کیا واقعی اتنی زیادہ معلومات کی ضرورت ہے

ہمارے ملک میں سیاسی اورمذہبی مسائل کے سوا بات کرنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے۔


راؤ منظر حیات July 18, 2020
[email protected]

سوشل میڈیا،اس وقت کرہِ اَرض پرتقریباً ہر انسان کوکسی نہ کسی طریقے سے متاثر کر رہا ہے۔ جتنا مرضی اجتناب کریں،فون یاکمپیوٹرکے ذریعے آپکے ذہن کوگرفت کرتارہتاہے۔ اس سے کسی قسم کا کوئی مفر نہیں۔سوال یہ بھی اُبھرتاہے کہ کیاانسان کوکسی حدتک سوشل میڈیاسے بچناچاہیے یا نہیں۔جواب حددرجہ متضاد ہے۔

ہرشخص اپنی طرزسے جواب دینے کاحق رکھتاہے۔ منفی پہلوئوں پرغورکرناجدیدمعاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے۔مقصد،کسی طرح بھی سوشل میڈیا کی مخالفت نہیں ہے۔کیونکہ یہ ایک نیاطرزِعمل ہے جس نے زندگی کوحددرجہ سہولتیں بھی دی ہیں۔ مگر سوچنے بلکہ سمجھنے کامقام ہے کہ جوعجیب وغریب،ہردم معلومات کاسمندرہمارے اردگردبہایاجارہاہے،کیا واقعی ہمیں اس کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں؟

ہمارے ملک میں سیاسی اورمذہبی مسائل کے سوا بات کرنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ سوشل میڈیاپرٹھوس تجزیہ بہت کم نظرکے سامنے آتاہے۔خیر،اب توسمجھ چکا ہوں کہ ہمارے رویوں میں سنجیدگی لانی ناممکن ہے۔ اس وقت لازم ہے کہ یہ بات ضرورکی جائے،کہ سوشل میڈیاہمارے پورے معاشرتی، سماجی، سیاسی،معلوماتی،تفریحی نظام کو چیرپھاڑ کر کھا چکا ہے۔مثبت طورپربھی اورمنفی اندازمیں بھی۔ اکثریت سرجھکاکراس نئے دیوتاکے سامنے سربسجود ہے۔

جو پیغامات انتہائی متاثر کن معلومات فراہم کرتے ہیں، وہ اکثراوقات بالکل غلط اورلغوہوتی ہیں۔ماخذیاسورس بیان نہیں کیا جاتا۔ تھوڑی سی تحقیق کرنے پرمعلوم ہوجاتاہے کہ فراہم شدہ معلومات درست نہیں ہیں۔پرآپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

عملی مثال لے لیجیے۔گھرکے چارپانچ افراد اگر کھانے کی میزپراکٹھے ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک یادو،کبھی کبھی تمام کے تمام،اپنے اپنے موبائل فون پرکچھ نہ کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں یابات کررہے ہوتے ہیں۔ لگتایہی ہے کہ دراصل وہ کھانے پرایک دوسرے سے گفتگو کرنااَزحدناگوارسمجھتے ہیں۔کوئی کسی دوسرے سے بات کرنے کی کوشش تک نہیں کرتا۔نوجوان بچے اور بچیاں اس علت میں سب کے پیشواہیں۔

اب تویہ بھی دیکھنے میں آتاہے کہ کانوں پرہیڈفون لگائے بغیرلقمہ لیناگناہ سمجھاجاتاہے۔کسی اورملک یادنیاکی بات نہیں کر رہا۔ اپنے ملک کے متعلق عرض کررہاہوں۔کسی سماجی تقریب میں چلے جائیے۔ہرشخص اپنافون سینے سے لگائے،اس کی اسکرین کوایسے دیکھ رہاہوتاہے،جیسے دنیا کا کوئی بہت بڑامسئلہ اس کی توجہ کامحتاج ہے۔ساتھ بیٹھے ہوئے انسان کے ساتھ کوئی بات نہیں ہورہی ہوتی۔

سماجی تقاریب اورگھریلوکھانوں میں ہم تمام لوگ ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔بغل میں بیٹھے ہوئے والد، والدہ،دوست،شناساسے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔ مگربرازیل میں ایک زیبراکیسے کرتب دکھارہا ہے۔وہ ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔پوری دنیامیں لوگوں کا سوشل میڈیاکی حدتک ردِ عمل ایک جیساہے۔لندن کی کسی بھی ٹرین میں سفرکر لیجیے۔ ہرلڑکا، لڑکی، اُدھیڑ عمر،بوڑھی،بوڑھا،فون پر سرجھکائے فیثاغورث کے کلیے حل کرتانظرآئیگا۔ امریکا میں کسی جگہ پرچلے جائیے۔

سبزی خریدتے ہوئے قطار میں کھڑے لوگ انہماک سے موبائل فون پرکوئی ازلی حقیقت تلاش کرتے ہوئے نظرآئینگے۔قیامت تویہ ہے کہ فرانس کے خوبصورت ترین ''لومیوزیم''میں خوبصورت ترین شہ پاروں کوفکری اورذہنی نظرسے جذب کیے بغیر،صرف اس کی تصویربناتے ہوئے نظر آئینگے۔ لومیوزیم میں، مونالیزاکی تصویرلگی ہوئی ہے۔جب طالبعلم وہاں پہنچا تو اردگرد ہجوم درہجوم تھا۔چینی نژادلوگ تعدادمیں بہت زیادہ تھے۔

نایاب تصویرکودیکھنے کے بجائے، اکثریت موبائل فون سے تصویرکھینچ رہے تھے۔کونے میں کھڑا ہوگیا۔ یقین فرمائیے مونالیزاکی تصویردیکھنے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔صرف،لوگ تصویرکھینچ کربتانا چاہتے تھے کہ وہ ''لومیوزیم''آئے تھے۔یہی صورتحال دنیاکے عظیم سنگ تراش مائیکل اینجلوکے مجسموں کے سامنے تھی۔ ویسے اپنی حالت عرض کرتاچلوں۔اتنے خوبصورت شاہکاردیکھ کرطالبعلم زمین پربیٹھ گیا۔اسلیے کہ اتنی خوبصورتی کوبرداشت کرناحددرجہ مشکل کام ہے۔

یہی حالت، لندن میں کوہِ نورکاہیرادیکھنے کے بعدہوئی تھی۔ صرف ایک باراس قلعے میں گیا۔جہاں یہ انمول ہیرا، برطانیہ کے تاج میں جڑاہوادکھایاجاتاہے۔تھوڑی دور، ٹیپوسلطان شہیدکی تلواررکھی ہوئی تھی۔یقین فرمائیے کہ اس قلعے سے باہرنکلاتوآنکھوں میں آنسوتھے۔بڑی مشکل سے لوگوںسے چھپاکرہاتھ سے صاف کیے۔ یہ سب کچھ توہماراتھا۔ٹیپوسلطان،مسلمانوں کی سلطنت کا برصغیرمیں آخری قلعہ تھا۔کوہِ نوربھی ہماری ملکیت تھا۔ آپس کی جنگوں نے ہمیں اپنے تاریخی اثاثوں سے محروم کر دیا۔ازلی قانون کے مطابق ہمارے اوپر، ہم سے طاقتور، برطانیہ مسلط ہوگیا۔ہمارے بیش قیمت ہیرے، جواہرات، دیگرنوادرات،ان غاصبوں کے قبضے میں چلے گئے۔

ایلس جی والٹن(Alice G. Walton)نے فوربز (Forbes)رسالے میں انتہائی پتہ کے حقائق قلم بند کیے ہیں۔سوشل میڈیاکے نقصانات کے متعلق فکرانگیز تحریرہے۔نوٹنگم ٹرینٹ یونیورسٹی (Nottingham Trent University)کی تحقیق کے مطابق، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا بھرپور طریقے سے انسانی عادت بن جاتے ہیں۔تحقیق میں "Addiction"کالفظ استعمال کیاگیا ہے۔ جدید سائنس نے ذہنی اورجسمانی بیماری سے منسلک کیا ہے۔نقصانات کوگنواتے ہوئے عرض ہے،کہ انسان اپنی ذاتی زندگی سے غیرمتعلق ہوجاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انسان عملی زندگی کی حقیقتوں سے بھاگ کر''راہِ مفر'' اختیارکر لیتا ہے۔

انسانی ذہن کے ہمہ وقت مصروف رہنے سے فطری سوچنے اورسمجھنے کاعمل غیرمعمولی حدتک ختم ہوجاتاہے۔سوانسی یونیورسٹی (Swansea University)کی ایک تحقیق تو معاملے کومزیدبھیانک کردیتی ہے۔اس کے محققPhil Reedکے مطابق اگرکوئی شخص سوشل میڈیاکوحددرجہ زیادہ استعمال کررہاہے اوراس سے ایک دم سے انٹرنیٹ دورکردیاجائے توڈپریشن،اضطراب اوردیگرذہنی منفی مسائل کاسامناکرناپڑتاہے۔

سائنسدانوں نے سوشل میڈیا کواستعمال کرنے والے انسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعدثابت کیاہے کہ شروع شروع میں لگتاہے کہ آپ بہت سوشل ہیں۔ لوگوں سے رابطے میں ہیں۔مگرآہستہ آہستہ سماجی تنہائی کاشکارہوجاتے ہیں۔یہ اتنی خطرناک کیفیت ہے کہ انسان مکمل طورپرتنہاہونے کے باوجودسمجھتاہے کہ وہ بے حدآراستہ ہے۔ جدید ترین تحقیق اس اَمرکی طرف بار بار اشارہ کررہی ہے کہ سوشل میڈیاحددرجہ منفی رجہانات کو بڑھانے کاسبب ہے۔

آپ فیس بُک کھولتے ہیں۔ اشتہار موجود ہوتا ہے کہ روس میں جنگل خریدلیجیے۔یاجرمنی میں ایک نئی گاڑی بنی ہے جوفضامیں سفرکرتی ہے۔ یا ایک ایسا ہوائی جہازہے،جسے آپ تہہ کرکے گیراج میں بندکرسکتے ہیں۔ خودبتائیے کہ کیاواقعی ان اشتہارات کی آپکوضرورت ہے۔میسج آتاہے کہ ایک یونانی فلسفی نے آج سے دوہزار برس پہلے،اپنے ملک کے متعلق کیازبردست بات کی تھی۔ آج وہ ہمارے اوپرمکمل سچ لگتی ہے۔ جب نام دیکھتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ اس نام کاکوئی یونانی فلسفی موجودنہیں تھا۔یعنی میسج کی بنیادہی غلط معلومات فراہم کرنے کے لیے تھی۔

ہرگزہرگزنہیں کہہ رہاکہ سوشل میڈیاکے فوائد نہیں ہیں۔بالکل ہیں۔ہمیں سوشل میڈیاسے بھرپور فائدہ اُٹھاناچاہیے۔یہ دورِحاضرکی بہت بڑی حقیقت ہے۔ مگر کیایہ ضروری ہے کہ سارادن اوررات،اس میں غرق کر دیاجائے۔حالت تویہ ہے کہ لوگوں نے سوچنے اورسمجھنے کاکام بھی سوشل میڈیاکے حوالے کر دیاہے۔آپ کچھ بھی پوچھ لیں۔لوگ فوراًاپنے کمپیوٹریاسیل فون سے آسمانی ہدایت حاصل کرتے ہیں۔انسانی عقل کواستعمال کرنا حددرجہ کم ہوگیا ہے۔ویسے اچھاہی ہے۔ہمیں سوچ کر کیا کرنا ہے۔ دانش،تحقیق کواستعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ذراغورتوفرمائیے۔کیاہمیں واقعی اتنی زیادہ معلومات کی ضرورت ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں