قومی اثاثے بیچ کر حالات ٹھیک نہیں ہوتے
لہٰذاپی آئی اے کے اثاثے بیچنے سے اس کے حالات بہتر نہیں ہوں گے
گزشتہ ایک ماہ سے نیویارک میں پی آئی اے کے اثاثے روز ویلٹ ہوٹل کا ایک مرتبہ پھر چرچا ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کی ایک میٹنگ میں اس کی فروخت پر تبادلہ خیال کیا گیااور تجاویز مانگی گئیں، اس اہم اقدام کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کو وقتی طور پر یہ کہنا پڑا کہ حکومت ایسا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ لیکن بیک اسٹیج کام جاری رہا اور گزشتہ ہفتے سینیٹ کی کمیٹی برائے ہوا بازی میں اس کی منظوری لینے کے لیے ایک بار پھر تجاویز رکھی گئیں۔
اس کمیٹی میں پی آئی اے حکام نے بتایا کہ امریکا میں پاکستان کی ملکیت اس ہوٹل نے سال 1997 سے سال 2019 تک 424 ملین ڈالر کمائے۔جب کہ کورونا کے باعث رواں برس منافع ختم ہو گیا۔ مزید بتایا گیا کہ اسے پاکستان نے 1978میں لیز پر لیا جب کہ 1999 میں خریدلیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خطرہ ہے امریکا اسے قومی ورثہ نہ قرار دیدے، ویسے بھی عمارت پرانی ہو چکی ہے، ہوٹل خسارے میں رہے گا لہٰذا اسے فروخت کر دینا چاہیے۔
کمیٹی میں سوال اُٹھایا گیا کہ اگر ہوٹل خسارے میں ہے، یا عمارت کارآمد نہیں رہی تو امریکی صدر اسے خریدنے میں دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟ کورونا سے پہلے ہوٹل منافع میں رہا ہے تو اسے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟حالات بہتر ہونے کا انتظار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ان سوالات کے جوابات غیر موثر انداز میں دیے گئے اور یوں لگا کہ جیسے حکومت فیصلہ کر چکی ہے ۔
پی آئی اے جو کبھی دنیا کی بہترین ائیر لائن ہوا کرتی تھی،اور اپنی آمدن سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اثاثے خرید رہی تھی،جن میں نیویارک کا ہوٹل روز ویلٹ اور فرانس میں سکراب ہوٹل سرفہرست ہیں، اس کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی پی آئی اے اپنے اثاثے رکھتی ہے ، یہ اثاثے اچھے وقت میں خریدے گئے جن کی آج مالیت اربوں ڈالر بنتی ہے۔ لیکن آج اس کی حالت یہ کہ ماہانہ آمدن 7ارب روپے کے قریب اور ماہانہ خرچ 13ارب روپے ہے یعنی ماہانہ نقصان 6ارب روپے اور سالانہ نقصان کا تخمینہ 80ارب روپے سے زائد کا ہے۔
اب جب کہ اس کے حالات خراب ہیں تو ایوانوں میں بیٹھے طاقتور لابی کی نظریں اس کے اثاثوں پر ہے، کبھی اس کے اثاثوں کی دستاویزات غائب کر دی جاتی ہیں تو کبھی اندر کھاتے اثاثوں کی نجکاری کر دی جاتی ہے یا اپنے بندوں کو نوازنے کے لیے ''جوائنٹ وینچر'' کی باتیںکی جانے لگتی ہیں۔ الغرض میرے خیال میں ایئر لائن جو اربوں روپے کے قیمتی اثاثے اندرون اور بیرون ملک رکھتی ہے کے پیچھے طاقتور لابی سر گرم ہوگیاہے۔ اور خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس بین الاقوامی مافیا کے ہاتھوں استعمال ہونے والی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ طاقتور لابی اس ہوٹل کے پیچھے کیوں ہے؟ تو اس کی اہمیت یہ ہے کہ روزویلٹ کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح 23 ستمبر 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم صرف ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔یہ دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے بھی خصوصی سروس مہیا کرنا شروع کی تھی۔
اس کے علاوہ 1947 میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے کمروں میں ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے۔ 1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس کو لیز پر لیا۔ اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔ 1999 میں پی آئی اے نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔
2005 میں پی آئی اے نے روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر بھاری خرچہ آیا۔ اس کے بعد ادارے نے اپنے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہوٹل بیچنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔
خیر اب اس تاریخی ہوٹل کو فروخت کرنے کے حوالے سے باتیں منظر عام پر آنا شروع ہوگئی ہیں اور حکومت بیک فٹ پر جانے کے لیے تیار نہیں ہے،امریکا میں موجود بڑی بڑی رئیل اسٹیٹ ایجنسیاں متحرک ہو چکی ہیں، خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ہوٹل کو خریدنے میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں، مگر تاحال اس معاملے پر صدر ٹرمپ یا جائیداد کی خرید و فروخت سے متعلق ان کی کمپنی کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی۔
ہوٹل کو مختصر عرصے سے مالی نقصان کا سامنا ہے،موجودہ حکومت بھی اس ہوٹل کو ٹھکانے لگانے کی کوششوں میں ہے، لیکن امریکا میں پراپرٹی ،منافع اور دیگر امور کے ماہر اس ہوٹل کی آمدنی اور منافع کے حوالے سے کچھ الگ ہی بتاتے ہیں، جس کے مطابق ہوٹل روز ویلٹ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔ اور اگر اسے بیچنا ہی مقصود ہے تو حالات کے مزید بہتر ہونے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ ماہرین کے بقول اتنی قیمتی اور پُر کشش عمارت کو بیچنے کا یہ کوئی موزوں وقت نہیں اور شہر میں پہلے ہی عمارتوں کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری ہے۔
پی آئی اے کو چاہیے کہ وہ اصلاحات، جدت پسندی اور نئی منصوبہ بندی سے اس عمارت کو نفع بخش بناکراس کی قدر میں اضافہ کرے۔ یا سب سے اہم کہ اگر یہ گزشتہ ایک سال سے خسارے میں چل رہا ہے تو اس کی مینجمنٹ تبدیل کرے، عمران خان صاحب خود اس حوالے سے فیصلے کریں ، کیوں کہ بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت کو صحیح تصویر ہی نہیں دکھائی جاتی، اندھیرے میں رکھ غلط فیصلے کروائے جاتے ہیں جن پرقوم صدیوں ندامت کے آنسو بہاتی ہے اور ویسے بھی چینی کہاوت کا مفہوم ہے کہ آپ کے گھر کے حالات، گھر کی چیزیں بیچ کر ٹھیک نہیں کر سکتے... یہ کہاوت اُن دنوں کی ہے جب پورا چین نشے کی لت میں گرفتار تھا اور ہر کوئی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا تھا۔
لہٰذاپی آئی اے کے اثاثے بیچنے سے اس کے حالات بہتر نہیں ہوں گے، بلکہ چینی قوم کی طرح اُس کی ''مینجمنٹ'' درست کرکے اسے ترقی یافتہ بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ پی آئی اے کی ملکیت میں سارے ہوٹل بھی بیچ ڈالیں تب بھی اس کی آمدن اور اخراجات میں فرق کو کم نہیں کیا جا سکتا۔