’’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘‘…
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں ہرشخص حسب لیاقت،حسب صلاحیت،حسب توفیق اورحسب استطاعت ملک کی تنزلی کیلئے سرگرم عمل ہے
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں ہر شخص حسب لیاقت، حسب صلاحیت، حسب توفیق اور حسب استطاعت و خواہش اور ہر ادارہ حسب توفیق و صلاحیت ملک کی تنزلی کے لیے سرگرم عمل دکھائی دیتا ہے، دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں دیکھنے والے کا قصور بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی دیکھنے والے کو جو نظر آ رہا ہے در اصل ویسے نہ ہو ... ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ ''مگر وطن عزیز نے 66 برس میں ابھی منازل عروج طے ہی کب کیں تھی کہ سفر زوال کا آغاز ہو جائے۔ بظاہر تو بے چارے حکمران دیس دیس پھر رہے ہیں کہ کسی صورت کچھ مسائل حل ہو جائیں۔ ایک ملک سے واپس آ کر سامان کھولتے نہیں کہ دوسری روانگی کا بِگل بج جاتا ہے۔ لیکن فی الحال حاصل حصول کچھ نہیں۔ ادھر ملک میں کسی سطح پر، کسی گوشے میں، کسی زاویے سے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کی کارکردگی دیکھ کر کچھ اطمینان قلب ہو۔ اخلاقی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی ہر سطح پر انحطاط ہی نظر آ رہا ہے ''اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی'' کی کہاوت شاید ہمارے ملک کے لیے ہی وضع کی گئی تھی۔
ابھی مسئلہ شہادت پر قوم متفق نہ ہوئی تھی کہ نیٹو سپلائی روک کر ڈرون حملے بند کرانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ قوم اس ایشو پر بھی بٹ چکی ہے جس کا متفق ہونا محال نظر آ رہا ہے۔ کچھ دانشوران قوم کا خیال ہے کہ یہ معاملہ بالکل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور امریکا بہادر کی ناراضگی کا سبب بن سکتا ہے۔ جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ جب کہ نیٹو سپلائی کے متبادل راستے موجود ہیں اور فوری طور پر امریکا کو کوئی فرق بھی نہیں پڑ رہا بلکہ یہ سب کچھ قومی مفاد کی بجائے ذاتی و سیاسی مفاد کا شاخسانہ لگ رہا ہے۔ انتخابات میں حسب پسند اور خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرنے پر اب اپنی مشہوری کے لیے یہ ڈراما رچایا گیا ہے یا یہ کہیے کہ راستہ اختیار کیا گیا ہے کہ میڈیا کو اپنی جانب متوجہ رکھ کر اپنی مقبولیت کے ڈھول ایک بار پھر پیٹے جائیں جو انتخابات سے قبل بھی خوب پیٹے گئے تھے اگر بقول نقادوں کے یہی صورت حال ہے تو بھی کچھ ناجائز نہیں، ہر شخص اور سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام کو اپنی جانب متوجہ کرے، طریقہ کار چاہے کچھ بھی ہو۔
درحقیقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک اس قسم کے طرز عمل، دھرنوں اور ایسی صورت حال کا متحمل ہو بھی سکتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ جس تیزی سے عوام کا پیمانہ صبر لبریز اور ملکی اداروں کی کارکردگی روبہ زوال ہے پھر سر پر ہر وقت دہشت گردی کی تلوار لٹکی رہتی ہے کیا ایسے حالات میں اس قسم کے اقدام ملکی مفاد میں ہو سکتے ہیں؟ گزشتہ دنوں قانون دانوں نے جو قانون کی دھجیاں بکھیری ہیں یا قانون نافذ کرنے والوں نے جس انداز سے قانون نافذ کرنا چاہا اس سے تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ہر شخص صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکا ہے۔ ہر سطح پر ہر طرح سے ہر شخص اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔ کیا آئین، کہاں قانون، کیسی ذمے داریاں اور کیسی معاشرتی اقدار ... اس صورت حال کا طویل پس منظر ہے۔ سمجھیے کہ پریم چند کے مشہور افسانے ''کفن'' والی کیفیت ہے کہ جب نہ پیٹ بھر کر کھانے کو ملے اور نہ کسی کی عزت نفس محفوظ رہے تو پھر بے حسی ڈیرے ڈالتی ہے۔ پھر کوئی اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی اقدار پیش نظر نہیں رہتیں۔ انسان صرف دو وقت کی روٹی کے لیے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جو بس چلتا ہے وہ کرتا ہے۔ لہٰذا ہر ادارہ اپنی من مانی کرنے میں مصروف ہے۔ کراچی میں کئی ماہ سے ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے۔ نامعلوم کس کے خلاف کیوں کہ اتنی پکڑ دھکڑ کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر درجن بھر افراد کا قتل، اغوا برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم، تشدد اور ڈاکا چوری کی وارداتیں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے ٹیکس ریلیف پیکیج کا اعلان فرمایا، ملک کی بگڑی معاشی و صنعتی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں سے یہ ایک کوشش ہے تا کہ وہ سرمایہ جو ظاہر نہیں کیا جا رہا اس کو ملکی ترقی کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ اس سلسلے میں سرمایہ داروں کو کئی پرکشش ترغیبات دی گئی ہیں کہ اگر وہ سرمایہ کاری کریں تو ان کو کئی مراعات دی جائے گی۔ اسی طرح لوگوں کو ٹیکس کی ادائیگی پر راغب کرنے کے لیے بھی سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے۔ خدا کرے کہ اس طرح لوگ ملک میں سرمایہ کاری کریں اور ملکی ترقیاتی کاموں اور اداروں میں استحکام آئے۔ وزیر اعظم نے سو فیصد سے لے کر پچیس (25) فیصد تک ٹیکس ادا کرنے والوں کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کیا ہے تا کہ لوگ ٹیکس ادا کر کے ملکی خزانے میں اضافہ کر سکیں۔ یہ اس پیکیج کا مثبت پہلو ہے جب کہ کچھ لوگوں کے خیال میں منفی پہلو یہ ہے کہ یہ پیکیج در اصل کالے دھن کو سفید کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ورنہ 25 فیصد ٹیکس ادا کرنے پر کسی قسم کی مراعات کا کیا مطلب؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس پر جتنا ٹیکس عائد ہوا ہے وہ پورا ادا کرے، آخر ملازمت پیشہ افراد سے بھی تو انکم ٹیکس پورا پورا وصول کیا جاتا ہے پھر سرمایہ داروں کو کیوں چھوٹ دی جائے؟ ان لوگوں کے خیال میں غیر قانونی ذرایع سے حاصل کردہ رقم سے کروڑ پتی بننے والوں کو مزید سرمایہ جمع کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا گیا ہے۔ بہر حال لوگوں کی ہر معاملے پر اپنی اپنی رائے ہوتی ہے یہ تو ماہرین معاشیات بتائیں گے کہ یہ پیکیج ملک و قوم کے لیے کس قدر فائدہ مند ہے۔
قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے گزشتہ دنوں بڑے پتے کی بات کہی ''کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کو طالبان کی حمایت حاصل ہے۔'' خورشید شاہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں ان پر آج انتخابات کے چھ ماہ بعد یہ انکشاف ہوا جب کہ ہم جیسے کم فہم کئی کالم نگار، انتخابات سے قبل ہی بڑے بڑے جلسے اور شاندار اجتماعات کے پر امن انعقاد پر پہلے ہی یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ آخر کیا بات ہے کہ ان دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ کچھ مذہبی جماعتوں کے کسی بڑے سے بڑے جلسے میں ایک پٹاخہ بھی نہیں پھوٹا جب کہ باقی سیاسی پارٹیوں کو تو ایک کارنر میٹنگ تک نہ کرنے دی گئی۔ بلکہ ان کے دفاتر پر فائرنگ کر کے ورکرز کو زخمی اور ہلاک تک کیا گیا۔ کئی کارکنان کا اغوا بھی ہوا۔ ... ملک کا عام شہری بھی اس صورت حال سے اچھی طرح واقف تھا کہ ''دال میں کچھ کالا تو ہے'' کہ جلسے بھی ہر شہر میں دھوم دھام سے ہو رہے ہیں اور ٹی وی چینلز پر بھی بھرپور کوریج مل رہی ہے، کچھ لوگوں نے تو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف زہر تو اگل رہی ہیں مگر ہیں ایک سکے کے دو رخ۔ بہر حال شاہ صاحب نے پہلے شاید کسی مصلحت کے تحت اظہار خیال فرمانا مناسب نہ سمجھا ہو اور اب کسی اور مصلحت کے تحت حقیقت بیان کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ معلوم نہیں پہلی مصلحت درست تھی یا بعد کی؟
ادھر ایم کیو ایم کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات پر تحفظات ہیں کہ اس طریقہ انتخاب سے شہری اور دیہی عوام کے درمیان خلیج پیدا کی جا رہی ہے اور بے اختیار بلدیاتی نمایندوں کو منتخب کرا کے صوبائی حکومت تمام اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جس کے باعث بلدیاتی نمایندوں کو ہر کام وزیر اعلیٰ کے حکم کے مطابق کرنا پڑ ے گا۔ اس طرح تو اختیارات عوام کی نچلی سطح تک پہنچ ہی نہ پائیں گے۔ یہ تمام اقدامات غیر قانونی اور جمہوریت کی روح کے منافی ہیں، یوں جمہوری دور میں جمہوریت کا قتل عام ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں عدالت تک جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اب دیکھیے یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟