کموڈس اورسلی اینڈر
موجودہ حالات کوپرکھیے۔آپ کورومن کموڈس اور موجودہ سلی اینڈرصاف دکھائی دینگے۔
کموڈس(Commodus) رومن حکومت کا شہنشاہ تھا۔رومی حکومت کیاتھی۔کتنی بڑی،عظیم اور طاقتورتھی،اسکاصرف اندازہ لگایاجاسکتاہے۔کرہِ اَرض کی اکثریت طول وعرض میں رومن شہنشاہ کی بادشاہت تھی۔دارالحکومت روم حیران کن حدتک خوشحال اور خوبصورت شہرتھا۔
دنیامیں آفتاب۔180بی سی کا ذکر ہے۔کموڈس حیرت انگیزصلاحیتوں کامالک تھا۔ نوجوان، جذباتی اوراپنے آپکوخداکااوتارگرداننے والاانسان۔تمام شہنشاہوں کی طرح وہ بھی اپنے آپکومافوق الفطرت سمجھتا تھا۔طاقت کانظام اورریشہ دوانیاں بھی بالکل ویسی ہی تھیں، جیسے آجکل ہیں۔ شاہی دربارتواب نہیں رہے، مگر درباری سازشیں زیادہ ہوچکی ہیں۔اب تاج پہن کرکوئی بھی صدریاوزیراعظم باقاعدہ دربارنہیں لگاتے۔مگریہ ہمارے جیسے بے نام لوگوں کے لیے صرف اورصرف نظرکادھوکا ہے۔
تاج توآج بھی ان حکمرانوں نے پہنا ہوا ہے۔ مگر نظرنہیں آتا۔درباربھی لگتاہے۔عتاب شاہی بھی قیامت ڈھاتا ہے۔لوگوں کوزندان میں بھی بند کیا جاتا ہے۔مگریہ سب کچھ ایک عجیب وغریب لفظ ''جمہوریت'' کی آڑ لے کر کیا جاتا ہے۔ہزاروں سال پہلے،روم میں ہمارے نظام سے کافی بہترمعاملہ تھا۔منافقت تھی ضرور،مگرقدرے کم تھی۔ معاملہ سیدھاساتھا۔اگرشہنشاہ ناراض ہوجاتا یا کسی سے خفا ہوجاتاتھاتوسب کومعلوم ہوتاتھاکہ عتاب شاہی عروج پر ہے۔ہماری طرح نہیں،کہ جس شخص سے شدیدنفرت ہو اسے بھی گلے لگایاجاتاہے۔اسکوسرِعام بھائی کہا جاتا ہے۔
کموڈس،ہرحکمران کی طرح،اَناکامجسمہ تھا۔ عوامی بھلائی سے کچھ خاص شغف نہیں تھا۔ طاقتور حلقوں کو بہرحال اسے ساتھ رکھناپڑتاتھا۔183بی سی میں، قریبی دوستوں اورعزیزوں نے کموڈس کوقتل کرنے کی ناکام کوشش کی۔اس کے بعد،شہنشاہ دل برداشتہ سا ہو گیا۔ اپنے مصاحب خاص،سلی اینڈر (Cleander) کو بلایا اور تمام امورِسلطنت اس کے حوالے کر دیے۔ خود گھڑسواری، شکار اورایک کم ذات لونڈی کی رفاقت میں زندگی گزارنی شروع کردی۔سلی اینڈرانتہائی ذہین شخص تھا۔
ویسے انسان کی جبلت ہے، حکومت کرناکسے پسندنہیں آئی۔چنانچہ عملی طورپردنیاکی عظیم ترین سلطنت کاڈی فیکٹوحکمران بن گیا۔بادشاہ کوہروقت بتاتارہتاتھاکہ سلطنت بالکل ٹھیک چل رہی ہے۔لوگ حددرجہ مطمئن اورخوشحال ہیں۔ ہر وقت بادشاہ کی صحت اوردرازی عمرکی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔امن،چین اورشانتی کادوردورہ ہے۔سلی اینڈرکسی قسم کاکوئی حکومتی مسئلہ بادشاہ تک پہنچنے نہیں دیتا تھا۔ عوامی تکلیف یامصائب کوبادشاہ کی نظرسے اوجھل رکھتا تھا۔ آہستہ آہستہ سلی اینڈر،طاقتورترین شخص بن گیا۔سب سے پہلے تواپنے آپکوامیربنانے کی تگ ودوشروع کر دی۔
حکومتی عہدوں کی نیلامی ہونے لگی۔ہرسرکاری عہدے کی بولی لگتی تھی۔جوزیادہ رشوت دیتاتھا،وہی اس منصب کا حقدارٹھہرایاجاتاتھا۔آپکویہ سنکرحیرانی ہوگی کہ روم میں ایک انتہائی طاقتورسینیٹ بھی تھی۔یہ تمام حکومتی معاملات میںشہنشاہ کی معاونت کرتی تھی۔کموڈس نے سینیٹ میں جانابھی ترک کردیاتھا۔سلی اینڈرنے سینیٹ کے اندربھی خرید و فروخت کاکام شروع کردیا۔جوپیسے دیتاتھا،وہ سینیٹربن جاتاتھا۔ویسے میراخیال ہے کہ پاکستان کی سینیٹ اور اسمبلیوں میں روم کی یہ ادنیٰ روایت بھرپور طریقے سے رائج ہے۔اب سلی اینڈرروم کا امیر ترین انسان تھا، مگر اسے اورپیسہ چاہیے تھا۔
دولت کمانے کاایک نیاراستہ نکالااوروہ تھاگندم اورآٹے کی قلت کروانااورتمام گندم اپنے ہاتھ میں لے لینا۔یعنی جب روم میں قحط آئے توگندم صرف اورصرف سلی اینڈرکے پاس ہونی تھی۔اس سے آگے،دولت ہی دولت،منافع ہی منافع۔سلی اینڈرنے بالکل یہی کچھ کیا۔جوبحری جہاز،گندم لے کرروم آرہے تھے۔تمام سے گندم نکال کروزیرموصوف کے عمیق گوداموں میں محفوظ کرلی گئی۔روم میں گندم کی چکیاں بندہوگئیں۔قحط پڑ گیا۔ لوگوں کوسب کچھ معلوم تھا۔مگرکموڈس کوبالکل پتہ نہیں تھا۔وہ عیش وعشرت میں غرق تھا۔ایک دن فطری واقعہ ہوا۔سلی اینڈر،محل کی طرف آرہاتھاکہ لوگوں نے اسے گھیر لیااورقتل کرنے کی کوشش کی۔بچ کربھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیااورمحل میں آکرپناہ لے لی۔
لوگوں نے اس کے خلاف نعرے لگالگاکرآسمان سر پر اُٹھالیا۔ ہرطرف اُدھم مچ گیا۔کموڈس کوشورسنائی دیا تواُٹھ کرمحل کی بالکونی میں کھڑاہوگیا۔لوگوں کا سمندر آٹے کی قلت کی وجہ سے سلی اینڈرکے خلاف نعرے لگارہاتھا۔اسکاسرمانگ رہا تھا۔کموڈس ششدررہ گیا۔ اسے غذاکی قلت کاکچھ پتہ نہیں تھا۔ خیرسلی اینڈر کو بلایا۔ پوچھ گچھ ہوئی۔اس نے قسمیں اُٹھانی شروع کردیں کہ یہ معمولی سامسئلہ ہے۔ تھوڑے عرصے میں ٹھیک ہوجائیگا۔بلکہ،یہ شہنشاہ کے مخالفین کی ایک سازش ہے۔
کموڈس نے معمولی سی تفتیش کی توسچائی سامنے آگئی۔روم میں سلی اینڈرکے ذاتی گودام،گندم سے بھرے ہوئے تھے۔مگرسرکاری گودام بالکل خالی تھے۔ کموڈس بہرحال ایک شہنشاہ تھا۔ ہرگز ہرگز بیوقوف نہ تھا۔حکومت کے آداب سے واقف تھا۔سلی اینڈر کو سب کے سامنے خودخنجرسے قتل کردیا۔اس کے بعد، اس نے تمام حکومتی معاملات مرتے دم تک اپنے پاس رکھے۔یہ سب کوئی قصہ کہانی نہیں۔بلکہ ایک بادشاہ اور اس کے لالچی وزیرکی اصل حکایت ہے۔
ہوسکتاہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ رومن بادشاہ اوراس کے وزیرسلی اینڈرکابھلاہمارے سے کیا تعلق۔ مگر گہری نظرسے دیکھاجائے توہمارے حالات، مزاج، طرزِ حکمرانی، دربارشاہی،عنایات اورالزامات کاسلسلہ سوفیصدوہی ہے جوقدیم روم کے کموڈس کے وقت میں تھا۔کسی بھی سیاسی وابستگی سے اُٹھ کر،بلکہ اسے ٹھوکر مارکر، بلاامتیاز ملک کے تہترسالہ دورکودیکھیے۔آپ دانتوں میں انگلیاں چبالیں گے کہ پاکستان میں توکموڈس باربار،روپ بدل بدل کر حکومت کرتارہاہے اورسلی اینڈراوراس جیسے عیار لوگ، جعلی طاقت حاصل کرکے عوام کاخون چوستے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پرنظرڈالیے۔
آپ کموڈس کوہر جگہ دیکھیں گے۔ 1970 کو سامنے لائیے۔ صدر پاکستان، یحییٰ خان کی ذاتی خواب گاہ کے باہردورنگ کے بلب لگے ہوئے تھے۔ سرخ اورسبز۔سرخ بلب جلنے کا مطلب یہ تھاکہ بادشاہ کو ڈسٹرب نہ کیاجائے۔ہاں جب سبز بلب جلے، تو اسٹاف اندر جاسکتا ہے۔ 1970میں مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی ہورہی تھی۔ہندوستان نے مغربی پاکستان پربھی دھاوابول دیاتھا۔حالتِ جنگ میں صدر کے احکامات کی اَشدضرورت تھی۔ہروقت ملکی صورتحال بگڑتی جارہی تھی۔
ایک دن،مشرقی پاکستان سے رات گئے انتہائی اہم پیغام آیاجوملکی سلامتی کے متعلق تھا۔ اسٹاف کی کوشش تھی کہ صدرکوفوراًاطلاع کی جائے اور احکامات لیے جائیں۔مگرلال بتی جل رہی تھی۔کمرے میں یحییٰ خان اکیلے نہیں تھے۔خواتین کے ہمراہ رقص و سرور کی شاندارمحفل برپاتھی۔اسٹاف نے بہت کوشش کی کہ صدرسے ملکرسب کچھ بتائیں۔مگربادشاہ سخت طیش میں آگیا۔اس نے کسی کوبھی ملنے سے انکار کردیا۔آگے جوکچھ ہوا،وہ تاریخ کابدنماحصہ ہے۔ غافل کموڈس نے ہمارے عظیم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
تاریخی واقعات میں اُلجھانا نہیں چاہتا۔ پرویز مشرف کے ہمہ وقت وزیرباتدبیرکی تباہ کاریوں سے دلبرادشتہ نہیں کرناچاہتا۔صرف پانچ برس پہلے کاایک آنکھوں دیکھا واقعہ عرض کرتاہوں۔پرائم منسٹر سیکریٹریٹ کسی سرکاری کام سے گیاتووہ بالکل خالی تھا۔معلوم کرنے پرپتہ چلاکہ وزیراعظم تومہینوں مہینوں دفترنہیں آتے۔گھرسے کام کرتے ہیں۔خیروزیراعظم ہائوس تک جاناناممکن تھا۔اتفاق سے ملاقات، وزیراعظم کے ایک مشیرسے ہوگئی۔وہ شخص انتہائی قابل، دیانت داراور سلجھا ہواانسان تھا۔موصوف سرپکڑکربیٹھے ہوئے تھے۔
پریشانی کی وجہ پوچھی توکہنے لگے کہ وزیراعظم نے تمام حکومتی اختیار،وزیرخزانہ کے سپرد کردیے ہیں۔فرمانِ شاہی ہے کہ کوئی بھی معاملہ ہو، صرف اورصرف وزیرکوپیش کیا جائے۔ وزیر موصوف، وزیراعظم کے سمدھی بھی تھے۔ یعنی،بادشاہ کے درباری بھی تھے اورقریبی رشتے دار بھی۔ مشیراس بات پر پریشان تھے کہ حکومت اس طرح نہیں چل سکتی۔ وزیر خزانہ تمام اہم کام نہیں نپٹا سکتا۔
وزیراعظم کااس طرح ملکی معاملات سے لاتعلق ہونا ریاست کے لیے حددرجہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ مگر وہی ہوا، جو بادشاہ کاحکم تھا۔وزیرموصوف چونسٹھ کمیٹیوں کے چیئرمین بن گئے۔انکاپارہ ہروقت چڑھا رہتا تھا۔افسروں کی سرِعام ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے۔عتاب شاہی کے ڈرسے لوگ خاموش رہتے تھے۔پھروہی ہوا۔ لاتعلق وزیراعظم، خود بھی دربدرہوگئے اوروزیرموصوف آجکل لندن میں ہیں۔ ویسے عجیب بات یہ بھی ہے کہ ماضی قریب کے کموڈس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اپنے دورکے سلی اینڈرکونشانِ عبرت بنادیتا۔
موجودہ حالات کوپرکھیے۔آپ کورومن کموڈس اور موجودہ سلی اینڈرصاف دکھائی دینگے۔ شاید ان کے خطاب، نام اورطریقہ حکمرانی بالکل مختلف ہوں، مگرصفات کے لحاظ سے حیران کن مماثلت نظرآتی ہے۔ چینی کے معاملات ہیں۔بتایاجاتاہے کہ ان کی تحقیقاتی رپورٹیں شایع کرواکے وزیراعظم نے کمال کردیا۔مگرچینی کے سلی اینڈر،آج بھی مہنگی ترین چینی فروخت کررہے ہیں۔بالکل یہی حال آٹے کا ہے۔ مگر آٹے کاسلی اینڈر،ہمیں کہہ رہا ہے کہ مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔قصرِشاہی تک لوگوں کی چیخیں اورآہ وزاری بھی نہیں پہنچتی۔
ہاں،ایک اہم بات۔سلی اینڈرتوروم کا باقاعدہ باشندہ تھا۔ ہمارے موجودہ مشیران بے تدبیر اورحکمرانوںکی اکثریت توپاکستان کی باقاعدہ شہری ہی نہیں ہے۔ یہ توغیرملکی باشندے ہیں۔وقت آنے پربڑے آرام سے بھاگ جائینگے۔مگرکموڈس مشکل میں پڑجائیگا؟خدارا،مشیران بے تدبیرکودیوارمیں چنوا دیجیے۔مگریہ تواینٹیں تک کھاجائینگے؟