قصہ ایک فاتحہ خوانی کا
خان نے کہا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں اور مرنے والے کے حق میں دو چار تعریفی جملے یا الفاظ بولے جاتے ہیں۔
LONDON:
اس دن ہم نے انتہائی ٹاپ کلاس منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اعلیٰ پائے کی آسکر ٹائپ اداکاری کی کہ اگر آپ ہوتے تو ہماری پیٹھ ضرور تھپتھپاتے کہ ایں کار از تو آئد و مردان چین کنند۔
ہم ایک ایسے صحافی کی فاتحہ میں گئے تھے جس کی صحافت کے ڈنکے چار دانگ عالم میں بجتے تھے ، تھاوہ ان صحافیوں میں جن کو علاقائی صحافی، رپورٹر، نمایندہ خصوصی یا نمایندہ اخبار فلاں فلاں و چینل فلاں فلاں کہا جاتا ہے اور اس کو اس سطح پر لانے کا گناہ عظیم ہم سے ہی سرزد ہوا تھا جس کی تلافی ہم شاید سات جنم لے کر بھی نہیں کر پائیں گے۔ اصل میں ہم نے اس کے والد نامحترم کو اس وقت صحافت میں ''ان'' کیا تھا جس وقت ہم اخبار بانگ حرم میں تھے، باپ تو اگر ایک ''انگل'' تھا تو پھر اس کا بیٹا باپ کی گدھی بلکہ گدھے پر بیٹھ کر پانچ انگل بلکہ پورا مکا ہو گیا تھا۔
باپ صرف اخباروں کے ذریعے ہنر دکھاتا تھا لیکن بیٹا ترقی کرکے چینلائز بھی ہو گیا، یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی چینل سے اس کاکوئی تعلق نہیں تھا لیکن اپنے ''دفتر'' کی جائے واردات پر اس نے جو بورڈ لگائے تھے، اس میں وہ دس بارہ چینلوں اور آٹھ دس اخباروں کا نمایندہ خصوصی تھا۔
اس کے والد نامحتر م کو جب ہم نے صحافت میں ''ان '' کرتے ہوئے گناہ عظیم کا ارتکاب کیا تھا اوراپنے لیے ''ثواب جاریہ'' کی طرز پر ''عذاب جاریہ'' یا گناہ جاریہ کی سبیل پیدا کی تھی اس وقت وہ جو خبریں ہمیں بذریعہ ڈاک بھیجتا تھا وہ کچھ اس قسم کی ہوتی تھیں کہ علاقے بھر میں پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک پولیس کے سپاہیوں سے لے کر ڈی ایس پی اور پھر آئی جی تک اور نمبرداروں سے لے کر ڈی سی تک سارے لوگوں کی بہترین کارکردگی فرض شناسی اور عوام دوستی کے چرچے ہوتے تھے یہاں تک کہ عوام کی خدمت میں چھینکنے تک کا ذکر ہوتا تھا۔
والد نامحترم کی وفات ''مسرت آیات'' اور انتقال پر جمال کے بعد جب اس کے بیٹے نے باپ کی گدی اور گدھے کو سنبھالا تو صحافت میں ایک نئے انقلاب نے گویا جنم لے لیا اس کے تمام عزیزوں، رشتے داروں کی ہمہ اقسام کی گاڑیوں پر ''پریس'' کے بورڈ لگ گئے جن میںسائیکلیں اور گدھا گاڑیاں تک شامل تھیں ان کے گھروں پر بھی پریس اور نمایندہ اخبار فلاں کے بورڈ لگ گئے، خاص طور پر بجلی کے میٹروں پر تو خصوصی قسم کے بورڈ جلی حروف میں لگ گئے۔
چھوٹے چھوٹے غنڈوں کا اور پولیس والوں کا تو اس کے دفتر میں ہجوم ہونے لگا جب کہ بڑے مجرموں اسمگلروں اور افسروں کے ارد گرد یہ خود نظر آنے لگا، ایک مرتبہ ہم نے طنزاً پوچھ ہی لیا کہ تم اس شکل و صورت کے کتنے جڑواں بھائی ہو؟ کیوں کہ ایسا کوئی دفتر یاسرکاری مقام نہیں جہاں بیک وقت تم ہی تم نہ ہو۔ بولا بھائی تومیرا ایک نہیں لیکن اپنی ڈیوٹی مستعدی سے کرتا ہوں اس لیے اللہ نے برکت دی ہوئی ہے اور یہ برکت اتنی زیادہ تھی کہ کلب کی سربراہی کے علاوہ اور بھی دس بارہ تنظیموں کا سربراہ تھا اور یہ ساری تنظیمیں اس کی جیب میں رہتی تھیں ، یہاں تک کہ انجمن قصابان اور کسان جرگہ بھی ان میں شامل تھے، اور تو کوئی بھی مرض یا آفت اسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن کورونا جو تاجدار عالم ہے اس سے نہ بچ سکا۔
ظاہرہے کہ فاتحہ کے لیے ہمیں جانا تھا اگرچہ دل میں خس کم جہاں پاک کا ورد کر رہے تھے لیکن ایسے مواقعے کے لیے ہم نے ایک لیڈرسے ایک اضافی چہرہ یا ''فیس کور'' لیا ہوا ہے اسے ڈھونڈا، پہنا اور چل دیے، جنازے میں تو نہیں پہنچ سکے تھے حالاں کہ اس وقت ہم فارغ بھی تھے لیکن نماز پڑھ چکے تھے، وضو میں تھے اس لیے خود کو کسی فرضی کام میں مصروف کر لیا تھا، لیکن فاتحے میں تو جانا تھا کہ یہ ایک ٹاپ کلاس منافقانہ مظاہرہ ہوتا ہے جو ہم نے بھی کیا اور خوب کیا۔ کم سے کم اس نائی سے تو بہتر کیا جو ایک خان کے ساتھ دوسرے گائوں میں کسی کا فاتحہ پڑھنے گیا تھا،راستے میں اس خان سے پوچھا کہ فاتحے میں کیا ہوتا ہے۔
خان نے کہا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں اور مرنے والے کے حق میں دو چار تعریفی جملے یا الفاظ بولے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو نائی نے عجلت میں ہاتھ اٹھائے اور دعا کے اختتام پر اب تعریفی الفاظ...کہنا تھے تو بولا، خدا بخشے مرحوم کی داڑھی کے بال ریشم جیسے نرم تھے۔ خان نے ٹوکا کہ کم بخت مرنے والی عورت تھی، نائی نے فوراً تشریح کرتے ہوئے کہا ۔ مرحومہ خاتون تھیں لیکن اتنی نیک تھی کہ خدا نے داڑھی عطاء فرمائی تھی، خان نے پھر سرگوشی کی، کم بخت اس کی داڑھی نہیں تھی۔ نائی نے کہا ہاں چہرے پر بظاہر داڑھی نہیں تھی لیکن بابرکت خاتون تھی اس لیے داڑھی اس کے سینے پر تھی۔
ہم نے بھی وہاں مرحوم کی کچھ ایسی تعریف کی لیکن اس کے تینوں بیٹوں کو باپ سے زیادہ اس بات سے دلچسپی تھی کہ جنازے میں کتنے بڑے بڑے لیڈروں اور افسروں نے شرکت کی تھی، یہ انھیں پتہ تو یقیناً ہو گا کہ ان میں اکثر بے وضو ہو کر اور دل میں کوسنے پڑھ کر شریک تھے کیوں کہ وہ خود بھی وضو جیسی چیزوں سے نا آشنا لگتے تھے۔