دوہری شہریت کیا بیرون ملک پاکستانی بے کار ہیں
پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے ’’سابق پاکستانیوں‘‘ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک عام پاکستانی کا۔
آپ ذرا غور کرکے دیکھ لیں کہ پاکستان کے حصے میں جو مسائل آئے ہیں وہ یہ نہیں ہیں کہ فلاں ملک کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں،فلاںملک کیسے اتنی جلدی ترقی کر گیا، پاکستان کی ایکسپورٹ کم کیوں ہو رہی ہے، دنیا پاکستان کی پراڈکٹس خریدنے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی، یا ہمارے پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت کیوں نہیں رہی، یا ہمارے ادارے ترقی کیوں نہیں کر رہے؟
اس کے برعکس ہمارے مسائل کچھ ایسے ہیں کہ فلاں ملک میں جہاد لازم ہوگیا ہے، فلاں شہر میں فلاں فرقہ زور پکڑ رہا ہے، عید کا چاند ہم سعودی عرب کے ساتھ دیکھیں گے، فلاں شخص کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کیوں ہیں یا فلاں شخص کا تعلق فلاں مذہب سے ہے اس لیے یہ پاکستان میں کسی قسم کی خدمات دینے سے ہمیشہ قاصر رہے گا، یا فلاں شخص تو پہلے پاکستان میں رہتا تھا اس نے دوسرے کسی ملک کی شہریت اختیار کر لی ہے لہٰذااب اسے کوئی حق نہیں رہا کہ وہ پاکستان کی خدمت کر سکے۔
خیر آج کل یہ مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے غیر پاکستانیوں یا ''سابقہ پاکستانیوں'' کی خدمات لی جا سکتی ہیں یا نہیں!آئیے ہم اس پر سرسری نظر ڈالیں کہ ''خالص پاکستانیوں''نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا۔ ہمارے ہاں تو ''خالص پاکستانیوں'' کی مثالیں سب کے سامنے ہیں کہ قومی ایئر لائن کی مثال لے لیجیے۔ نجی ایئر لائنز ترقی کرتی گئیں، لیکن قومی ائر لائن زوال پذیر ہوگئی۔ لوہے کی نجی ملز منافعے جب کہ ملک کی واحد قومی اسٹیل مل تباہ ہوگئی۔
لہٰذاآج جب پورے ملک میں ایک کہرام مچا ہوا ہے کہ آپ دوہری شہریت کے حامل افراد سے کسی قسم کی خدمات نہیں لے سکتے،تو سوچیں کہ اُن پاکستانیوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جو وطن عزیز میں سالانہ 16,17ارب ڈالر رقوم بھیج کر اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچائے رکھتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بحث تب شروع ہوئی جب وزیراعظم عمران خان کے پندرہ میں سے سات معاونینِ خصوصی کے دہری شہریت کے حامل ہونے کا معاملہ زیر بحث آیا، جس کی تفصیلات کابینہ ڈویژن کے ذرایع کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہیں۔
ان تقرریوں پر شور شرابہ کرنے والے بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں کیوں کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق جو شخص کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرلے وہ ''پاکستانی'' کہلانے کا مجاز نہیں ہے۔ یعنی پاکستان کی شہریت کے حوالے سے سب سے پہلے ''پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ 1951ء'' کو مدنظر رکھنا ہوگا جس کی دفعہ 14 ذیلی دفعہ ایک میں واضح طور پر تعین کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کا کوئی شہری کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرتے ہی پاکستان کی شہریت سے محروم ہو جاتا ہے اور اگر کوئی پاکستان کی شہریت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان مشن کی وساطت سے ڈائریکٹر جنرل امیگریشن و پاسپورٹ کو فارم ''ایکس'' پرباقاعدہ ڈیکلریشن دینا ہوگا کہ اس نے دوسرے متعلقہ ملک کی شہریت چھوڑ دی ہے۔ بصورت دیگر اس کی شہریت ختم تصور کی جائے گی۔
اسی طرح ہم نے آئین کی دفعہ پانچ، ذیلی دفعہ ایک کو بھی مدنظر رکھنا ہے جس کے تحت پاکستان کے ہر شہری کے لیے ریاست کا وفادار اور آئین و قانون کا تابع فرمان ہونا لازمی تقاضا گردانا گیا ہے۔
اور ویسے بھی اس قانون کے حوالے سے ماضی میں ہماری عدالتوں میں بہت سے مقدمات کے فیصلے بھی ہوچکے ہیں جن میں عدالتوں نے اسی ایکٹ کے تحت بہت سے فیصلے بھی کیے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اس ملک نے 73سالہ تاریخ میں صدارتی نظام، ڈکٹیٹر شپ اور پارلیمانی نظام کے مختلف ادوار دیکھے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے جس میں گروتھ کا بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے لیکن گڈگورننس نہ ہونے کی وجہ سے ہم آج خطے کے دیگر ممالک کی طرح خوشحالی حاصل نہ کر سکے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے بحث کی جائے کہ پاکستان کو بہترین انداز میں کیسے چلایا جائے، آپ برطانیہ کی مثال لے لیں وہاں بہت سے دوہری شہریت والے افراد الیکشن میں حصہ لے کر ہائوس آف لارڈ میں جگہ بناتے اور برطانیہ کی خدمت کرتے ہیں حتیٰ کہ آپ برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون کو دیکھ لیں ، جب انھوں نے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ اس وقت امریکی شہریت بھی رکھتے تھے لیکن وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اُن کے لیے کسی نے مہم نہیں چلائی کہ وہ امریکی شہری ہیں لہٰذاانھوں نے اس بڑا اعزاز پا لینے کے بعد خود ہی امریکی شہریت کو ختم کروا لیا۔
ہاں ان ممالک میں ایک بات ضرور ہے کہ وہاں قومی سلامتی کے اداروں میں یا خفیہ اداروں میں ''خالص گوروں'' کو ہی لگایا جا تاہے۔ لہٰذااس وقت ملک کو یہ مسائل درپیش نہیں ہیں کہ کس کا کیا مذہب ہے اور کون کس حد تک خدمت کر سکتا ہے ، بلکہ ہمارا مسئلہ گڈ گورننس ہے، اگر پاکستان کی گورننس بہتر ہو جائے تو یقینا ہم ترقی کی شاہراہ پر چڑھ سکتے ہیں، اور ویسے بھی اگر آپ پاکستانی مشیران کی فوج بھرتی کرلیں جو کام کرنے والوں کے بجائے خوشامدیوں سے بھری ہوئی ہو تو ایسی ہجوم کا کیا فائدہ ؟ لیکن افسوس ہم پاکستانیوں کی سوچ ایسے ہی کسی خوشامدی گروہ کی تلاش میں رہتی ہے جو حکمرانوں کے صرف قصیدے پڑھتی رہے۔ بقول شاعر
بھٹک رہے ہیں مثالوں میں اب جو خاک بسر
تو اس لیے کہ ہمیں اصل سے جدائی ہوئی
لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی خدمت کرنے کے لیے ''سابق پاکستانیوں'' کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک عام پاکستانی کا، یقینا جو پاکستانی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بہترین سسٹم کو پاکستان میں رائج کرنے کے خواہشمند ہیں، ہم اُن کی خواہش اور جذبے کے سامنے کیسے پل باندھ سکتے ہیں، اس حوالے سے ہمیں ضرور سوچنا ہوگا!