دو طاقتی توازن ختم ہونے سے عالمی سیاست مزید ظالمانہ ہو گئی

امریکہ روس سرد جنگ کے بعد سب سے زیادہ تباہی و بربادی اور دکھوں کا سامنا افغانستان اور پاکستان کو کرنا پڑا


جنیوا مذکرات میں افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کو شامل کیا جانا چاہیے تھا، اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی پر خصوصی سلسلہ ۔ فوٹو : فائل

( قسط نمبر22)

1919 میں تیسری برطانوی افغان جنگ کے بعدامان اللہ خان نے اگر چہ افغانستا ن کی آزادی وخود مختاری کا اعلان کر دیا تھا اور اسے بر طانیہ نے امن معاہدے کے تحت قبول بھی کرلیا تھا مگر بر طانیہ یہ چاہتا تھا کہ افغانستان کی یہ بادشاہت روس کے مقابلے میں بر طانیہ سے زیادہ قریب رہے۔

روس میں اشتراکی انقلاب کے بعد افغا نستان کی روس سے قربت بر طانیہ ہی نہیں بلکہ نئی سپر پاور امریکہ کے لیے بھی تشویش کا سبب تھی۔ سوویت یونین نے افغانستان کو لڑاکا طیارے بھی دیے تھے کیونکہ تیسری اینگلو افغان جنگ کے دوران انگریزوں نے کابل پر بمباری کی تھی۔ غازی امان اللہ جیسا مقبول بادشاہ سازش کے باعث غیر مقبول ہو کر جلا وطن ہوا اور 15 اکتوبر1929 کو نادر شاہ بادشاہ ہو ئے۔ انہوں نے اندازہ کر لیا تھا کہ افغانستان کی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ اِس کا بفر اسٹیٹ ہو نا ضروری ہے۔ نادرہ شاہ 1929 سے 8 نومبر1933 اپنی موت تک بادشاہ رہے۔

اِن کے بعد افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ ہو ئے۔ ظاہر شاہ کے سامنے حبیب اللہ خان کا قتل اور غازی امان اللہ کے انجا م کے واقعات تھے،اس لئے انہوں نے عالمی قوتوں کے درمیان افغانستان کو اپنے سیاسی تدبر سے متوازن رکھا۔ افغانستان بھی ایران کی طرح اقوام متحدہ کے بنیادی ارکان میں شامل ہے اس لیے خطے میں پا کستا ن ،ایران ، چین ، سابق سوویت یونین اور بھارت کے لیے اس کی اپنی تزویراتی اہمیت ہے اور اس کو ظاہر شاہ نے اپنے دور میں بہت محتاط انداز میں استعمال کیا۔ وہ 39 سال 251 دن افغانستان کے بادشاہ رہے اور اس دوران افغانستان کی سیاسی سماجی ثقافتی، تہذیبی اقدار اور معاشرتی بُنت بہت مضبو ط رہی۔ کابل شہر جو افغانستان کا دارالحکو مت بھی ہے یہاں کے منا ظرجدید مغربی تہذیب کی پوری نمائیدگی کرتے تھے اور یہاں کی اشرافیہ جو کُل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں تھی، مغرب طرز زندگی کو اپنائے ہوئے تھی۔

باقی افغانستا ن میں 42% پشتون 27% تاجک9 فیصد ہزار ہ 4% ایماق3 فیصد ترکمن 2 فیصد بلو چ اور ایک فیصد دیگر شامل ہیںاور یہ تمام آبادی اپنی بنیادی قومیتوں کے ساتھ مزید قبائل میں تقسیم ہے۔ 99.7% آبادی مسلمان ہے جس میں 65 سے70 فیصد سُنی اور 27 سے35 فیصد شیعہ ہیں۔

وسط ایشیائی ریاستوں ، روس ،ایران، اور پاکستان سے افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں سرحد کے دونو ں اطراف بھی یہی قومیں ، قبائل اور فرقے آباد ہیں۔ صدیوں سے خانہ بدوش قبائل موسم کے بدلنے پر پاکستا ن کے علاقے میں آجاتے تھے اور یہی صورت پاکستانی سرحدی علاقوں کے پشتون خانہ بدوشوں کی تھی جو موسم بدلنے پر افغا نستا ن چلے جاتے تھے یعنی سرحد اور ڈیورنڈ لائن کی ایسی کوئی خاص پابندی نہیں تھی۔ 1974 تک پاکستان میں شناختی کارڈ بھی رائج نہیں تھا۔ افغانستان کی قبائلی زندگی میں ملک یعنی سردار کا حکم چلتا تھا۔

مذہبی لحاظ سے اہمیت امام مسجد کی تھی۔ اقدار اور رسم و رواج کی پاسداری لازم تھی۔ بادشاہت حکومت کے اعتبار سے صدیوں پرانا ایک مستحکم ادارہ تھا اور اس کو قبائل اپنے سرداروں کے ذریعے استحکام دیتے تھے جس کی بنیاد جرگہ، گرینڈ یا قومی جرگہ تھا۔ بادشاہت کے دور میں بادشاہ نائب اللہ کے منصب پر فائز ہو تا تھا اور اس لحاظ سے عوام کے دلوں میں اُس کی بہت قدر و منزلت ہوا کر تی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی اقدار 'جو پورے ملک میں سماجی اور ثقاتی روح کی حیثیت رکھتی تھیں' ان سے انحراف مقامی ملک، جرگہ یا بادشاہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ غازی امان اللہ کے خلاف انگریزوں کی سازش کا میاب ہو ئی۔ پھر بعد کے زمانے میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ بادشاہ ظاہر شاہ ہی کے خاندان کے قریبی فرد سردار محمد داؤد خان نے کیا جو طویل عرصے تک شاہ ظاہر کی حکومت میں مختلف اور اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔

17 جولائی 1973 کو جب ظاہر شاہ بیرونی دورے پر تھے تو سردار محمد داؤد نے اُن کی عدم موجودگی میں انقلاب کے نام سے ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ دیا اور اس دوران سابق شاہ کے خاندان کے کئی افراد بھی ہلا ک ہو ئے۔ آزاد قومی انقلابی پارٹی کی بنیاد پر ون پارٹی سسٹم کے تحت حکومت تشکیل دی گئی اور ملک کو جمہوریہ افغانستان کا نام دیا گیا۔ سردار داؤد خود ملک کے صدر ہو گئے۔ شروع میں یہ تاثر رہا کہ سوویت یونین کی پشت پناہی سے سردار داؤد برسراقتدار آئے ہیں اگر چہ سویت یونین نے اُن کی حمایت کردی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرداؤد کی مخالفت امریکہ بر طانیہ کی جانب سے بھی نہیں ہو ئی تھی۔

یعنی وہ سب ہی کو قابلِ قبول تھے۔ اِن کے دور ِ حکو مت میں افغانستا ن کی خارجہ پالیسی بھی متوازن رہی اور اس کے بفراسٹیٹ ہونے کی حیثیت بھی بر قرار رہی۔ عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کر نے کی حکمت عملی اپنائی تو سردار داؤد کو بھی یہ حو صلہ ہوا کہ وہ بھی وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے آزاد خارجہ پالیسی کو اپنائیں۔



سردار داؤد نے 1976 سے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقا ر علی بھٹو کے ساتھ مذاکرت شروع کئے مگر ایک سال بعد پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت چلی گئی اور پھر ایران میں بھی حالات نیا رخ اختیار کرنے لگے تو افغانستان میں بھی صورتحال بدل گئی۔ 28 اپریل 1978 کو نور محمد تراکئی اور کرنل عبدالقدیر نے صدرسردار محمد داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اُن کو خاندان کے کئی افراد کے سمیت قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد دو دن تک عبدالقدیر صدر رہے اور پھر نور محمد تراکئی صدر ہو گئے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے اُن کی سربراہی میں انقلابی حکومت تشکیل دی اور افغانستان کا سر کاری نام ڈیموکریٹک ( کیمو نسٹ ) ری پبلک آف افغانستان کر دیا۔

یہ حکومت واضح طور پر سوویت یونین کی مکمل حمایت اور صدر داؤد کے خلاف سازش کے ذریعے آئی تھی اور اب نہ تو افغانستان کی آزاد خارجہ پالیسی رہی تھی اور نہ ہی اُس کی بفر اسٹیٹ ملک کی حیثیت باقی رہی تھی۔ افغانستان کا نام بھی تبدیل ہو گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ اب یہاں مذہب کا عمل دخل محدود ہو گا۔ اس روس نو از کیمونسٹ انقلاب کے حق میں افغانستان کی دو فیصد آبادی بھی نہیں تھی۔ افغانستان میں روس کی براہ راست مداخلت اور پھر ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد پا کستان کی خارجہ پالیسی میں دوبارہ امریکہ، بر طانیہ اور نیٹو ممالک سے روابط بڑھ گئے۔ افغانستان کے سماجی خط وخال ایسے نہیں کہ یہاںمشرقی یورپ کی طرح عوام سوویت یونین کی حامی لادینی اشتراکی نظریات کی حامل حکومت کو تسلیم کر لیتے۔

لہذا لوگ نورمحمد تراکئی کی حکومت کے خلا ف ہوگئے۔ یہ وہ دور ہے جب سویت یونین کی قیادت پر یشان تھی کہ افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور اُن کی پھا نسی کے بعد یہاں صدر جنرل محمد ضیاالحق بر سراقتدار آگئے تھے اور اس حکومت نے بھی اسلامی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اصلاحات شروع کر دیں تو دوسری جانب ایران میں امام خمینی کی اسلامی انقلابی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ روس نے اس خطرے کے تحت کہ 'اب افغانستان میں بھی اسلامی نظریے کے مطابق حکو مت قائم کرنے کے لئے سوویت یونین کے خلاف ملک کے اندر سے تحریک اٹھے گی' مداخلت شروع کر دی۔ نور محمد تراکئی 137 دن اقتدار میں رہنے کے بعد 14 ستمبر1979 کو قتل کر دیئے گئے۔

حفیظ اللہ امین ان کے بعد اقتدار میں آئے مگر افغانستان کے حالات اُن کے بھی کنٹرول میں نہیں رہے اور افغانیوں کی مزاحمت بڑھتی گئی۔ حفیظ اللہ 104دن اقتدار میں رہے اور 27 دسمبر1979 کو قتل کر دئیے گئے۔ 27 دسمبر1979 کو سوویت یونین کی خاص چنیدہ شخصیت بیرک کارمل کو مشرقی یورپ سے لا کر اقتدار دے دیا گیا اور پھر افغان سوویت معاہدہ کے تحت اُنہوں نے سوویت یونین سے افغانستان کے دفاع کے لئے فوجیں بھیجنے کی درخواست کر دی اور سوویت یونین نے افغانستان جیسے آزاد و خود مختار ملک میں فوجیں داخل کر دیں۔

اگر چہ روسی فوجوں کی پہلی کھیپ 6000 تھی جو صرف کابل ہی میں تعینات تھی مگر تھوڑے عرصے بعد پورے افغانستا ن میں ڈیڑھ لاکھ سے زیا دہ فوج پھیل گئی۔ شروع کے دنوںمیں امریکہ ،برطانیہ اور فرانس سمیت پرانے مغربی اتحادی ملک یہی سمجھے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی جدید اسلحہ سے لیس افواج کے مقابلے میں افغان مجاہدین کی یہ مزاحمت مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کی طرح چند مہینوں یا ایک دو برسوں میں ختم ہو جا ئے گی کیونکہ دسمبر 1980 تک نہ صرف ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جدید اسلحہ سے لیس روسی فوجیں افغانستان میں مو جود تھیں۔

مگر جب پور ے افغانستان میں افغان مجاہدین نے اپنے روایتی ہتھیاروں سے گو ریلا طرز کی جنگ سے سوویت یونین کی فوجوں کو خاصا نقصان پہنچایا تو امریکہ اور دیگر ممالک جو پہلے صرف سیاسی طور پر سوویت یونین کی مذ مت کر رہے تھے افغان مجاہد ین کی امداد کرنے لگے۔ خطے میں سوویت یونین کو بھارت کی حمایت حا صل تھی کیونکہ ان کے درمیان 1971 کا فوجی تعاون کا معاہدہ تھا جب کہ چین نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر دنیا روس کو افغانستان سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور نہیں کر سکی تو کچھ عرصے بعد ایران اور پاکستان بھی اُس کا نشانہ بنیں گے۔ چینی حکومت نے پاکستانی رہنماؤں سے رابطے کئے اور اُنہیں مکمل حمایت کا یقین دلایا اور پاکستان کی سالمیت و خود مختاری کے دفاع کا عہد کیا ۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کا کردار بھی کافی متحرک رہا۔ پاکستان نے اس زمانے میں افغانستان کے مسئلے کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ بنا لیا۔ افغانستان کا مسئلہ 1978-79 سے شروع ہو کر جنیوا معاہدے1988 تک اقوام متحدہ کے سامنے سب سے اہم مسئلہ رہا اس دوران افغانستان میں بابرک کارمل اور صدر محمد نجیب اللہ برسراقتدار رہے جبکہ سوویت یونین میں لیونڈ برزنیف، یوری اینڈ روپوف، کونسٹنٹائن چیر ننکو اور پھر میخائل گارباچوف اقتدار میں رہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاالحق1977 سے 17 اگست 1988 تک صدر رہے اور اس دوران1985 سے مئی1988 تک محمد خان جو نیجو وزیراعظم رہے۔ جب کہ اس دوران آسڑیا کے کورٹ والڈہیم 31 جنوری1981 تک اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل رہے اور اِن کے بعد پیریزڈی کوئیار1981 سے1991 تک اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری رہے۔

اقوام متحد ہ کی 75 سالہ میں 1978-79 سے 1988 تک کا عرصہ سرد جنگ کے اعتبار سے وہ دورانیہ تھا جب پوری دنیا کی نظر یں افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت اور اس کے مقابلے میں افغان مجاہدین کی مزاحمت اور پھر امریکہ ، سوویت یونین، بر طانیہ، فرانس، چین جیسی ویٹو پاور کی حامل قوتوں اور ان کی لیڈر شپ اور ساتھ ہی پاکستا ن ، بھارت ، ایران کی قیادت کی سیاسی بصیرت کو دیکھ رہی تھیں۔ اور آج یعنی 2020 کے وسط تک دنیا کو جو حالات درپیش ہیں اُن کا ذمہ دار بھی اُس دور میں کئے گئے فیصلوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے کردار کا بھی موجودہ صورت حال میں اہم حصہ ہے جو 1980 سے شروع ہوا اور 1988 میں جنیوا معاہدے تک پہنچا۔

یوں جد ید تاریخ عالم کے تناظر یہ دور دنیا کا وہ تاریخی دور تھا جس نے سرد جنگ کے بعد پوری دنیا کو سیاسی ،اقتصادی ،معاشی ،معاشرتی، عسکری اعتبار سے بدل کر رکھ دیا۔ سرد جنگ کے اختتام پر یہ ایک ایسا دوراہا تھا جہاں سے دنیا میں دو نظریاتی دو طاقتی توازن ختم ہو گیا اور پھرعالمی سیاست سرد جنگ کے زمانے سے بھی زیادہ ظالمانہ ہو گئی۔ یہ تلخ حقیقت بھی جدید تاریخ کا حصہ بنے گی کہ اس میں سب سے زیادہ مسائل اور دکھوں کا سامنا پہلے افغانستان اور پھر پا کستان کے عوام کو کر نا پڑا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی پہلی کوشش سے دس اسلامی ملکوں نے 5 جنوری 1980 کو قرارداد منظور کر وائی جس میں افغانستان میں روسی فوجوں کی موجودگی کی مذمت کی گئی اور فوجوں کی واپسی اور افغانستان کی آزاد و خود مختار حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔1981 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اور قرارداد23 ووٹوں کے مقابلے میں116 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کی گئی جس میں سوویت یونین کی فوجوں کے افغانستان سے انخلا پر زور دیتے ہو ئے کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ڈیگو کار ڈوویز فریقین سے مذاکرات کریں یوں ابتدائی طور پر مذاکرات کی فضا ہموار ہونے لگی۔

افغانستان میں مجاہدین کی مزاحمتی گوریلا جنگ سے روسی فوجیوں کی ہلاکتیں بڑھنے لگیں بالا آخر بالواسطہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی معرفت سوویت حکومت مذاکرات پر آمادہ ہو گئی مجاہدین کا موقف تھا کہ روسی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں تو مزاحمت از خود ختم ہو جا ئے گی۔ جون 1982 میں دس روزہ مذاکرات جنیوا میں شروع ہو ئے تو پا کستان اور ایران کا مشترکہ موقف تین بنیادی نکات پر مبنی تھا۔

نمبر1 ۔روسی فوجوں کا انخلا ۔ نمبر2 ۔عدم مداخلت کے اصول پر عمل اور اس ضمن میں بین الاقوامی ضمانتیں، نمبر3 ۔افغا ن مہاجرین کی باوقار واپسی، اس کے بعد ہی جنیوا مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خا ن اور افغانستان کی جانب سے شاہ محمد دوست نے اِن مذاکرات میں شر کت کی۔ یہ سلسلہ 1982 سے 1986 تک جاری رہا اور اس عرصے میں سات اجلاس ہو ئے اگر چہ اِن اجلاسوں میں ٹھوس اقداما ت کرنے کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس کو اتفاق کہیں یا شائد مستقبل میں کو ئی راز افشا ہو کہ برزنیف 'جن کے حکم سے روسی فوج افغانستان میں داخل ہو ئی تھی' وہ 10 نومبر1982 کو انتقال کر گئے اِن کے بعد Yuri Andropovi یوری اینڈرو پوف برسراقتدار آئے اور9 فروری1984 کو اُن کی بھی موت واقع ہو گئی۔

ان کے بعدKonstantin Chernonko چرننکو اقتدار میں آئے اورایک سال ایک ماہ بعد 10 مارچ 1985 کو انتقال کرگئے اور پھر 10 مارچ 1985 کو میخائل گارباچوف اقتدار میں آئے۔ اسی طرح اندرا گاندھی 'جو تیسری مرتبہ بطور منتخب وزیراعظم بھارت میں 14 جنوری 1980 میں اقتدار میں آئیں' انہیں اُن کے دو سکھ محافظوں نے گوردوارہ صاحب گولڈن ٹیمپل امرتسر پر بھارتی فوج کشی کا حکم دینے کے رد عمل میں ہلاک کر دیا۔ 1982 میں اندرا گاندھی ہی کے حکم پر بھارت نے کشمیر لداخ گلگت بلتستان کے پاکستانی علاقے میں سیا چن گلیشئر پر قبضہ کر لیا اور 31 اکتوبر 1984 کو اُ ن کے سکھ باڈی گارڈوں نے قتل کر دیا۔

جنیوا مذاکرات کا عمل آگے چل رہا تھا اور ساتھ ہی مجاہدین کو 'جنہوں نے دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ وہ سوویت یونین کو یہاں شکست دیں گے' امریکہ نے اسٹینگر میزائل جیسا خطرناک ہتھیار فراہم کر دیا۔ اس میزائل کو ایک شخص اپنے کند ھے پر رکھ کر چلا سکتا تھا جو فضا میں لڑاکا طیاروں اور جنگی ہیلی کوپٹر وں تباہ کر دیتا تھا۔ اب سویت یونین کی جدید ترین فضائی قوت بھی یہاں نا کام ہو گئی اور یوں روسی فوجیوں کی ہلاکتیں بہت بڑھ گئیں چرننکو جب 10 مارچ 1985 کو وفات پا گئے تو صدر جنرل محمد ضیا الحق اُن کی تدفین میں شرکت کے لیے سوویت یونین گئے اور وہاں گورباچوف سمیت دیگر اہم لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور افغان مسئلے پر بھی بات کی۔

1986 میں سوویت یونین نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اشارہ دے دیا کہ سوویت یونین اپنی فوجوں کو جزوی طور پر افغانستان سے بلانے کے لیے تیار ہے اور اگر امور طے پا جا تے ہیں تو تمام افواج کی واپسی کا ٹائم ٹیبل بھی تیار کر لیا جا ئے گا ۔ 1986-87 میں سویت یونین نے ایک رجمنٹ واپس بلالی یوں امریکہ ، چین ، فرانس ، برطانیہ سب ہی کو حوصلہ ہوا کہ اب افغانستان سے سوویت یونین واپس چلا جائے گا۔ اس کے بعد سویت یونین نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا مگر مجاہدین نے اس یک طرفہ جنگ بندی کو قبول نہیں کیا۔

فروری 1986 میں گوربا چوف نے کیمونسٹ پارٹی کی ستائسویں کانفرنس میں افغان مسئلے کو حل کرنے کی ضروت کا احساس اراکین کو دلا یا۔ ببرک کارمل مصر تھا کہ پاک افغان مذاکرات براہ راست ہوں لیکن 24 دسمبر1986 کو ببرک کارمل اقتدار چھوڑ گئے۔ افغانستان میں محمد چمکنی 24 دسمبر1986 سے30 ستمبر 1987 تک انقلابی کو نسل قومی مفاہمتی عمل کے چیر مین رہے اور 30 ستمبر1987 کو محمد نجیب اللہ افغانستان کے صدر ہوئے۔ 1987 ہی میںگور باچوف نے ایشیائی ممالک سے دوستانہ تعلقات کے لیے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا اور افغانستان سے مزید فوجوںکی واپسی کا یک طرفہ اعلان کردیا۔

گورباچوف نے بھارت کے دورے میں پاکستان سے بہتر تعلقات کے قیام کی حمایت کی اور افغانستان کے غیر جانبدارانہ اور غیر وابستہ کردار کی بحالی کے حق میں تقریر کی۔ 1987 میں سویت یونین کی جانب سے اِن مثبت اشاروں کو مد نظر رکھتے ہو ئے پاکستان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان نے ماسکو کا دور ہ کیا اور گورباچوف اور سویت پولٹ بیور وکے اراکین سے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان کشید گی کم کرنے اور افغانستان کے مسئلے کو حل کر نے کے مختلف پہلووں پر بات چیت اور غور ہوا۔ 1986 سے 1988 تک تین سالوں میں روس ،افغانستان ،بھارت،پاکستان ،ایران ،امریکہ اور اقوام متحدہ کے نمائندوںکی سفارتی سرگرمیاں جاری رہیں۔

مندوبین غیر ملکوں کے دورے کرتے رہے اور جنیوا مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف تجاویز پر غور ہوتا رہا۔ اُس زمانے میں یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو اٹلی روم سے واپس بلوا کر بادشاہت دے دہی جا ئے اور پھر افغانستان میں انتخابات کروا کے جمہوری حکومت قائم کی جا ئے اور بادشاہ کی حیثیت برطانوی طرز کی ہو۔ پھر یہ بھی غور ہوا کہ بادشاہت بحال نہ کی جائے لیکن ظاہر شاہ کو قیام امن کی کوشوں میں شامل کیا جائے اور اِن کو ثالث کے طور پر استعمال کیا جا ئے۔ ظاہر شاہ کی واپسی کے لیے زیادہ کو ششیں سوویت یونین اور بھارت کی جانب سے ہوتی رہیں۔

1982 میں ظاہر شاہ نے روم اٹلی میں یہ کو شش بھی کی کہ اپنی بادشاہت کے تحت افغا نستان کی جلا وطن حکومت قائم کی جائے مگر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف بر سر پیکار طاقتور اسلامی گروپوں نے اِن کی حمایت نہیں کی۔ اسی دوران امریکہ اور سوویت یونین اپنے اپنے مفادات کے لیے داؤ پیچ میں مصروف رہے جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ڈیگوکارڈ وویز کی شٹل ڈپلو میسی حالات کو ساز گار بنانے کے لیے جاری رہی۔ اب افغانستان کے مسئلے میں کئی فریق شریک ہو چکے تھے اور مستقبل کے اعتبار سے اِن فریقین کے اپنے اپنے مفادات تھے جب بھی معاملہ بنتا دکھا ئی دیتا اور بڑی قوتوں کے پوشیدہ مفادات اُن کو پورے ہو تے نظر نہیں آتے تو کوئی نہ کوئی رخنہ اندازی کر دیتا پھر افغانستان میں مصروف جنگ مجاہدین کے بعض گروپ مذاکرات کی بجائے فیصلہ کن جنگ کی بنیاد پر قائم تھے اور مذاکرات کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔

پاکستان میں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت قائم ہو ئی تو صاحبزادہ یعقوب خان ہی وزیرِ خارجہ رہے مگر زین نورانی کو وزیر مملکت برائے امور ِخارجہ بنا دیا گیا اور پھر جب جنیوا مذاکرات ،جنیوا معاہدے کے قریب پہنچے تو حیرت انگیز طور پر صاحبزادہ یعقوب خان کی بجائے زین نورانی کو مذاکرات میں شامل کر لیا گیا۔ صاحبزادہ یعقوب خان نے مذاکرات میں افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی سے قبل افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کی شرط رکھی تھی۔

روس اور افغانستان کی حکومتیں اِس پر آمادہ نہیں ہو ئیں۔ اسی طرح یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ سوویت یونین کی فو جوں کی واپسی پر یہاں اقوام متحدہ کی امن فوجیں تعینات کی جائیں مگر اس کو بھی فریقین نے تسلیم نہیں کیا۔ آخر کار 14 اپریل 1988 کو جنیوامیں پر چار طاقتی معاہد ے پر دستخط ہو گئے۔ امریکہ سوویت یونین پاکستا ن اور افغانستان کے نمائندوں نے اس معاہدے کی توثیق کر دی۔ پاکستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے امورخارجہ زین نورانی ، امریکہ کی جانب سے جارج شُیلز، سوویت یونین کی طرف سے ایڈورڈ شیورناٹزے اور افغانستان کی جانب سے سردار عبدالوکیل نے دستخط کئے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے سیکرٹری جنرل پیرز ڈیکوئیار نے دستخط کئے۔ معاہدے کے اہم نکات یہ تھے۔

نمبر 1 ۔سویت یونین کی مسلح افواج کا انخلا 15 مئی 1988 کے بعد سے شروع ہو جائے گا اور یہ عمل 9 مہینوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ نمبر2 ۔پندرہ مئی 1988 کے بعد افغانستان اور پاکستان کے اندرونی امور میں نہ کوئی مداخلت ہو گی اور نہ اِن کے خلا ف کسی قسم کی جارحیت کی جائے گی۔ نمبر3 ۔امریکہ اور سوویت یونین علاقے کی دونوں ریاستوں یعنی افغانستان اور پا کستان کے امور میں دخل نہیں دیں گے، دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔ نمبر 4۔پاکستان ،افغانستان ایک دوسرے کی خود مختاری غیر جانبداری استحکا م اور یکجہتی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، نہ ہی طاقت کا استعمال کریں گے اور نہ ہی اس نوعیت کی دھمکی دیں گے، اس سلسلے میں سوویت یونین اور امریکہ نے ضمانتیں دیں۔

نمبر5 ۔پاکستان اور افغانستان اپنی حدود میںایک دوسرے کے خلاف تربیتی مراکز کا بند وبست نہیں کر یں گے اور نہ ہی کسی تحریک کو مالی یا فوجی امداد مہیا کریں گے، پاکستان ایک ماہ کے اندر اپنی سرزمین سے مجاہدین کے اڈے ختم کر دے گا۔ نمبر6 ۔مہاجرین کی واپسی کا بندوست کیا جا ئے گااور دونوں ممالک باہمی تعاون کر یں گے۔ نمبر7 ۔پاک افغان مشترکہ کمیشن 15 مئی1988 کو تشکیل پائیں گے تاکہ مہاجرین کی واپسی کے راستے متعین کئے جاسکیں،دونوں ممالک کے نمائندے مہاجرین کی واپسی کے پروگرام کو منظم کرنے کے لیے باہمی ملاقاتیں کرتے رہیں گے۔

ان کی رہنمائی کے لیے اقوام متحدہ کا ایک نمائندہ شامل رہے گا۔ نمبر8 ۔اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز دونوں ملکوں میں قائم کئے جائیں گے تاکہ جنیوا معاہدے پر عملدر آمد میںپیدا ہونے والی رکاوٹوںکو دور کرسکیں ،اِن ہیڈ کوارٹرز میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے اخراجات پاکستان اور افغانستان ادا کر یں گے۔

نمبر9 ۔دونوں ممالک مخالفانہ پروپگنڈہ مہم ختم کر دیں گے۔ نمبر10 ۔مستقبل میں معاہدے کو ہردو ممالک کی دوستی ،تعاون اور بھائی چارے کے فروغ کی بنیاد سمجھاجائے گا۔ واضح رہے کہ14 اپریل1988 کو جنیوا معاہدے پر دستخط ہو ئے تو اس سے چار دن پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریب اوجھڑی کیمپ نامی اسلحہ ڈپو میں آتش زدگی کا المناک واقعہ پیش آیا جس میں میزائلوں راکٹوں ، بموں کے پھٹنے سے کئی کئی کلو میٹر دورکے علاقے میں1300 افراد جاں بحق ہو ئے ان میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد وفاقی وزیر خاقان عباسی بھی شامل تھے۔

جنیوا مذاکرات کے شروع میں ایران بھی شامل تھا بعد میں مذاکرات سے الگ ہو گیا یا کر دیا گیا۔ مذاکرات کے چند دن بعد 29 مئی 1988 کو جب وزیر اعظم محمد خان جونیجو چین کے دورے پر تھے تو صدر جنرل ضیا الحق نے قومی اسمبلی تخلیل کر کے اُن کی حکومت کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد 17 اگست 1988 کو خود جنرل ضیا الحق بہاولپور میں C130 طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔

اُس وقت اُس طیارے میں اُن کے ساتھ جو شخصیات جاںبحق ہو ئیں اُن میںچیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن،لیفٹینٹ جنرل میاں محمد افضل،میجرجنرل محمد شریف ناصر،میجر جنرل عبدالسمع،میجر جنرل محمد حسین اعوان،بریگڈئیر صدیق سالک بریگیڈئیر نجیب اللہ پاکستان میں امریکی سفیر Arnold Lewis Raphel رافیل امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی Gen.Herbert M.Wasson جنرل ہربرٹ شامل تھے۔ آج جنیوا معاہد ے کو 32 سال گذر چکے ہیں اس کے بعد افغا نستا ن ، پا کستان ،عراق ، ایران ، شام ، لیبیا ، سوڈان ،یمن ، سعودی عرب، سیمت دنیا کے ملکوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے جس کی بنیاد ی وجہ یہی ناقص جنیوا معاہد ہ تھا۔

اس معاہد ے میں امریکہ اور اقوام متحدہ نے افغانستان کی اُسی حکومت کو فریق بنایا جو بہرحال غیر جمہوری بنیادوں پرسابق سوویت یونین کی فوجی قوت کے ساتھ افغانستان پر مسلط کی گئی تھی۔ سوویت یونین جب مذاکرات پر آمادہ ہوا تھا تو علاقے کے اُن ملکوں کو معاہدے میں شامل کر نا چاہیے تھا جن کی سر حدیں افغانستا ن سے ملتی ہیں۔ اگر اقوام متحدہ امریکہ کی شمولیت کو ضروری سمجھتا تھا تو پھر سیکیورٹی کو نسل کے پانچوں مستقل اور ویٹو پاور ملکوںکو اس معاہد ے میں شامل کیا جاتا تویہ معاہد ہ سیکیورٹی کونسل کی عالمی سطح کی سب سے بڑی اتھارٹی سے منظور شدہ دستاویز بن جا تا۔

جہاں تک تعلق پا کستان کا ہے تو یہاں اس سوال کا جواب بھی ابھی تک نہیں آیا کہ جنیوا مذاکرات کے حتمی مراحل میں وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان کے بجا ئے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نوارانی کو کیوں شامل کیا گیا،اسی طرح اوجھڑی کیمپ اور صدر ضیا الحق طیارہ حادثے کی وجوہات بھی سامنے نہیں آسکیں، شائد مستقبل میں اِن تمام رازوں سے پردہ اُٹھ سکے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں