈنڈوں سے بری طرح توڑی جاچکی تھیں۔

کہاں ہے ریاست اور کہاں ہے سندھ حکومت؟

آج کے جدید دور میں سرعام اور ماورائے عدالت قتل کی اس گھناؤنی واردات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سندھی وڈیروں کے اثر ورسوخ کے علاقوں میں غیرت کے نام پر عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا کچھ مشکل نہیں۔

مقتولہ وزیراں چھچھر کی سنگساری کے واقعے میں قطع نظر اس کے کہ اس پر لگایا گیا الزام درست تھا یا غلط، ایک آئین و قانون اور عدالتی نظام رکھنے والی ریاست میں کسی وڈیرے یا جرگہ کو سزا دینے اور انسانی جان لینے کا اختیار حاصل ہونا خود ریاست اور ریاستی نظام کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

سندھ میں دیہی علاقوں کو عورتوں کےلیے مقتل بنادیا گیا ہے۔ وڈیرہ شاہی قانون کے تحت مقتولہ وزیراں کی یکطرفہ سنگساری سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس پر نام نہاد غیرت کا الزام درست بھی تھا تو صرف اس لڑکی کو ہی موت کے گھاٹ اتارنے کا کیا جواز تھا؟ اس کے ساتھ شریکِ جرم مرد کو کس قانون اور اصول کے تحت سزا سے بری رکھا گیا؟

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ وڈیروں کے قانون کا نفاذ صرف عورتوں اور کمزوروں پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ ان کی نجی عدالتوں میں طاقتور اور اثر ورسوخ کے حامل ملزم، مجرم کیوں نہیں بن پاتے؟ اس کی وجہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ حکومتی قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔

وڈیروں کی نجی عدالتوں یا کچہریوں کے فیصلوں پر اسی طرح عمل درآمد ہوتا رہا تو کیا وڈیرہ راج ریاست کے اندر ریاست کی مانند نہیں ہوجائے گی؟

کیا اس شرمناک جرأت سے ملک کے دیگر علاقوں میں ماورائے قانون و عدالت اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟

اس واقعے پر انصاف کےلیے سماجی ذرائع اور مختلف علاقوں میں احتجاج کے باوجود انتظامیہ اور سندھ حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ یہ سندھ حکومت اور وڈیرہ شاہی کی ملی بھگت کی شرم ناک مثال ہے۔

دوسری جانب سنگساری کے اس واقعے پر مذہبی جماعتوں اور علما کی طرف سے بھی کوئی قابلِ ذکر ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ ''سنگساری'' اسلامی ریاستی قوانین کے تحت خالصتاً ایک اسلامی سزا ہے۔ پاکستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود اسلامی نظام کے نفاذ سے محروم ہے۔ ایسی صورت میں اسلامی سزاؤں کو اپنے ناپاک عزائم کےلیے استعمال کرنا اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔ ہماری عدالتوں میں ہتکِ عزت کے قوانین میں ''اسلام'' کا کوئی پرسانِ حال نہیں؟

کیا علمائے کرام کا فرض نہیں تھا کہ سندھی وڈیروں کی طرف سے اسلامی حدود کے غلط استعمال اور اسلام کو بدنام کرنے کے عمل کے خلاف آواز بلند کرتے؟ علمائے دین کی اس غفلت کی وجہ سے ایسے واقعات اگر جاری رہتے ہیں تو کیا وہ اس کے وبال سے بری الذمہ ہوں گے؟

مقتولہ وزیراں کی سنگساری کے واقعے کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی یا تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں تو یہ حکومت کی اپنی حدود میں عملداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

سندھ میں وزیراں چھچھر کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی خواتین کو غیرت کے نام پر، رشتے سے انکار یا شادی کا پیغام رد کر دینے کے نتیجے میں کاری ہونے کا الزام لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جانا وڈیرہ شاہی نظام میں عام ہے۔ عورتوں کے حقوق کی چیمپیئن سندھ حکومت، بلاول بھٹو زرداری، سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کو اس درندگی کا نوٹس لینا چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس درندگی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

وزیراعظم صاحب! دیہی علاقوں کو خواتین کےلیے مقتل بنادیا گیا ہے۔ آپ کی بیٹیاں نام نہاد غیرت کے نام پر مفادات کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہیں۔ اس غیرت کی قیمت آپ کا فرسودہ اور لاچار عدالتی نظام ہے۔ یہ کیسی ''مدینے کی ریاست'' ہے کہ ریاست کے قانون کے بجائے ظالم وڈیرے فیصلے کرنے اور سزا دینے کےلیے آزاد ہیں اور آپ خاموش تماشائی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں