ریٹائرمنٹ کی عمر پچپن سال کر ہی دیجیے

بڑی عمر کے لوگوں کو ریٹائر کرکے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے


بڑی عمر کے اکثر ملازمین دفتری کام کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے بعد گزشتہ چند روز سے سرکاری ملازمین کے حوالے سے چند اہم خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے سالانہ اضافہ مستقل طور پر ختم کیا جارہا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ختم کی جارہی ہے اور ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے کم کرکے پچپن سال کرنے کی تجویز پر بھی غور ہورہا ہے ۔

حکومت کی طرف سے تو ان خبروں کی تردید کی جارہی ہے اور ان خبروں کو غلط قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی سوشل میڈیا کی خبریں نہیں ہیں، بلکہ بڑے بڑے میڈیا گروپس کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں اور یہ بڑے گروپس اتنے بھی غیر ذمے دار نہیں کہ ویسے ہی خبر چلا دیں اور یہ خبریں اتنے تواتر سے پہنچ رہی ہیں کہ ان میں سچائی دکھائی دینے لگی ہے۔

حکومت ویسے تو سرکاری ملازمین کے حوالے سے بہت سے فیصلے کررہی ہے، جن سے اکثریت کو اختلاف ہے لیکن ایک فیصلہ جس کا ذکر میں نے آخر میں کیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرکے پچپن سال کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ ذاتی طور پر مجھے کافی پسند آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے اور یہ مسائل روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں، جنہوں نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے والا کوئی نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ بے روزگاری کا بھی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیں روز اول سے درپیش ہے جس کی طرف خاص توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

ہمارے ملک کے نوجوان بچپن سے ہی بڑے افسر بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اس کےلیے زبردست محنت بھی کرتے ہیں، جس میں وہ اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی بھی لٹا دیتے ہیں۔ کبھی داخلہ ٹیسٹ کے لیے محنت تو کبھی دیگر کئی طرح کے امتحانات کےلیے کوششیں کرتے رہتے ہیں، تاکہ انہیں کوئی اچھا عہدہ مل جائے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی گراں قدر منہ مانگی فیسیں ادا کرتے ہیں، تاکہ اچھی اچھی ڈگریاں حاصل کرکے کوئی اچھی ملازمت حاصل کرلیں۔ مگر جب یہ سب کچھ کرنے کے بعد عملی میدان میں نکلتے ہیں اور جب ان کی ساری زندگی کی اس محنت کا صلہ ملنے کا وقت آتا ہے، جب اپنے ارمان بر آنے کی امید لے کر نکلتے ہیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان کی امیدوں کے برعکس ان کے سامنے مقابلے کا ایک وسیع میدان ہوتا ہے، جس میں نوکریاں انتہائی کم اور امیدوار بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اب یہ اپنی ڈگریاں ایک فائل میں جمع کرکے مختلف دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی این ٹی ایس (NTS) کبھی او ٹی ایس (OTS) کبھی پی ٹی ایس (PTS) کبھی بی ٹی ایس (BTS) جب اے (A) سے زیڈ (Z) تک ساری ٹیسٹنگ سروسز کے ٹیسٹ دے دے کر تھک جاتے ہیں اور اپنی ڈگریوں کے مطابق ملازمت نہیں ملتی تو پھر یہ بڑی بڑی ڈگریوں والی چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ مگر وہ بھی کسی کسی کو ہی ملتی ہیں۔

یہ صورتحال ملک و قوم کےلیے انتہائی تباہ کن ہے کہ نوجوان مایوسیوں کے اندھیروں میں گھرتے چلے جائیں پھر اس ملک کو کون سہارا دے گا۔

بے روزگاری کے خاتمے کےلیے بہت سی تجاویز آتی رہتی ہیں، ان میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت جو کہ ساٹھ سال کی عمر تک ہوتی ہے، اسے کم کردیا جائے اور یہ مدت پچپن سال کردی جائے۔ یوں بڑی تعداد میں سرکاری محکموں میں بڑی عمر کے لوگ ریٹائر ہوجائیں گے اور بہت سی آسامیاں خالی ہوجائیں گی۔ تو ان آسامیوں پر کثیر تعداد میں نوجوانوں کو ملازمتوں کا موقع مل جائے گا اور جو ملازمین ریٹائر ہوں گے انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت جو لاکھوں روپے اور ماہانہ پنشن ملتی ہے اس سے وہ اپنا گھریلو نظام باآسانی چلا سکتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بڑی عمر کے اکثر ملازمین دفتری کام کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ کئی ملازمین ایسے بھی ہیں جو کمپیوٹر کا استعمال بھی نہیں جانتے، بس دو چار کاغذ لے کر بیٹھے رہتے ہیں جبکہ موجودہ دور تو کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایسے ملازمین بس ساٹھ سال عمر پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور نوجوان جن میں کام کرنے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے وہ ملازمتیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اس لیے اگر بڑی عمر کے ملازمین کو ریٹائر کرکے نوجوانوں کو ملازمت دی جائے تو اس سے بے روزگاری بھی کم ہوگی اور دفاتر کا نظام بھی بہتر طور پر چلے گا۔

اس کے علاوہ وطن عزیز میں ایک وبا اور بھی پھیلی ہوئی ہے کہ کئی محکموں میں ایک ملازم ساٹھ سال کی عمر میں اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں تو اسے کنٹرکٹ پر پھر سے بھرتی کرلیا جاتا ہے۔ کبھی تو اسی گریڈ میں اور کبھی کسی نچلے گریڈ میں وہ دوبارہ سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ ریٹائرمنٹ کے وقت لاکھوں روپے وصول کرکے ماہانہ پنشن کے ساتھ ماہانہ تنخواہ بھی وصول کر رہے ہوتے ہیں اور لاکھوں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان تھوڑی بہت تنخواہ کےلیے نوکریاں تلاش کررہے ہوتے ہیں۔

میں کسی سرکاری ملازم کے خلاف نہیں ہوں، بڑی عمر کے تمام افراد میرے لیے قابل احترام ہیں مگر کیا ملک میں بے روزگار نوجوانوں کو دیکھ کر بھی تو دل دکھتا ہے، جو انہی ملازمین کے بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ مجھے ان کی بھی فکر لاحق ہے۔ لہٰذا میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت کے قانون پر نظرثانی کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ انہی ملازمین کو کنٹریکٹ پر رکھنے پر پابندی عائد کر کے بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت کا موقع دے تاکہ ملک سے بے روزگاری ختم ہو اور معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں