باتوں کے بھوت

باتوں کے بھوت یہ سمجھتے ہیں کہ ملک صرف تقریروں سے چل سکتا ہے


اکرم ثاقب August 04, 2020
باتوں کے یہ بھوت پاکستان کو پتہ نہیں کس دنیا میں لے جائیں گے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک زمانہ ہوا کرتا تھا کہ کہاوت زبان زد عام تھی ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے''۔ مگر پھر یہ ہوا کہ سیاست کے پردۂ سیمیں اور طاقت کے برآمدوں میں ایک نیا بیانیہ نمودار ہوا۔ اس بیانیے کے میدان میں آنے سے بہت سارے علوم ہی الٹ ہوگئے۔ تاریخ، جغرافیہ سب ہی اپنی جگہ کچھ اور کمزور ہوگئے۔ بہت ساری اصطلاحات کے معنی بدل گئے اور بہت ساری نئی اصطلاحات مارکیٹ میں آگئیں۔ کچھ پرانے اقوال کو بالکل ہی متضاد سمجھا جانے لگا۔ سیاستدان کوے زیادہ اور انسان کم رہ گئے۔ اور کوے بھی وہ جو بے بس بچے سے کھانے کی چیز چھننے والے ہیں۔ جیسے نااہل حکومت غریب اور بے بس عوام سے روٹی کا نوالہ دور سے دور کرنے کی بھرپور سعی کرتی ہے۔ ایسی دور اندیش قیادت پہلے دن سے ہی کوشش کرتی ہے کہ غریبی بے شک رہے مگر غریب کوئی نہ رہے۔ ڈالر کی قیمت جتنی بھی بڑھ جائے حکومت کا معیار اوپر نہ جائے۔ روپے کی قیمت گرتی ہے تو گر جائے مگر سیاستدانوں جتنی نہ گرے۔

ایک نئے بیانیے سے جو بھوت شروع ہوئے تھے اور باتوں کے ایسے ایسے گولے چلائے تھے، ایسے ایسے وعدے کیے تھے کہ جو اس وقت بھی جھوٹ ہی لگتے تھے اور آج تک ان میں سے ایک ہی سچ ثابت ہوا ہے اور وہ ہے ''میں نہ مانوں''۔ میں نہ مانوں کہ سارے حالات کی ابتری کی ذمے داری مجھ پر ہے۔

باتوں کے یہ بھوت پاکستان کو پتہ نہیں کس دنیا میں لے جائیں مگر پاکستانیوں کو ایک ہی نصیحت کریں گے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی فورم ہو، کوئی موقع ہو، یہاں تک کہ یہ باتوں کے بھوت کسی مرگ میں افسوس کرنے جائیں یا کسی کے جنازے میں شرکت کرنے جائیں، وہاں چار بندے دیکھ کر یہ چور چور کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب تو خیر چور کی گردان پرانی ہوگئی، اب یہ مافیا مافیا کہنا شروع کردیتے ہیں کہ چوروں سے زیادہ مافیا جھولیاں بھرا کرتی ہے۔ صرف دل جلانے کی بات کرتے ہیں۔ شکر ہے صرف بات ہی کرتے ہیں، ورنہ یہ تو جلانے میں بھی بہت آگے تک پہنچے ہوئے ہیں۔ باتوں کے بھوت یہ سمجھتے ہیں کہ ملک صرف تقریروں سے چل سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ تقریریں لکھ کر دینے والے نے انہیں یہی کہا ہو کہ تم تقریریں کرتے رہنا ملک خودبخود چلتا رہے گا، جس طرح پچھلے ستر سال سے چل رہا ہے۔

مگر شاید اب وقت کچھ بدل چکا ہے۔ اب یہ ملک خداداد خودبخود نہیں چل سکتا۔ اسے چلانے کےلیے باتوں کے بجائے کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کی معیشت کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات کی ضرورت ہے۔ امریکا، چین اور دوسری بڑی طاقتوں سے آزادی کی ضرورت ہے۔ تاکہ اپنی مرضی کی پالیسی بنائی جاسکے۔ لیکن باتوں کے بھوتوں کی نگری میں ایسا کچھ بھی ہوتا ہوا نطر نہیں آسکتا۔ اگر کچھ نظر آسکتا ہے تو وزیروں، مشیروں کی خوبصورتی اور حسن کی تعریف نظر آسکتی ہے۔ کیونکہ باتوں کے بھوتوں کے دیس میں وزیروں، مشیروں کی خوبصورتی کو ملک کی ترقی سے جوڑا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر حسینہ عالم کسی ملک کی سربراہ بن جائے تو وہ ملک بھی ساری دنیا کا سردار بن جائے، کیونکہ اس کا سربراہ ''ہینڈسم'' ہوگا۔ ایسا ہوتا تو آج بہت سارے وہ ممالک جہاں حسینہ عالم نے جنم لیے وہ عالمی طاقتیں ہوتے۔ مگر رکیے! کہیں امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ نے شاید اسی بنیاد پر ترقی کی ہوگی کہ وہاں آئے دن حسینہ عالم پیدا ہوتی رہتی ہیں۔

ان باتوں کے بھوتوں کے رواج ہی نرالے ہوتے ہیں اور فیصلے تو اس سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں۔ جن سے جان چھڑوانی ہوتی ہے، یہ ان ہی اداروں سے چن چن کر لوگوں کو اپنے ملک میں لاکر بھرتی کرتے ہیں تاکہ وہ بھی ان کی باتوں والی پالیسی کی داد دیتے رہیں۔ یہ باتوں کے بھوت ہر روز پریس کانفرنس کرکے کچھ نہ کچھ بتا کر ہی جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ طے ہوتا ہے کہ کوئی بھی پریس کانفرنس کرنے آئے اس نے کچھ اس طرح بات کرنی ہے کہ آدھے گھنٹے کی کانفرنس میں دس منٹ سابقہ حکومت کو چور چور کہنا ہے، اگلے دس منٹ سابقہ حکومت کے چوروں کی وجہ سے ملک کو جو نقصان ہوا وہ بیان کرنا ہے اور آخری دس منٹ صحافیوں کے ہر سوال کے جواب میں یہ بتانا ہے کہ آج حالات اگر ایسے ہیں تو اس میں سابقہ حکومت کا ہی قصور ہے۔ ان کی تمام تقریروں اور تمام پریس کانفرنسوں کا یہی خلاصہ اور لب لباب ہے۔ اگر یقین نہیں تو کوئی بھی، کسی کی بھی، کسی بھی موقع کی تقریر یا پریس کانفرنس دیکھ، سن لیجئے۔ یہاں تک کہ غیر ملکی دوروں کے دوران ان کی تقاریر کی ترتیب بھی یہی ہوگی۔

''یو ٹرن'' جب پالیسی بن جائے تو وعدے کی پابندی کرنے والے ممالک خود ہی منہ موڑ لیتے ہیں۔ صرف وہ ہی ساتھ نظر آتے ہیں جن کا اپنا مطمع نظر یو ٹرن ہی ہوتا ہے۔ جو آپ کو سبز باغ دکھا کر پھر یوٹرن لے لیتے ہیں کہ آپ جانیں اور آپ کا کام۔ جیسے ہمارے ہاں کے چوکیدار رات پہرہ دیتے وقت کہتے رہتے ہیں کہ جاگتے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں