مجبوریاں
اعلیٰ عدلیہ نےتواپنا فرض نبھا لیا لیکن اُس پرعملدرآمد کیلیے جس حوصلے اورہمت کی ضرورت ہے وہ جمہوری حکام میں موجودنہیں
بحیثیت اپوزیشن رہنما میاں صاحب سابقہ زرداری حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بہت کچھ دعوے اور وعدے کیا کرتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جب وہ وزیرِ اعظم بن کر تیسری بار اپنا عہد شروع کریں گے تو زبردست اولالعزمی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے بے خوف اور نڈر ہو کر اپنے فولادی عزائم اور ارادوں کو جلا بخشیں گے۔ لیکن آنکھیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں جب ہم میاں صاحب کو اُتنا ہی بے بس اور مجبور پاتے ہیں جیسے وہ سابقہ دور میں دکھائی دیا کرتے تھے۔ کہنے کو تو آج اُنہیں ایک بار پھر زبردست عوامی مینڈیٹ ملا ہے جہاں حکومت بنانے کے لیے اُنہیں کسی دوسری جماعت کی منت سماجت نہیں کرنا پڑی اور وہ تنہا اِس قابل ہو سکے کہ مرکز اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپنی پارٹی کی باآسانی حکومت بنا سکیں۔ مسائل کی گھمبیری مالی وسائل کی کمی یقینا اُن کے ارادوں اور منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے لیکن اِس کے علاوہ بھی گزشتہ چھ ماہ میں بہت سے مراحل ایسے آئے ہیں جہاں اُن کے فیصلوں میں کمزوری اور مجبوری کا تاثر عیاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ خاص کر لاپتہ افراد کے کیس میں وہ بالکل بے بس اور لاچار نظر آئے۔ سپریم کورٹ ذمے داروں اور لاپتہ ہونے والوں کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کرتی رہی لیکن حکام ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔
وزیرِ اعظم کو جب عدالت کے روبرو پیش ہونے کی تنبیہ دی گئی تو جھٹ پٹ وزیرِ دفاع کا قلمدان اپنے سر سے اُتار کے جناب خواجہ آصف کے سر لاد دیا اور اب یہ غریب شخص پانی اور بجلی جیسی اہم وزارت کے فرائض منصبی نبھاتے نبھاتے سپریم کورٹ کی ڈانٹ اور جھڑکیاں سننے پر مامور ہو کر دیا گیا۔ عدالت ایک عرصے سے لاپتہ افراد کے کیس میں نرمی دکھاتی رہی لیکن اب چیف جسٹس کیونکہ ریٹائر ہو رہے ہیں لہذا اُنہوں نے یہ تہیہ کر لیا کہ کم از کم عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کا یہ اہم کیس وہ ادھورا نہیں چھوڑیں گے اور معاملے کی تہہ تک پہنچ کر لوگوں کو غائب کر دینے کا یہ سلسلہ کسی حد تک معدوم کر جائیں گے۔ اِس ملک کے شہریوں کو شک کی بنیاد پر گھروں سے اُٹھا کر غائب کر دینے اور بعد ازاں برسوں تک لواحقین کو اُن کی خیریت سے محروم رکھنا ایک ایسا افسوس ناک عمل ہے جو ہمارے معاشرے میں غیر جمہوری آمرانہ رویوں کی نشاندہی کر تا ہے۔
عدلیہ کے مسلسل اصرار کے باوجود جب لاپتہ افراد کے معاملے میں ذمے داروں کی بے اعتنائی حد سے گزر گئی تو مجبوراً عدلیہ کو دھمکی آمیز طریقہ کار اختیار کر تے ہوئے سخت فیصلے کا عندیہ ظاہر کرنا پڑا اور حکام کو نتیجتاً کہیں نہ کہیں سے لاپتہ افراد کو برآمد کر کے عدلیہ کے روبرو پیش کرنا ہی پڑا۔ اِس معاملے میں میاں صاحب کو جس قدر خفت اور ندامت اُٹھانا پڑی اُس کا اندازہ تو وہ خود کر سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت کُھل کر عیاں ہو گئی کہ ہمارے یہاں جمہوریت بظاہر کتنی ہی مضبوط اور توانا ہو جائے مگر نا دیدہ طاقتور حلقوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی۔ لاپتہ افراد کو کس نے غائب کر کے لاپتہ بنا دیا یہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں لیکن لوگوں کی زبان اُن کا نام لیتے ہوئے بھی لرزاں ہے۔ حکومت سے باہر رہ کر جو کام بہت سہل اور آسان دکھائی دیتا تھا میاں صاحب کو آج اُس کی اصلیت اور حقیقت معلوم ہو چکی ہو گی کہ عدلیہ کے سامنے بھی وہ اُن کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔
اِسی طرح میاں صاحب اپنی سابقہ محرومیِ اقتدار کی ایک بڑی وجہ معرکا کارگل کو ٹہراتے ہوئے اُس کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ بڑے اضطراب اور شدت کے ساتھ کیا کرتے تھے لیکن اب قدرت نے اُنہیں جب خود یہ موقعہ عنایت فرمایا ہے تو وہ اپنے اِس مطالبے سے دستبردار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وزیرِ اعظم کو اتنے اہم معرکے سے لاتعلق اور بے خبر رکھنا اگر سوچا جائے تو کوئی چھوٹا جرم نہیں تھا۔ میاں صاحب اگر اب بھی اپنے اِس اعترافِ ہزیمت کی صداقت پر قائم و دائم ہیں تو کمیشن کی تشکیل کے مطالبے سے انکاری کیوں ہیں۔ جب ہندوستان کی حکومت ایک آزاد کمیشن بنا کر اپنی غلطیوں اور خامیوں کا پتہ لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی تو بھلا ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ بات پھر اُس مجبوری اور بے بسی کی ہے جس کا اعتراف کرتے ہوئے بھی ہمارے حکام خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ آج میاں صاحب کارگل کی اُس جنگ کے بارے میں جس نے اُنہیں اقتدار سے بھی محروم کر دیا تھا لب کشائی سے بھی گریزاں ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے اِس دور اقتدار میں انھوں نے ایک بار بھی میڈیا کے سامنے اُسے یاد کر کیا اپنی تلخ یادوں کو نہیں دہرایا۔
اُن کے فولادی عزائم کے یوں پگھل جانے کی وجہ تو وہ خود جانتے ہونگے لیکن عوام حیران اور انگشت بدنداں ہیں کہ میاں صاحب آج اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں بھی اُتنے ہی لاچار اور بے بس ہیں جتنے وہ 12 اکتوبر1999 کی شام کو تھے۔ آج اُنہیں اپنے اقتدار کی عظمت و جلال کا اندازہ تو ہو چکا ہو گا پھر معلوم نہیں وہ کیوں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ایک ایسے جنرل کی طاقت اور عظمت کو آزمانا چاہتے ہیں جس نے اُنہیں مبینہ طور پر کارگل میں معرکا آرائی سے بے خبر رکھا تھا۔ میاں صاحب کے لیے بہتر یہی ہے کہ زرداری پالیسی اپناتے ہوئے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے خود کو روکے رکھیں اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے اپنا وقت گزار لیں ورنہ اداروں سے لڑائی کا الزام تو اُن پر پہلے ہی لگا ہوا ہے بس اُس کی تجدید کو بنیاد بنا کر سارا کام تمام ہو سکتا ہے۔ اِس ملک میں جو کام آج تک نہیں ہو پایا وہ اُسے خود کرنے کی بجائے دوسروں کے لیے چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔
آئین و دستور کی پامالی اور بغاوت جیسے مقدمات اگر ایک عام آدمی یا سیاستدان کے خلاف ہوں تو اُن کے فیصلوں پر عملدرآمد ممکن ہے لیکن اگر یہ اِس ملک کا نظام چلانے والے پسِ چلمن عناصر ہی کے خلاف ہوں تو پھر یہ ایک سعی رائیگاں ہی کہلائی جا سکتی ہے۔ جو حکام سپریم کورٹ کے سامنے لاپتہ افراد کے ذمے داروں کا نام تک نہ لے سکتے ہوں وہ بھلا آئین سے بغاوت کا مقدمہ کِس طرح پرسو PURSUE کر سکتے ہیں۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ ہمارے سامنے موجود ہے جو طویل انتظار کے بعد ممکن ہو سکا لیکن عملدرآمد ندارد۔ اعلیٰ عدلیہ نے تو اپنا فرض نبھا لیا لیکن اُس پر عمل درآمد کے لیے جس حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے وہ کم از کم ہمارے جمہوری حکام میں موجود نہیں۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے زمینی حقائق سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے توانا اور طاقتور ہونے میں ابھی اور طویل عرصہ درکار ہے۔ اِسے خاموشی سے یونہی چلتا رہنے دیں۔ رفتہ رفتہ وہ دن بھی آ جائے گا جب طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہوں گے۔