سیاستدانوں کی تقاریر میں ’ورائٹی‘ کیوں نہیں

ایک پارٹی صبح اور دوسری پارٹی اسی شام ایک ہی بات کہہ رہی ہوتی ہے، ایک ہی ایجنڈے پر بات ہورہی ہوتی ہے


راضیہ سید July 17, 2020
ہمارا نوجوان طبقہ سیاست دانوں اور سیاست سے بدظن ہوچکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''پنڈال سجتے، تالیاں بجتی اور بس الیکشن یا سلیکشن ہوجاتا ہے۔'' اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو واللہ بہت ظلم کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ انتخابی جلسوں کےلیے ہونے والے اخراجات، ووٹ کےلیے منافقانہ بناوٹی لہجے، سیاسی دنگل اور وہاں ہونے والی بدنظمی کے نتیجے میں کارکنان میں آپس کی لڑائیوں کو فراموش کردیتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ میں ایک غیر جانبدار پاکستانی ہوں اور بحث و مباحثے سے بہت گھبراتی ہوں، لیکن سوال صرف ایک یہ ہوتا ہے کہ آخرکار ہمارے لیڈران ایک ہی جیسی بات کیوں کرتے ہیں؟ ان کی تقریروں میں ندرت اور نکھار کیوں نہیں ہوتا؟ بلکہ سب رٹے رٹائے طوطے کی طرح آسان حلوے پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں۔

اس کا خیال مجھے کل بازار میں خریداری کے موقع پر آیا کہ لان کے ایک ایک سوٹ کےلیے سیلزمین اور دکان دار حضرات کو پریشان کیا جارہا ہے اور طرح طرح کے لوگ بازار میں موجود ہیں۔ تو آخر ہم سیاست دانوں کے ایجنڈے اور ان کی بپتا سننے کےلیے ورائٹی پسند کیوں نہیں کرتے؟

اس خیال نے مجھے تمام راستے پریشان کیا کہ آخرکار ہمارے سیاست دان لکیر کے فقیر ہی کیوں ہیں؟ کئی جلسوں میں ایسا ہوتا ہے کہ امیدوار صاحب خود سو رہے ہوتے ہیں اور اس کے مخالفین جاگ جاگ کر اس کی ویڈیو بنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ٹاؤٹ یا مخبر کی شکل میں وہیں موجود بھی ہوتے ہیں۔ پھر جب تک وہ سایسی لیڈر جاگتا ہے تب تک سوشل میڈیا پر سارے عوام بیدار ہوچکے ہوتے ہیں۔

خیر اسے تو چھوڑیئے، زیادہ مزہ تو تب آتا ہے جب ایک پارٹی صبح اور دوسری پارٹی اسی شام ایک ہی بات کہہ رہی ہوتی ہے۔ ایک ہی ایجنڈے پر بات ہو رہی ہوتی ہے، روٹی، کپڑا اور مکان، صحت، تعلیم، مہنگائی اور آبادی وغیرہ۔

اب اگلے ہی لمحے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ دیکھو بھئی دیکھو انھوں نے تو ہمارا منشور ہی چرا لیا۔ حالانکہ ایجنڈا ہی ایک تھا، مقاصد بھی ایک تھے لیکن کیا اس کو پیش کرنے کا طریقہ کار بھی ایک جیسا ہی ہونا چاہیے؟ یہ سوال طلب بات ہے۔ دوسری طرف عوام ہمارے بیچارے اللہ میاں کی گائے، ایسے سادہ کہ معلوم ہے کہ دونوں لیڈر ایک سی بات ہی کریں گے اور ہوگا پھر بھی کچھ نہیں۔ وہ بھی لگے رہو منا بھائی کی طرح ٹی وی سے چپکے رہیں گے اور یہ بالکل نہیں سوچیں گے کہ ہوسکتا ہے دونوں قائدین کے پی آر اوز اور تقاریر نویس دوست بھی ہوں اور ایکسچینج پالیسی پر یقین بھی رکھتے ہوں۔ لیکن بھئی بات وہی کہ اتنا سوچے کون؟

ہمارے ملک کی سیاست، 1973 کے آئین کے تناظر، قرض اتارو ملک سنوارو، میاں صاحب جانڑ دیو ساڈی واری آنڑ دیو، مدینے کی ریاست، سندھ کھپے اور بھٹو زندہ ہے، تک ہی محدود ہوگئی ہے۔

کیا ہم کبھی اتنی باریک بینی سے سوچتے ہیں کہ ہمیں ایسی بوگس اور گھسی پٹی تقاریر ہی سننے کو کیوں ملتی ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ ہمارے ہاں ایک روایتی ماحول ہے، جہاں سوال کرنے اور پھر سوچنے کی آزادی نہیں۔ اسی طرح نئی سوچ کو تو کبھی قبول نہیں کیا جاتا۔ کوئی اچھا فرد آبھی جائے تو اسے گندا بن کر ہی اس معاشرے کو درست کرنے کی ذمے داری سونپ دی جاتی ہے۔ سیاست دانوں کے بچے اول تو بیرون ملک عیش کررہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ہمدرد ہو بھی تو نیا ایجنڈا لے کر نہیں آسکتا۔ کیونکہ انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ تمھارے باپ دادا اس منشور کے تحت انتخابات لڑے اور کامیاب بھی ہوئے، اس لیے تم نے بھی اسی ڈگر پر چلنا ہے۔

دوسری اہم بات جسے ہم اکثر فراموش کر دیتے ہیں، وہ یہ کہ چند ایک کے سوا کئی سیاست دان کسی بھی اچھے تقریر نویس کا تقرر کرنے کا سر درد مول نہیں لیتے، جو اور جیسا کی بنیاد پر کام چلتا ہے۔ اسی بھیڑ چال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ایوان میں تقریر اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لیڈر پریس کانفرنس میں جواب دے سکتا ہے۔ ظاہر ہے بھئی ہوم ورک جو نہیں ہوا ہوتا۔

اس کا واضح ثبوت آپ کو ٹی وی پروگراموں میں ملتا ہے جہاں جو دل کرے آپ بول سکتے ہیں اور شتر بے مہار کی طرح۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی بتانے والا نہیں۔ ہاں بعد میں پارٹی ٹوئٹر پر معافیاں مانگتی ہے یا کسی وزیر مشیر کے استعفے یا برطرفی کا معاملہ سامنے آجاتا ہے۔

انہی وجوہات کی بنا پر ہمارا نوجوان طبقہ سیاست دانوں اور سیاست سے بدظن ہوچکا ہے۔ کوئی بھی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے سپنے سے ہی باہر نہیں نکلتا۔ ان نوجوانوں میں سیاست کےلیے مناسب اور سازگار ماحول نہ پاکر مایوسی جنم لیتی ہے اور وہ سیاست پر تنقید کرتے ہوئے بالکل نہیں سوچتے کہ قائداعظم بھی ایک سیاست دان تھے۔ آخر ہم آج کے سیاست دانوں کی مثال دینے کے بجائے قائداعظم جیسے لیڈر، اور ان جیسے سیاسی قائد بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ہم اپنی سوچ تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ ہمارا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ نہ صرف ہم نئے ایجنڈے پر بات کریں بلکہ عوام کو سوچنے اور سوال کرنے پر بھی ابھاریں۔ ہم عوام ایسے لیڈروں کی تقاریر سن کر اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہیں؟ کیا ہم اتنے سال بعد بھی خود میں سیاسی شعور بیدارنہیں کرسکے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں