مائنس ون جمہوریت کی بقا کےلیے ضروری

خان صاحب مائنس ہوئے بغیر اپنے اردگرد موجود نااہل لوگوں کو فارغ کرکے خود کو بچالیں


عمران خان بخوشی مائنس ون کےلیے تیار نظر آتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD: ملکی تاریخ میں پہلی بار تیسری جمہوری حکومت اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ اگر یہ حکومت اپنی مدت مکمل کرتی ہے تو تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ اقتدار کی منتقلی جمہوری طریقہ سے ہو، اس کے ساتھ ہی نظریہ ضرورت کی طرح مائنس ون بھی امر ہوجائے گا۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جمہوریت کا سفر شروع ہوا تو بمشکل ایک دہائی تک ہی چل سکا۔ اور اس دوران بھی اتنے وزیراعظم بدلے گئے کہ ہمارے دشمنوں کو کہنا پڑا کہ اتنی تو میں دھوتیاں نہیں بدلتا جس قدر پاکستان میں وزیراعظم بدلے جاتے ہیں۔

جمہوریت کا دوسرا سفر ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت شروع ہوا۔ 1971 کی شکست اور بھٹو کی کرشماتی شخصیت کی بدولت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب کی بار آنے والی بہار تا دیر قائم رہے گی۔ مگر اس بار بدقسمتی سے بھٹو کی طاقت ہی نہ صرف ان کےلیے بلکہ وطن عزیز کےلیے بھی سیاہ رات کا باعث بن گئی۔ جمہوریت کا تیسرا سفر بھی پہلے سفر کے جیسا ہی تھا۔ یعنی جیسے محترم لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد سے محترم پرویز مشرف صاحب کے چیف ایگزیکٹیو ہونے تک صرف دس سال کے قلیل عرصے میں چار بار حکومت تبدیل ہوئی۔

جمہوریت کا چوتھا سفر بھی بھٹو کی باقیات کے زیر قیادت شروع ہوا۔ آصف علی زرداری نے پاکستان پر احسان کرتے ہوئے مائنس ون کے ذریعے اقتدار کی جمہوری طریقے سے منتقلی کو ممکن بنایا (یہ الگ بات ہے اگر وہ کارکردگی دکھاتے تو ایسا کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی)۔ مسلم لیگ کی حکومت بھی جب کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے قابو ہونے لگا تو انہوں نے بھی مائنس ون کے ذریعے پانچ سال پورے کیے۔ اور اب محترم عمران خان جب انتہائی سازگار ماحول میں بھی کارکردگی نہ دکھا سکے تو بخوشی مائنس ون کےلیے تیار نظر آتے ہیں۔ مائنس ون کےلیے اپنی رضامندی کا اظہار کرکے گویا انہوں نے پریشان ہونے کے بجائے پریشان کردیا ہے۔ ان کی یہ قربانی جمہوریت کے دوام میں اہم کردار ادا کرے گی اور ملک میں جمہوریت کی ترویج ممکن ہوسکے گی۔ مائنس ون کےلیے خان صاحب کے بخوشی راضی ہونے سے نہ صرف یہ کہ ان کی پارٹی اقتدار میں رہے گی، ان کا پارٹی پر مکمل کنٹرول برقرارہے گا، بلکہ وہ ملکی سیاست میں زندہ و جاوید رہیں گے اور انہیں اقتدار سے باہر کرنے کےلیے، امریکی عدالت یا پارٹی فنڈنگ کیس کے فیصلے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اور آخری بات کہ عمران خان کو مائنس کرنے کے بعد اقتدار کی ہما کس کے سر پر براجمان ہوگی؟ کیا ان شاہ صاحب کے سر پر جن کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت پاکستان مظلوم کشمیریوں کےلیے اپنوں کی حمایت بھی حاصل نہ کرسکا، جن کی شاندار کارکردگی کی بدولت کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کےلیے دفن ہوگیا۔ جن کی مہربانیوں سے بھارت کو اقوام عالم سے 185 ووٹ ملے۔ یا پھر اس اسد عمر کو وزارت عظمیٰ دی جائے گی جن کے بروقت معاشی فیصلوں سے ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہوئی۔ جن کے ہوم ورک کی بدولت پی ٹی آئی نے آتے ہی عوام کو ناکوں چنے چبوا دیے یا پھر خان صاحب بھی اپنی پارٹی میں سے کسی چوہدری فضل الٰہی کو ڈھونڈ نکالیں گے؟

عوام و خواص ہر کسی کی خواہش ہوگی کہ خان صاحب مائنس ہوئے بغیر اپنے اردگرد موجود نااہل لوگوں کو فارغ کرکے خود کو بچالیں اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوششوں کو تیز تر کردیں، کیونکہ مائنس کی خواہش کرنے والوں کا مقصود بھی جمہوریت کے دوام کے ساتھ ملکی کی معاشی حالت میں بہتری ہی ہے۔ بصورت دیگر جمہوریت ہی کو بچا لیا جائے گا، جس سے معاشی ترقی کو ممکن بنانے کی سعی کی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں