لذت آشنائی
میں جو لکھتا ہوں تو لکھتا ہوں کوئی اپنے لیے<br />
شمع کیا کرتی ہے کوئی روشنی اپنے لیے
''لذت ِآشنائی'' پروفیسر خیال آفاقی کا نیا شعری مجموعہ ہے۔ آپ ایک کہنہ مشق شاعر اور ادیب ہیں۔ آپ کی شاعری بے مثل و بے نظیر ہے۔
میں جو لکھتا ہوں تو لکھتا ہوں کوئی اپنے لیے
شمع کیا کرتی ہے کوئی روشنی اپنے لیے
یہ شعر پروفیسر صاحب کے تازہ شعری مجموعے ''لذت آشنائی'' سے ہی ماخوذ ہے۔ یہ بات بلاشبہ دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پروفیسر خیال آفاقی ادب کی ہر صنف پر بے تکان لکھتے ہیں اور اس میں ہر خاص و عام کے لیے کشش موجود ہوتی ہے۔ ہم آپ کے شعری اور نثری کام سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ نے ناول بھی لکھے ہیں، افسانے بھی تحریر کیے ہیں۔ ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی تخلیق کیے ہیں اور سفر نامے بھی رقم کیے ہیں، پھر سب سے بڑی سعادت انھیں یہ نصیب ہوئی کہ قدرت نے ان سے ''رسول اعظم'' جیسی محکاتی انداز میں سیرت کی کتاب تحریرکرائی جو سیرت کے حوالے سے ایک منفرد تالیف ہے۔
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، ان کی صوفیانہ انداز کی شاعری انھیں ایک منفرد شاعر بناتی ہے اور ان کا رشتہ حکیم الامت علامہ اقبال سے جوڑتی ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ پر علامہ کا سایہ ہے۔ وہ خود کو علامہ اقبال کا شاگرد کہتے ہیں اور اس میں وہ حق بجانب بھی ہیں، اس لیے کہ ان کی شاعری میں علامہ صاحب کی وہی خو بو نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی کا یہ آٹھواں شعری مجموعہ ہے۔ اقبال کے حوالے سے ان کا جو تذکرہ کیا گیا ہے تو کتاب کے عنوان سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے یہ علامہ کے شعر '' عجب چیز ہے لذتِ آشنائی'' سے ماخوذ ہے۔ اس سے قبل پروفیسر صاحب کا شعری مجموعہ ''نفس جبریل'' بھی ان کی علامہ اقبال سے روحانی نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے نام معنون کیا گیا ہے۔
کتاب میں شامل سارا کلام پروفیسر خیال آفاقی کے روایتی طرز سخن کی خصوصیات کو لیے ہوئے ہے جو بھرپور تبصرے کا تقاضا کرتا ہے۔ مختصراً اتنا کہہ سکتے ہیں کہ نہایت اعلیٰ فکر انگیز اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مضامین سے ''لذتِ آشنائی'' کے اوراق منہ سے بولتے نظر آتے ہیں چند اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں:
سفینے میں قدم رکھنے سے پہلے سوچ لیجیے گا
فقط پانی نہیں دریا میں طغیانی بھی ہوتی ہے
بغیر عشق نہیں ہوتی زندگی پرجوش
کہ شعلہ بنتا نہیں ہے کوئی شررکے بغیر
کبھی کبھی مری وحشت پکار اٹھتی ہے
یہ آدمی ہے کہ آتش فشاں کہاں ہوں میں
مسافروں نے مرا ذکر خیر چھیڑ دیا
سفر میں جب کوئی موضوعِ گفتگو نہ ملا
یہ رنگ و نور فقط دیکھنے کے ہیں ورنہ
پس بہار گلستاں ہے اور ہی موجود
اپنے رنگ و خوشبو کو اپنے تک ہی مت رکھیے
ہم بھی سانس لیتے ہیں آپ کے زمانے میں
لذتِ آشنائی کی اہمیت جاننے کے لیے اس کی نظموں کے عنوانات کو نظر سے گزارنا ضروری ہے۔ ''قحط الرجال فکر پریشاں، غوغائے نگاہ، انا اور خودی، خواجہ معین الدین چشتیؒ، سردار عبدالرب نشتر دعائے مجنوں، متاع گمشدہ، نوادرات، اک حرف لہو رنگ، مینار پاکستان، نذرگنج بخشؒ، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مرگ مسلسل، فیس بک مختصر یہ کہ پروفیسر خیال آفاقی کے ادبی سرمائے میں '' لذتِ آشنائی'' ایک اہم پیش رفت ہے۔
پروفیسر صاحب کے اس سے پہلے شایع ہونے والے شعری مجموعے بھی انتہائی پر اثر تھے جنھیں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ کے زیر نظر مجموعے پر تبصرہ کرنا مجھ جیسے کم علم کے لیے چھوٹا منہ بڑی بات جیسا ہے۔ میں نے یہاں جو کچھ بھی آپ کی شاعری پر لکھا ہے اسے ہرگز تبصرہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ تو میں نے ان کی کتاب کا تعارف پیش کیا ہے اور شاید اس کا بھی حق ادا نہیں کرسکا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری نظر میں آفاقی صاحب کی شخصیت اور ان کا کام خواہ نثری ہو یا شعری آفاقی حیثیت کا حامل ہے۔
پروفیسر صاحب کی ادبی خدمات کو ہمارے زمانے میں جو پذیرائی مل رہی ہے لگتا ہے آنے والے دور میں اس سے بھی زیادہ سراہا جائے گا پھر علامہ اقبال سے ان کی ذہنی ہم آہنگی اور روحانی قربت کے حوالے سے انھیں اقبال کا ایک سچا فرض شناس شاگرد ہونے کا بجا طور پر شرف حاصل ہے۔ پروفیسر صاحب کے ایک پرستار مقصود پرویز لکھتے ہیں کہ پروفیسر خیال آفاقی نے نظم و نثر دونوں اصناف میں بے حساب لکھا ہے پھر ان پر بھی اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ آپ سیرت النبیؐ پر ''رسول اعظم'' کی تالیف اپنے والد محترم قبلہ صوفی علاؤالدین نقشبندی مجددی کی سوانح ''خدا دوست'' اور علامہ اقبال کی حیات اور فکر و فن پر ''شاعر اسلام'' جیسی معرکۃالآرا نثری کتابیں تحریرکرکے اور ساتھ ہی اپنی بے مثال اور باکمال شعری کتابیں نذر قارئین کرکے اس دورکے معتبر ترین مصنفین اور شعرا کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔