پانی دو بجلی دو۔ ورنہ…
دنیا کا پانچواں حصہ خشک ہے، باقی پانی ہی پانی ہے۔
دنیا کا پانچواں حصہ خشک ہے، باقی پانی ہی پانی ہے۔ آرکٹک اور انٹارکٹیکا برف پوش ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں پانی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی بجلی کا۔ اور جن پسماندہ ممالک کو لوٹا گیا ہے وہ مسائل سے دوچار ہیں۔ لوٹ کا مال کب تک استعمال کریں گے۔ اب وہاں بھی مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔
دنیا بھر میں کھربوں ڈالرز کا اسلحہ فروختکیا جا رہا ہے اور اس کے استعمال کے لیے میدان جنگ تخلیق کیا جاتا ہے۔ اسلحہ کی پیداوار کو ترک کرکے سمندر اورگٹر کے پانی کو ری سائیکلنگ کرکے دنیا بھر میں خاص کرکے پسماندہ ملکوں میں پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اسرائیل اپنے گٹرزکے تمام پانی کی ری سائیکلنگ کرکے پینے کے قابل بنا لیتا ہے۔ سعودی عرب سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنا لیتا ہے۔ فوری سوال اٹھے گا کہ اس میں لاگت بہت آتی ہے۔ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے ؟پھر دوسرا سوال آتا ہے کہ ٹینک، توپ اور بم بنانے کے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ ہم چین اور امریکا سے اسلحہ کی درآمد کرنے کے بجائے پانی کو ری سائیکلنگ کرنے کی مشنری درآمد کریں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
جہاں تک کراچی کے پانی کا خصوصی مسئلہ ہے تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں پشاور، کوئٹہ،اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں پانی کی قلت ہے، لیکن کراچی میں نہیں ہے۔ کراچی کے علاوہ کسی بھی شہر میں ہائیڈرنٹ کے ذریعے پانی نہیں نکالا جاتا ہے جب کہ کراچی میں ہزاروں ٹینکر لاکھوں گیلن پانی ہائیڈرنٹ کے ذریعے ناجائز طور پر نکال کر فی ٹینکر ہزاروں روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ ہائیڈرنٹس طاقتور طبقات کی سرپرستی میں چلتے ہیں جو ناجائز طور پر عوام سے روزانہ کروڑوں روپے لوٹتے ہیں۔ چار سوگز پر پانی کی بھر مار ہے تو چار سوگز کے فاصلے پر لوگ پانی کے ڈبے لے کر مارے مارے پھر رہے ہیں۔
بجلی کا مسئلہ بھی ہماری حکومت نے خود تخلیق کیا ہے۔ توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے ایران نے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھا رکھی ہے۔ امریکا سے اجازت نہ ملنے پر پاکستان اس پائپ لائن کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دے رہا ہے۔ بجلی کا مسئلہ دیرینہ ہے مگر پی ٹی آئی حکومت میں یہ زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ تاہم یہ مسئلہ بھی بیرون اور اندرون ملک دونوں طرح سے بآسانی حل ہو سکتا ہے۔
اگر ایران سے تیل اور افغانستان سے گیس لینا شروع کردیں تو مسئلہ یہیں سے حل ہوجائے گا۔ دور درازجانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ افغانستان کو روس ایندھن کے لیے تیل فراہم کرتا ہے اور افغانستان سے گیس لیتا ہے۔ افغانستان کے پاس گیس اور تانبے کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ 42 سال سے جو خانہ جنگی جاری ہے وہ دراصل ان ذخائر پر قبضے کی خانہ جنگی ہے ۔
کراچی کو نجی ادارے کے۔الیکٹرک کے توسط سے بجلی دی جاتی ہے۔ جب کے ای ایس سی (KESC)کے ذریعے بجلی فراہم کی جاتی تھی تو فی یونٹ بجلی کی قیمت کم تھی۔ اتنا ٹیکس لگتا نہ اتنی بلنگ ہوتی تھی، نہ ہی میٹر تیز بھاگتا تھا اور نہ ہی اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ پھر بل کے ساتھ ٹی وی کے استعمال کی فیس اور فیول چارجز کو بھی منسلک کیا گیا۔ اس کے علاوہ تقریباً آٹھ اقسام کے ٹیکس عائد کردیے گئے۔ یعنی اگر بجلی کا بل 1000روپے ہے تو یہ سب ملاکر 2000 روپے ہو جاتے ہیں۔
وزیر توانائی کہتے ہیں کہ فرنس آئل کی جتنی ضرورت ہے ہم نے اس سے زیادہ فراہم کردی ہے،جب کہ کے۔الیکٹرک والے کہہ رہے ہیں کہ فرنس آئل کی کمی ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کے الیکٹرک افسر شاہی کروڑوں روپے گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہی ہے۔ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ تھے اور سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد تھے تو دونوں نے کے۔ الیکٹرک کو کئی بار خبردار کیا تھا کہ اس نے اگر اپنے طریقہ کار کو درست نہ کیا تو اس ادارے کو از سر نو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا۔ اگر اس کو اس تسلسل میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ اب اس سے کہیں زیادہ گھمبیر شکل اختیار کر چکا ہے۔
اس لیے اب یہ زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر کے۔ الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے کر خود چلائے۔ بہت سے قومی اداروں کی نجکاری بھی کی جا چکی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اب چینی، آٹااور پیٹرول کا بحران ہم سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ حکومت شمسی توانائی کے ذریعے کارہائے زندگی کو چلانے کے لیے شمسی پینل غریب لوگوں کو مفت اور نچلے متوسط طبقے کو 50 فیصد رعایت میں فراہم کرے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر پانی سے بننے والی سستی بجلی (Hydro Power) کو فراہم کرے۔ الیکٹرک کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے حوالے کیا جائے۔
اور اسمبلی مخصوص بجٹ مختص کرے اور یہ بجٹ کے۔ الیکٹرک کی مزدور یونینوں کے حوالے کیا جائے۔ پانی اور بجلی کے بحران پر عوامی شہری محاذ کی جانب سے کراچی سمیت ملک بھر میں عوامی احتجاج کا پروگرام بنایا جا رہا ہے جس مین نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن، لیاری عوامی محاذ اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا حقیقی حل علاقائی خود مختار کونسلز کے ذریعے ممکن ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر چھوٹی بڑی محنت کش بستیوں میں ابھی سے علاقائی خود مختار کونسلز بنانا شروع کردیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ ان خود مختار کونسلزکے لیے خصوصی بجٹ بھی منظورکیا جائے۔