بڑی لمبی کہانی ہے ریلوے کی ہم کیا کرسکتے ہیں
کورونا کا زور کچھ کم ہو گیا ہے۔ سامنے پھر بڑی عید آ رہی ہے۔ ٹرینیں مزید چل جائیں گی،
QUETTA:
آج کل دنیا بھر میں کورونا کی خوفناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ ایئرلائنز بند ہیں، بحری جہاز بند ہیں، ہوٹلز، مالز بند ہیں عوام اپنے گھروں یا پھر اسپتالوں میں بند ہیں۔
ہمارے ملک میں پچھلے تین ماہ سے ٹرینیں بھی بند رہیں۔ عام ٹرانسپورٹ بھی بند رہی۔ عید الفطرکے موقع پر کچھ ٹرینیں چلائی گئیں کچھ مال گاڑیاں چلتی رہیں۔ ریلوے کو اس دوران6 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب کچھ بہتر صورتحال ہوئی ہے۔
کورونا کا زور کچھ کم ہو گیا ہے۔ سامنے پھر بڑی عید آ رہی ہے۔ ٹرینیں مزید چل جائیں گی، مگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحب قابل احترام جسٹس گلزار احمد اور محترم جسٹس اعجازالحسن صاحب نے ریلوے انتظامیہ کے اہم ذمے داروں خاص کر سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ'' آپ ریلوے ٹھیک طرح سے نہیں چلا رہے ہیں۔ حادثات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے کئی اعلیٰ افسران اور انجینئرز کو فارغ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ ایک ماہ میں اچھی رپورٹ لے کر آئیں گے۔ ''بڑا بہتر اور اچھا فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت ریلوے کے ملازمین اور پاکستان کے عوام خوش ہوئے ہیں۔ میں اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
میرا تعلق پاکستان ریلوے کی پیدائش سے قبل ہی کراچی سٹی ریلوے کالونی میں دسمبر 1945 میں ہوا تھا۔ والد صاحب 1940 میں ریلوے میں ملازم تھے گوکہ ریلوے برصغیر میں 1860-61 میں مکمل ہوگئی تھی۔ بڑی اچھی اور بہتر ریلوے سروس تھی۔ پی آئی اے وغیرہ بھی بعد میں آئی۔ 40 سال ملازمت کرتے ہوئے گزارے جس میں بحیثیت بکنگ کلرک اور پھر ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک صاحب پہلے ریلوے چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے وہ ریلوے کو ترقی نہ دے سکے۔ چین سے انجن خریدے، پسنجرکوچز خریدیں اور ریلوے کی زمینیں فروخت کیں۔ لاہور کا کیس رام پال کلب اور میوگارڈن کا کیس چل رہا ہے۔ دیکھیں کب اس کی شنوائی ہوتی ہے اس وقت چیئرمین سے لے کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور چیف پرسنل آفیسر تک غیر سویلین ہوا کرتے تھے آخر بات کہیں اور نکل جائے گی۔
میں ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ پاکستان ریلوے کی عمر اگست 1947 سے ہوتی ہوئی اب 73 سال کی ہوگئی ہے اس وقت ریلوے میں ملازمت کرنا ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہمارے حصے میں آنے والا یہ واحد ادارہ تھا جو ہمیں بنا بنایا ملا تھا۔ جس کے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ملازمین موجود تھے۔ 12 ہزار سات سو کلو میٹر ٹریک موجود تھا اور تین طرح کے ٹریک تھے بارڈگیج، میٹر گیج، نیروگیج۔ باقی اب صرف بارڈگیج سسٹم ہے۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن کی تعداد 850 تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے کی بڑی بڑی ورکشاپس، ریلوے ہیڈ کوارٹر کی عمارت سمیت ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی عمارتیں، ریلوے کے بنگلے، 70 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین کے کوارٹرز، ریسٹ ہاؤوسز، ہر بڑے شہر میں اسپتال، کوئٹہ میں سردار بہادر T.B کا بڑا اسپتال، ڈسپنسریاں، سستے راشن ڈپو، اسکول، ڈسپنسریاں ہر ریلوے کالونی میں موجود تھیں۔ پھر ریلوے ٹریک، انجن، سفر کوچز مال گاڑی کے ڈبے اور پورے پاکستان ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل تا زاہدان تک پھیلی ہوئی تھی ۔
انڈین ایکٹ 1935 کے تحت ہی پاکستان میں یہ ایکٹ جاری رہا تقسیم کے بعد A.C کے دو ڈبے کراچی تا پشاور تک جانے والی خیبر میل اور کراچی تا کوئٹہ جانے والی بولان میں برف کی سلیں ڈال کر ٹھنڈا کی جاتی تھیں بعد میں 75 یا 80 کی دہائی میں ریلوے میں A.C کے ڈبے ٹرینوں میں لگائے گئے۔جو اب تک چل رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ریلوے ایک فعال اور خودمختار ادارہ تھا۔ جس میں A.C، فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، انٹرکلاس اور تھرڈ کلاس کی مسافر کوچیں چلتی تھیں۔
یہ ادارہ 1975 تک بغیر خسارے کے چلتا رہا۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا انحصار گڈز ٹریفک اور آئل ٹینکر کے ذریعے تھا جہاں کراچی کی بندرگاہ سمیت دیگر سامان ان بوگیوں میں جاتا تھا۔ تقریباً 12 تا 13 ٹرینیں روزانہ اندرون ملک آتی اور جاتی تھیں بلکہ ریکارڈ آمدن ہوتی تھی۔ لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی اور افسران کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ ادارہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑا۔ ریلوے میں خسارے کی وجہ چوری، لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری میں جہاں حکومتوں کا ہاتھ تھا تو دوسری طرف انتظامیہ کے اہلکار بھی شامل رہے اور ان میں ناقص منصوبہ بندی شامل رہی۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے پہلے ڈبل ٹریک کرنا تھا موقعہ بھی تھا فنڈ بھی تھا۔
زمین بھی تھی مگر اس کے برخلاف خانیوال تا لاہور تک الیکٹرک ٹرین سسٹم کو ترجیح دی گئی یہ اچھا اقدام تھا اس کو آگے جانا تھا۔ کروڑ روپیہ خرچ ہوا 30 الیکٹرک انجن بنوائے گئے مگر یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور فیل ہو گیا اور آج ختم ہو چکا ہے۔ پھر یہ طے کیا گیا کہ چھوٹی لائنز ختم کردی جائیں اور اسٹینڈر لائن یعنی براڈ گیج سسٹم لگایا جائے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں طے کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کو ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیشن بنایا جائے گا ،جس کے 16 پلیٹ فارم ہوں گے اس مقصد کے لیے کلب گراؤنڈ کی زمین حاصل کی گئی ریلوے کا بڑا جنرل اسٹور جو اسٹیشن کے ساتھ تھا اس کو ریتی لائن PIDC کے پاس منتقل کردیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکلر ریلوے کو مکمل کیا جائے اور اس کو 1970 میں مکمل کرلیا گیا۔ اس طرح کئی ایک منصوبے اور پلان بنائے گئے۔
مثلاً ریلوے کا سب سے بڑا مارشلنگ یارڈ پپری یا بن قاسم پر بنایا گیا اور کامیاب رہا پھر ریزرویشن کو جدید بنانے کے لیے A.C آفس بنایا گیا۔ کمپیوٹر خریدے گئے۔ ایک دفعہ خراب ہوگئے پھر آگ لگ گئی اور اب پھر شروع ہے۔ غرض یہ کہ آئے دن حادثات، ٹرینوں کا ٹکرانا، انجن فیل ہو جانا، تیل اور ڈیزل کا بحران، چین سے خریدے گئے انجنوں کا ناکارہ ہو جانا کوچز کو پلیٹ فارم پر لانے کے لیے پلیٹ فارم کو کاٹا اور پھر بنایا جانا نقصان اٹھانا پڑا، بڑی لمبی کہانی ہے ریلوے کی ،ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ ریلوے کو بہتر بنایا جائے اور اس کو ٹھیک کیا جائے ایک ماہ میں اس کی رپورٹ تیار کرکے عدالت میں جمع کرائی جائے۔ ریلوے کے افسران کی فوج ظفر موج کو کم کیا جائے۔
ملازمین کی تعداد کم کی جائے اور ریلوے کو صحیح ٹریک پر لاکر مسافروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے بہت کچھ لکھ چکا ہوں حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کو بتا چکا ہوں ٹیلی وژن پر کئی بار پروگرام کر چکا ہوں اب تھک چکا ہوں ریلوے بھی تھک چکی ہے ادارے بھی تھک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بھی تھک چکی ہے اب اللہ کے سہارے پر ریل چل رہی ہے امید ہے کہ کچھ بہتری آسکے۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی ابھی تک قائم ہیں۔