پی ٹی آئی کے بغیر پنجاب کے دو یتیم اضلاع
دونوں اضلاع میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے سارے اُمیدوار بہت بُری طرح ہار گئے تھے۔
مجھے یہ کالم لکھنے کی شاید ضرورت نہ پڑتی اگر مجھے براہِ راست پنجاب کے ان دو یتیم ، مسکین اور مظلوم اضلاع کے بالتفصیل مشاہدات کے حالیہ مواقعے نہ ملتے۔ اس کڑکتی دھوپ اور حبس آلود موسم میں ایسے ''مشاہدات'' کے مواقعے نہ ہی ملیں تو بہتر ہے۔
ہمارے پارلیمانی نظام ِ حکومت میں گزشتہ برسہا برس سے یہ چلن آ رہا ہے کہ ملک بھر میں ہر وہ ضلع یا تحصیل جس نے اقتدار میں آنے والی پارٹی کو ووٹ نہ دیے ہوں ، اُس کے باسیوں کا جینا حرام بنا دیا جاتا ہے ۔ اُس علاقے یا خطے کے تمام مکین حکمرانوں اور مقتدر جماعت کی طرف سے اچھوت اور شودر بنا دیے جاتے ہیں ۔ اُن سے ایسا ہیبت ناک سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ اس ملک کے باشندے ہی نہ ہوں ۔ عملی طور پر انھیں باور کروایا جاتا ہے کہ تم لوگوں نے ہماری ( مقتدر) پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تھا اور نہ ہماری مقتدر جماعت کے اُمیدواروں کو جتوایا تھا، تو پھر اب بھگتو یہ عذاب بھی !
میرے تازہ بہ تازہ مشاہدات میں آنے والے پنجاب کے دو اضلاع بھی حکمران پارٹی کی طرف سے عذابوں میں مبتلا کیے جانے والے علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں : ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال !!دونوں اضلاع میں 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے سارے اُمیدوار بہت بُری طرح ہار گئے تھے۔ خانصاحب اور عثمان بزدار صاحب کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا عذاب بھی یہی اضلاع بھگت رہے ہیں ۔
ضلع سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کی کامل اور افسوسناک انتخابی شکست کے باوجود اس ضلع کو وزیر اعظم جناب عمران خان نے Compensateکرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی ۔ مثال کے طور پر: محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھاری اکثریت میں ہارنے کے باوجود خانصاحب نے انھیں وفاقی وزارت کا قلمدان بخشا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ خانصاحب کا اعتماد اور اعتبار کھو بیٹھیں ۔ نتیجے میں وزارت کا ٹَور ٹپا بھی ہاتھ سے جاتا رہا ۔
نوجوان سیاستدان عثمان ڈار صاحب بھی اِسی ضلع سے متعلق ہیں ۔ وہ بھی انتخابی میدان میں ہارے ہُوئے ہیں لیکن اس کے باوصف خانصاحب نے انھیں امورِ نوجوانان (Youth Affairs) کی وزارت کی جملہ ذمے داریاں تفویض کررکھی ہیں ۔ یہ ذمے داریاں وہ کس ''خوش اسلوبی '' سے نبھا رہے ہیں ، اس کا اندازہ ہمیں اپنے حالیہ دَورہ سیالکوٹ میں خود بھی خوب ہُوا ہے ۔ کاش مَیں بڑی تعداد میںسیالکوٹی تعلیم یافتہ مگر بیروزگار نوجوانوں کی اُن کے لیے کی گئی ''دعاؤں'' کے الفاظ یہاں لکھ سکتا۔
ہمارے دیرینہ دوست ، چوہدری غلام عباس، کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے ۔ وہ سابق وزیر بھی ہیں اور ضلع سیالکوٹ کی ایک مشہور سیاسی شخصیت بھی ۔ غلام عباس کا دعویٰ ہے کہ انھیں خانصاحب نے خود گھر آ کر پی ٹی آئی کے لیے ایم این اے کا ٹکٹ دیا تھا۔ وہ بھی مگر صرف چند ووٹوں سے، نون لیگی اُمیدوار سے ، ہار گئے ۔ غلام عباس شکوہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ جس طرح شکست خوردہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار کو خانصاحب نے بے حد نوازا ہے انھیں بھی حکومت میں کوئی اچھا سا عہدہ دیا جائے۔
اس تازہ ترین گرداوری اور آوارہ گردی کے دوران مجھے ضلع سیالکوٹ کے دوبڑے شہروں (سیالکوٹ اور پسرور) اور ان سے منسلک کئی دیہاتوں اور قصبات کی کئی اہم شخصیات کو براہِ راست ملنے اور اُن کے خیالات و جذبات جاننے اور سُننے کے مواقع میسر آئے ہیں ۔اس ضلع کی بدقسمتی ہے کہ یہ پی ٹی آئی سے خالی ہے ۔ پی ٹی آئی نے شکست کھا کر خود بھی کوئی کوشش نہیں کی ہے کہ اپنی خدمات سے اس خلا کو پُر کیا جائے اور ووٹروں کے دل جیتے جائیں ۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی نے دانستہ یہاں کے ووٹروں کو مزید خود سے دُور کر لیا ہے ۔یقیناً اس کے نتائج اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی والے بھگتیں گے ۔
مرکزی اور پنجاب کی صوبائی حکومت ضلع سیالکوٹ کے باسیوں کو یہ سزا دے رہی ہے کہ انھوں نے نون لیگ کے خواجہ آصف اور علی زاہد کو ایم این اے کیوں بنوایا ؟چنانچہ بربادی ، سماجی ابتری ، لاقانونیت اور بے روزگاری نے اس ضلع کو اپنا ہدف اور دُھر بنا لیا ہے ۔ حکمران جماعت کا کوئی بندہ یہاں سے منتخب نہیں ہوا ۔ پھر لوگ اپنے دکھوں کی پٹاری کس کے سامنے جا کر کھولیں ؟ سیالکوٹ شہر سے جو مین روڈ پسرور شہر اور سیالکوٹ سے جو سڑک ظفروال کی طرف جاتی ہے ، ان دونوں کی تباہی اور بھیانک صورتحال زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں : ہم یتیم ہو چکی ہیں ۔
اور ضلع نارووال؟ مت پوچھئے اس کی یتیمی اور بربادی کا حال ۔ کئی سال پہلے میاں محمد نواز شریف نے تحصیل نارووال کو اُس وقت ضلع بنا دیا تھا جب (سندھ سے اپنے حلقے میں ہارنے کے بعد) غلام مصطفیٰ جتوئی کو یہاں سے ایم این اے بنوایا گیا تھا۔اور اب پچھلے کئی برسوں سے کئی بار جناب احسن اقبال نون لیگ کے ٹکٹ پر یہاں سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوتے آ رہے ہیں ۔بھاری اکثریت سے۔ وہ کئی بار وزیر بنے ہیں ۔انھوں نے اپنی وزارتوں کے ادوار میں نارووال حلقے کی کایا پلٹ دی ۔ یہاں عالمی سطح کا اسٹیڈیم بنایا۔ دو یونیورسٹیاں تعمیر کیں ۔ نیا اور جدید سہولتوں سے مزین ڈی ایچ کیو استوارکیا۔ آئی ٹی کالج بنایا۔ ریلوے اسٹیشن کو نئی شکل دی ۔ضلع میں سوئی گیس پہنچائی جس کے بارے کبھی نارووالیوں نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔اب گزشتہ دو سال کے اندر اندر نارووال ضلع اور شہر کی ساری ترقی Upside Downہو چکی ہے ۔ اور احسن اقبال مختلف مقامات پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
ضلع نارووال میں کرتار پور راہداری بننے اور دربار کرتار پور صاحب پر مبینہ طور پر14ارب روپے لگانے سے اس کی شہرت میں تو بجا طور پر اضافہ ہُوا لیکن کرتارپور صاحب سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر شکرگڑھ تحصیل کے مرکز سے تحصیل ظفروال تک جانے والی سڑک پر چند کروڑ روپے خرچ نہیں کیے جا سکے ۔ اس لیے کہ یہاں سے کوئی ایم این اے اور ایم پی اے پی ٹی آئی کا نہیں ہے ۔ خواتین کی مخصوص سیٹوں پر پی ٹی آئی نے شکر گڑھ سے محترمہ وجیہہ اکرم کو ایم این اے ضرور بنا دیا تھا لیکن یہ محترمہ بھی شکر گڑھیوں کی بگڑی بنانے میں مددگار نہیں ہو رہی ہیں ۔
ضلع نارووال کی تحصیل شکرگڑھ سے نون لیگ کے پلیٹ فارم سے (سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کی اہلیہ) محترمہ مہناز عزیز ایم این اے منتخب ہُوئی تھیں ۔ اور نون لیگ کے ٹکٹ پر مولانا غیاث الدین ایم پی اے۔ پی ٹی آئی کے شکست خوردہ علاقوں میں ووٹروں اور نون لیگی سیاستدانوں کو جس طرح مصائب کے شکنجے میں جکڑدیا گیا ہے ، تنگ آ کر نون لیگی ایم پی اے مولانا غیاث الدین صاحب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی کے اُس گروہ میں شامل ہو گئے ہیں جنھوں نے گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار سے ملاقات کرکے انھیں اپنی محبتوں کا یقین دلایا ہے ۔
ایم پی اے مولانا غیاث الدین صاحب سے اس ضمن میں فون پر میری بات ہُوئی تو وہ بولے : ''مَیں اپنے ووٹروں کو مصائب اور مسائل کی چکی میں پستے مزید نہیں دیکھ سکتا۔'' اس تھوڑی کو ہی زیادہ سمجھیے ۔حیرت انگیز بلکہ افسوسناک خبر یہ ہے کہ پنجاب کے ان دونوں یتیم اضلاع کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کرنے کی سہولت بھی موجود نہیں ہے ۔ پھر مولانا غیاث الدین(عوامی مفادات میں) آگے بڑھ کر عثمان بزدار صاحب کا دامن تھامنے کی کوشش کیوں نہ کریں؟