اندازِ نظر آخری قسط
وہ دھیرے دھیرے اس بالٹی یعنی جار کو ہلاتے بھی جارہے تھے، کافی سارے کنکر جہاں جہاں جگہ خالی تھی وہاں سما گئے۔
پروفیسر صاحب نے کلاس میں داخل ہوتے ہوئے اپنے طالب علموں پرنظر ڈالی اور کہا ''آج میں تمہیں زندگی کا نہایت اہم سبق سکھانے جا رہا ہوں، وہ اپنے ہمراہ کانچ کی ایک بڑی Jar نما بالٹی لائے تھے جس کو میز پر رکھ کر وہ اپنے بیگ سے ٹیبل ٹینس کی گیندیں نکال کر اُس جارمیں ڈالنے لگے اور تب تک ڈالتے رہے جب تک اُس بالٹی میں ایک بھی گیند ڈالنے کی جگہ باقی نہ رہی۔ انھوں نے طلبہ سے پوچھا ''کیا یہ جار پوری طرح سے بھر گیا ہے؟ ''، ''جی ہاں'' طلبہ نے ایک ساتھ جواب دیا پھر پروفیسر صاحب نے اپنے بیگ سے چھوٹے چھوٹے کنکر نکال کر اُس بالٹی میں بھرنے شروع کر دیے۔
وہ دھیرے دھیرے اس بالٹی یعنی جار کو ہلاتے بھی جارہے تھے، کافی سارے کنکر جہاں جہاں جگہ خالی تھی وہاں سما گئے۔ پروفیسر صاحب نے پھر پوچھا، کیا اب بالٹی بھر گئی ہے؟ طالب علموں نے ایک بار پھر ''ہاں'' میں سر ہلائے۔ اب پروفیسر صاحب نے بیگ سے ایک تھیلی نکالی اور اُس میں سے ریت نکال کر دھیرے دھیرے اُس بالٹی میں ڈالنا شرع کر دی، وہ ریت بھی اُس جار میں جہاں جہاں جگہ تھی بیٹھ گئی۔ یہ دیکھ کر طلبہ اپنی نادانی پر ہنسنے لگے ۔
پروفیسر صاحب نے ایک بار پھر سوال کیا ''اب تو یہ بالٹی پوری بھر گئی ہے ناں؟'' ''جی'' اب تو بالکل پوری بھر گئی ہے سر، سب نے ایک آواز میں کہا۔ پروفیسر نے بیگ کے اندر سے جُوس کے دو ڈبے نکال کر جوس اُس جار میں انڈیلا ،جوس بھی ریت کے بیچ تھوڑی سی جگہ میں جذب ہوگیا۔ اب پروفیسر صاحب نے نہایت ہی گھمبیر آواز میں سمجھانا شروع کیا ۔
اس کانچ کی بالٹی یا جار کو تم اپنی زندگی سمجھو۔ ٹیبل ٹینس کی گیندیں تمہاری زندگی کے سب سے اہم کام ہیں مثلاً طرزِ معاشرت، حصولِ معاش، تعلیم و تربیت، خاندان، بیوی بچے، نوکری، صحت اور تحفظ وغیرہ۔ چھوٹے کنکر تمہاری عام ضروریات اور خواہشات ہیں۔ گاڑی،بنگلہ، نوکر چاکر، موبائل ، کمپیوٹر اور اسی طرح کی دیگر اشیاء اور ریت کا مطلب ہے، چھوٹی چھوٹی بیکار اور فضول باتیں، جھگڑے ، آوارہ گردی، ہوائی قلعے بنانا، ٹائم پاس کرنا، وقت کا زیاں وغیرہ۔اگر تم نے کانچ کے اس جار میں سب سے پہلے ریت بھری ہوتی تو ٹیبل ٹینس کی گیندوں اور کنکریوں کے لیے جگہ ہی نہیں بچتی یا صرف کنکر بھر دیے ہوتے تو گیند نہیں بھر پاتے ریت ضرور آسکتی تھی۔
ٹھیک یہی طریقہ کار زندگی پر لاگو ہوتا ہے، اگر تم فضول اور لایعنی چیزوں کے پیچھے پڑے رہوگے اور اپنی زندگی اس کے چکر میں ختم کردو گے تو تمہارے پاس اہم باتوں کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ ''ایک کامیاب اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے یہ اہم سبق ہے ۔ اب یہ تم خود طے کرلو کہ تمہیں اپنی کانچ کی بالٹی کو کس طرح سے بھرنا ہے؟۔ اچانک ایک طالب علم نے پوچھا، سر! لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جُوس کے دو ڈبے کیا ہیں؟ پروفیسر مسکرائے اور بولے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک کسی نے یہ سوال کیوں نہیں کیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں اور کس قدر ہی کامیابیاں کیوں نہ سمیٹ رہے ہوں لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں کے ساتھ تعلق کی مٹھاس کی گنجائش ہمیشہ رکھنی چاہیے اور یہ موجود بھی ہوتی ہے۔
مجھ تک اس سلسلے میں جو میٹریل پہنچا ہے، اُس کی صرف ایک قسط باقی ہے تو آیئے پہلے ا س سے نمٹ لیں باقی باتیں بعد میں ہوجائیں گی لیکن امکان غالب یہی ہے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آج لیکچرز کا آخری دن تھا ،کلاس روم کے طلبہ کی چہ میگوئیاں جاری تھیں، اتنے میں پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہوئے کلاس روم کی بھنبھناہٹ آہستہ آہستہ گہری خاموشی میں بدلنے لگی دیکھا کہ پروفیسر کے پیچھے ایک غبارے والا ڈھیر سارے سرخ رنگ کے غبارے لیے داخل ہو رہا ہے، پروفیسر کے اشارے پر غبارے والے نے ایک ایک کرکے سارے غبارے طلبہ میں تقسیم کردیے۔ سر آج ویلنٹائن ڈے تو نہیں ہے؟ ایک طالب علم نے جملہ کسا۔ سر کیا آج آپ کی سالگرہ ہے؟ ایک اور طالب علم بولا۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا، اب ہر ایک کو مارکر کا استعمال کرتے ہوئے ان غباروں پر اپنا نام لکھنا ہے ۔سب نے پروفیسر کے کہنے پر اپنے نام لکھ دیے۔ اس کے بعد تمام غبارے جمع کر کے دوسرے کمرے میں ڈال دیے گئے، اب پروفیسر صاحب نے تمام طالب علموں سے کہا کہ آپ سب غباروں والے کمرے میں جائیں اور اپنے اپنے نام والا غبارہ تلاش کریں ، دھیان رہے کہ کوئی غبارہ نہ پھٹے اور آپ کے پاس اس کام کے لیے صرف دو منٹ ہیں۔ ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے اپنے نام کا غبارہ تلاش کرنے لگا۔
سارے غبارے ایک ہی رنگ کے تھے، دو منٹ میں کوئی بھی اپنے نام والا غبارہ تلاش نہ کرسکا ۔ پروفیسر نے کہا اب آپ کے پاس دو منٹ اور ہیں کوئی بھی غبارہ پکڑ کر اُس کے نام والے شخص کو دے دیں۔ پلک جھپکنے میں تمام افراد کے پاس اپنے اپنے نام والے غبارے تھے۔ پروفیسر کلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے۔''بالکل اسی طرح ہماری زندگی ہے، ہر کوئی بدحواسی کے عالم میں اپنے اردگرد خوشیاں تلاش کر رہا ہے، یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کہاں ہیں ، یاد رکھو ہماری خوشی دوسروں کی خوشی میں پنہاں ہیں، ان کو اُن کی خوشی دے دیں تو آپ کو آپ کی خوشی مل جائے گی۔
ایمان داری کی بات ہے کہ اس تحریر کو پڑھتے وقت میں نے اپنے آپ کو اسی کلاس کے کسی بچے کی طرح محسوس کیا اور یہ جانا کہ بعض اوقات بہت بڑی بڑی باتوں کے سرے عام روزمرہ کی اور ہمارے سامنے رکھی چیزوں میں ہوتے ہیں مگر ہم اُن پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور عملی طور پرcommon sence is the most uncommon sence کی تقلید کرتے رہ جاتے ہیں۔