بلاول کا عزم جواں

پی پی پی کا عوام دوست منشوراورمعروف عوامی نعرہ روٹی،کپڑا اورمکان کل کی طرح آج بھی کروڑوں غریبوں کے دل کی آواز ہے


MJ Gohar December 11, 2013
[email protected]

پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے 47 ویں یوم تاسیس پر کراچی میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی جاگیردار، مُلا یا کھلاڑی کی میراث نہیں ہے اور نہ ہی اس جماعت کے ساتھ ن، ف اور ق لگا ہوا ہے کہ یہ لفظ ہٹ جائے تو پارٹی ختم ہو جائے، پی پی پی عوام کی پارٹی ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بلاول بھٹو نے واضح طور پر کہا کہ 2018سے قبل دنیا کو دکھا دیں گے کہ پیپلز پارٹی پہلے سے بھی زیادہ مضبوط، متحد اور منظم جماعت ہے۔ بلاول بھٹو نے نواز حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی اور عوام کی حالت زار اور ملک کو درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے غریب آدمی سے منہ کا نوالہ چھینا جا رہا ہے، سبسڈی ختم کر دی گئی ہے، بجلی کے بل ڈبل ہو گئے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بند کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جا رہا ہے جو کہ ایسے لوگوں پر ڈالا جانا چاہیے جو اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے حکومت معاشی پالیسی کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک سنگین معاشی بدحالی کا شکار ہے اور حکمران نج کاری کے نام پر قومی ادارے اپنے دوستوں کو دے رہے ہیں جو پرائیویٹائزیشن نہیں بلکہ پرسنلائزیشن ہے جسے پی پی پی کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔

ملک کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی وہ واحد مقبول سیاسی جماعت ہے جسے عوام کی اکثریت نے اپنی تائید و حمایت سے چار مرتبہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جو اس جماعت کے بانی و قائد ذوالفقار علی بھٹو سے والہانہ محبت اور جذباتی و قلبی لگاؤ کا عملی ثبوت ہے ۔ کسی اور سیاسی جماعت کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو سکا۔ بھٹو صاحب نے 1960کی دہائی میں سیاسی میدان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے عوام کی توجہ حاصل کی اور 1966 میں حکومت سے علیحدگی کے بعد عوام کے درمیان چلے گئے۔ ان کی کرشماتی شخصیت اور عوام کے دلوں میں اتر جانے والے جادوئی انداز تخاطب کے باعث کراچی تا خیبر لوگ جوق در جوق ان کے قافلہ سیاست میں شامل ہوتے چلے گئے۔ 30 نومبر 1967کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا۔ بھٹو غریب کسانوں، ہاریوں، مزدوروں، طالب علموں اور پسماندہ طبقے کی آواز بن کر ابھرے اور لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرتے چلے گئے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971 کو بھٹو صاحب نے تباہ حال اور شکستہ پاکستان کا اقتدار سنبھالا اس وقت قوم مایوس اور مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا لیکن بھٹو نے عوام کی طاقت سے نا امیدی سے امید کی جانب سفر شروع کیا عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی خوشحالی و ترقی کے متعدد منصوبے شروع کیے یہاں تک کہ پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنانے کا بیڑہ بھی پار لگا دیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے، عوام کی خوشحالی اور ملکی ترقی و استحکام کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھٹو خاندان کی خدمات اور قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تاریخ میں امر ہو چکی ہیں اور دنیا کا کوئی مورخ ان کو جھٹلا نہیں سکتا۔

پی پی پی کا عوام دوست منشور اور معروف عوامی نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان کل کی طرح آج بھی ملک کے کروڑوں غریبوں کے دل کی آواز ہے۔ بھٹو شہید پاکستان کو عالم اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنانا چاہتے تھے وہ مرحوم شاہ فیصل، کرنل قذافی، یاسر عرفات و دیگر مسلم حکمرانوں کے ساتھ مل کر اسلامی بلاک بنانے کے خواہاں تھے جو سامراجی اور اسلام دشمن قوتوں کو کسی بھی صورت قبول نہ تھا۔ نتیجتاً 5 جولائی 1977 کو نہ صرف بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا بلکہ بھٹو کے آئینی عزائم و ارادوں سے خوفزدہ قوتوں نے انھیں رات کی تاریکی میں ابدی نیند سلا دیا۔ بعدازاں بھٹو شہید کی لاڈلی بیٹی بے نظیر بھٹو نے والد کے سیاسی ورثے کا علم سنبھالا اور قومی و عالمی سطح پر مدبر سیاستدان کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ عوام کی بھرپور حمایت سے دو مرتبہ اقتدار میں آئیں۔ انھوں نے اپنے والد شہید بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے اور میزائل ٹیکنالوجی سے قومی دفاع کو مستحکم کیا لیکن سازشی قوتوں نے دونوں مرتبہ اقتدار سے بے دخل کر دیا اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے سے قبل 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کو ایک دہشت گردی کی واردات میں شہید کر دیا گیا۔ یہ تو صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے کسی سازشی تھیوری کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور ان کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت نے پہلی مرتبہ 5 سالہ آئینی مدت پوری کر کے ملکی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی پھر 11 مئی کے انتخابی نتائج کو جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کی خاطر قبول کر لیا اور اقتدار پر امن طریقے سے مکمل آئینی و جمہوری انداز میں (ن) لیگ کے حوالے کر دیا۔

آج ملک میں (ن) لیگ کی حکومت ہے لیکن عوام میں سخت مایوسی و بددلی اور بے چینی پھیل رہی ہے کیونکہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عوام کو غربت، بے روزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، امریکی غلامی، ڈرون حملوں سے نجات دلانے اور ملکی معیشت کے استحکام کے جو وعدے کیے تھے وہ انھیں پورا کرنے کی بجائے کشکول گدائی لیے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرداں ہیں عوام کی چیخ و پکار انھیں سنائی نہیں دے رہی ہے آج مہنگائی و گرانی کا یہ عالم ہے کہ سبزی، دال، گوشت، دودھ، دہی جیسی عام اشیا کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں غریب آدمی آلو، پیاز اور ٹماٹر خریدنے سے بھی قاصر ہے، جب کہ نواز حکومت نج کاری کے نام پر اپنے من پسند افراد کو ''نوازنے'' کے لیے آئی ایم ایف کی ایما پر قومی اداروں کو فروخت کرنے کے درپے ہے۔

پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے باوقار ادارے جن سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، نج کاری کے لیے حکومت کی ''ہٹ لسٹ'' پر ہیں اس ضمن میں اسٹیل ملز کی سی بی اے کے چیئرمین شمشاد قریشی نے کہا کہ وہ پارٹی قائد بلاول بھٹو زرداری کے اس موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں کہ نواز حکومت پرائیویٹائزیشن کے نام پر پرسنلائزیشن کرنا چاہتی ہے اور قومی اداروں بالخصوص اسٹیل ملز ''حسب منشا'' اپنے دوستوں کو نوازنے کی خواہاں ہے۔ شمشاد قریشی نے کہا کہ وہ اسٹیل ملز کی ''پرسنلائزیشن'' کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں اور اپنے قائد شہید بھٹو کی نشانی اسٹیل ملز کو بچانے اور ملازمین کے روزگار کے تحفظ کی خاطر سڑکوں سے لے کر عدالت تک ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے اور نواز شریف کو کسی صورت ان کے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مبصرین اور تجزیہ نگار بھی حکومتی کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں یہی چیز بلاول کے عزم جواں کو مہمیز کرے گی اور پی پی پی 2018 کے انتخابی معرکے میں سب کو حیران کر دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں