سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا شیڈول ایک بار پھر مؤخر

سندھ میں اگر بلوچستان کی طرح کے انتخابات ہوئے تو وہ انتہائی متنازعہ بن جائیں گے بلکہ سندھ کی سیاسی جماعتیں ان۔۔۔


G M Jamali December 11, 2013
سندھ میں اگر بلوچستان کی طرح کے انتخابات ہوئے تو وہ انتہائی متنازعہ بن جائیں گے بلکہ سندھ کی سیاسی جماعتیں ان بلدیاتی انتخابات کو قبول بھی نہیں کریں گی۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

سندھ نے بالآخراتفاق رائے سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات 18 جنوری کی بجائے مارچ میں کرائے جائیں۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اگرچہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ایک بار پھرموخر کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ انتخابات 18 جنوری ہی کو ہوں گے۔ اس طرح ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن 18 جنوری کوسندھ میں بلدیاتی انتخابات کرا سکتا ہے یا سندھ حکومت مارچ تک یہ انتخابات موخر کرانے میں کامیاب ہوتی ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر بحث کے لیے سندھ کابینہ کا خصوصی اجلاس دودفعہ منعقد ہوا۔ پہلا اجلاس جمعہ 6 دسمبر کو منعقد ہوا تھا جس میں کابینہ کے سینئر ارکان کی رائے یہ تھی کہ 18 جنوری 2014ء کو انتخابات کرادیئے جائیں۔ انتخابات کے التواء سے سندھ حکومت کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں ہوگا لیکن بعض جونیئر ارکان اس بات پر بضد تھے کہ بلدیاتی انتخابات مارچ میں ہونے چاہئیں۔ یوں سندھ کابینہ اس معاملے پر تقسیم ہوگئی۔ اس طرح جمعہ کو فیصلہ نہ ہوسکا۔ پیر 9 دسمبر کو دوبارہ سندھ کابینہ کااجلاس منعقد ہوا اور دونوں طرف سے اپنے موقف کی تائید میں دلائل دیئے گئے طویل بحث کے بعد بالآخر جونیئر وزراء کے گروپ نے کابینہ کے اکثریتی ارکان کو قائل کر لیا اور ان کا فیصلہ ہی غالب رہا۔ اس فیصلے کو کابینہ کے متفقہ فیصلے کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ 18 جنوری کوبلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہیں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتخابی اقدامات کرنا ہیں۔ بلدیاتی انتخابات 18 جنوری کو ہوں یا نہیں؟ اس سوال کا حتمی جواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سندھ حکومت کے مارچ میں انتخابات کرانے کے حوالے سے موقف کا جائزہ لیا جائے۔ سندھ کے وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے سندھ کا بینہ کے موقف کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی سندھ اسمبلی نے منظوری دی ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کی تاریخ سندھ حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت سے مقرر کرے گی یعنی بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا تعین صوبائی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ اس کے لیے وہ صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کرے گی۔ یہ ایک قانونی پہلو ہے، جس کی توضیح سندھ کابینہ نے جس طرح کی ہے، ضروری نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن اسے تسلیم کرے ۔ کسی دوسرے صوبے نے یہ مؤقف اختیار نہیں کیا ہے۔ سندھ کابینہ کا یہ بھی مؤقف تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

یونین کونسلز ، یونین کمیٹیز اور وارڈز تقسیم ہوگئے ہیں۔ عام لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے ووٹ کہاں ہیں۔ حکومت کو بھی انتخابات کے لیے کچھ انتظامی اقدامات کرنا ہیں ۔ جلد بازی میں انتخابات کی وجہ سے ایسی خامیاں رہ جائیں گی ، جس طرح بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوران رہ گئی ہیں ۔ یہ حکومت سندھ کا بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے انتظامی مشکلات کے حوالے سے ایک جواز ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ الیکشن کمیشن اس جواز کو بھی تسلیم کرے۔ پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ کسی دوسرے صوبے نے اس طرح کا جواز پیش نہیں کیا ہے۔ بلوچستان میں سندھ سے زیادہ انتظامی مشکلات تھیں لیکن بلوچستان حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد کرا کے سب کو حیران کردیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات نے بلوچستان کے بارے میں سارا تاثر ہی تبدیل کردیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوران بہت زیادہ خامیاں رہ گئی ہیں۔

سندھ میں اگر بلوچستان کی طرح کے انتخابات ہوئے تو وہ انتہائی متنازعہ بن جائیں گے بلکہ سندھ کی سیاسی جماعتیں ان بلدیاتی انتخابات کو قبول بھی نہیں کریں گی۔ اس پر سندھ میں بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا ، جو صوبے میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ ویسے بھی بلوچستان کے زیادہ تر سیاستدانوں کا کہنا یہی ہے کہ بلوچستان میں اتنی جلدی انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر بلوچستان میں کچھ وقت دیا جاتا تو انتخابات زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتے تھے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سندھ حکومت کے مؤقف میں وزن ہے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مؤقف کو تسلیم کون کرے گا۔ پنجاب حکومت نے بھی الیکشن کمیشن کا شیڈول قبول کر لیا ہے۔ اگر سندھ حکومت کو 18 جنوری کو انتخابات کرانا پڑے تو یہ صورت حال اس کے لیے خفت کا باعث بن سکتی ہے۔

گذشتہ پیر کو چیف منسٹر ہاؤس میں سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد انتہائی غریب لوگوں کے لیے شہید بے نظیر بھٹو ٹاؤن اسکیم کے تحت 27500 پلاٹوں کی قرعہ اندازی کی تقریب منعقد ہوئی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تقریب میں سابق صوبائی وزیر سید اویس مظفر، بلاول بھٹو زرداری کی ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریب میں بھی یہی صورت حال تھی ۔ ان دونوں تقریبات کی وجہ سے بہت لوگوں کی غلط فہمیاں اور بہت سے لوگوں کی خوش فہمیاں دور ہو گئی ہیں ۔ لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ سید اویس مظفر پہلے کی طرح پارٹی قیادت کے بہت قریب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں